کیا دہشتگردی مسلمانوں کی وراثت ہے؟

انٹرنیشنل میڈیا پر 2005 میں ایک جملہ بہت دوہرایا جانے لگاکہ’’ ہر مسلمان دہشتگرد نہیں ہے لیکن ہر دہشتگرد مسلمان ہے‘‘۔ پھر اسی جملے کو ممبئی میں ہونے والے 2006 کے سلسلہ وار ٹرین دھماکوں کے بعد بہت اچھالا گیا۔ چند سینکڑوں سالوں میں جتنے بھی دہشتگردانہ حملے ہوئے اگر ان پر تحقیق کی جائے تو ہمیں جو نذر آئے گا وہ کچھ اس طرح ہو گا۔ سب سے پہلے دہشتگردی کی تعریف جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ دہشتگردی کا معنی بہت پیچیدہ اور مختلف ہے۔ کیونکہ یہ معنی ہر دور میں جگہ کے حساب سے ، اور تاریخ کے اعتبار سے بدلتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کی وضاحت کرنا ناممکن ہے ۔اگر ہم فرانس کے انقلاب کا مبہم سا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ،سب سے پہلے یہ لفظ دہشتگردی استعمال کیا تھا ایک انگریز نے جس کا نام تھا ایڈون برگ کہ جب 1790سے 93 کا دور دہشت کا دورکہلایا جاتا تھا ۔فرانسیسی انقلاب پر بہت سے سوالات اٹھے تو فرانسیی سرکار نے اپنی کاروائی کی وضاحت کیلئے ان لوگوں کو دہشتگرد کہا، جن پانچ لاکھ سے زیادہ لوگوں کو پکڑ ااور ان میں سے چالیس ہزار سے زیادہ کا سر کاٹ دیا ، دو لاکھ سے زیادہ کو ملک بدر اور دولاکھ سے زیادہ کو بھوک سے مار دیا تھا۔ 1886 میں شکاگو کی ایک وادی میں بہت بڑا لیبر جلوس نکلا جہاں پولیس پر دھماکہ ہوا ۔ جس کے بعد پولیس والوں اور مزدوروں کے مابین جھگڑا شروع ہوا اور سات پولیس والے مزید مارے گئے ، کل ملا کر بارہ پولیس اہلکار ہلاک ہوئے جس کے ذمہ دار آٹھ انارکس تھے جو حکومتی سیاسی جماعت اور اپوزیشن کے نمائندہ تھے ۔اس وقت ان مزدوروں کو دہشتگرد کہا گیا اور ان کا قتل عام کیا گیا ۔آج انہی مزدور وں کے نام کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔28جون 1914میں آسٹریا کے شہزادے اور اس کی بیوی کو ہلاک کر دیا جاتا ہے جس کے بعد عالمی جنگ نمبر 1کا آغاز ہوتا ہے جس کے پیچھے ایک ینگ بوسینز نامی گروپ تھا اور وہ صرف غیر مسلموں پر مشتمل تھا ۔اس قتل کے بعد یورپی یونین دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور دوسری جنگ عظیم کی بھی بنیادی وجوہات یہی تھیں جو پہلی جنگ عظیم میں تھیں جس میں تقریباََ چھ سے آٹھ کروڑ لوگ ہلاک ہوئے ۔ پہلی جنگ عظیم میں ایک کروڑ بیس لاکھ سے زائد نہتے معصوم شہری مارے گئے ۔اس جنگ میں ایک طرف جرمنی ، ترکی ، آسٹریا ، ہنگری ،بلغاریہ اور دوسری طرف امریکہ، برطانیہ ، انگلینڈ ، روس فرانس پرتگال اور جاپان تھے۔ترکی کو جو اس وقت خلافتِ عثمانیہ کا مرکز تھا ، جرمنی کا اتحادی ہونے کی وجہ سے اس جنگ کی بڑی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ۔ انگریزوں نے ترکی پر قبضہ کر لیا اور ترکی کو توڑنے کی کوشش کی لیکن کمال پرتگال نے انگریزوں کو اس سے بعض رکھا ۔ 19اپریل 1999 میں امریکہ کے مرکزی عمارت میں دھماکے ہوتے ہیں جس میں 166 لوگ مارے جاتے ہیں جو اس وقت تک تاریخ کا سب سے بڑا حملہ تھا جس کا سارا ملبہ عربوں اور مسلموں پر میڈیا میں ڈالا جاتا رہا ۔ تحقیق کے بعد علم ہوا کہ اس کے ذمہ دار دو امریکن لوگ نیکلس اور ٹریمیتی تھے ، جن کی گرفتاری کے دودن بعد خبر یں غائب ہو جاتی ہیں ۔نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکہ نے منظم جنگ کا آغاز مسلم ممالک کے خلاف کیالیکن تحقیق کے بعد جارج بش کو سب سے بڑا دہشتگرد کہا گیا اور نائن الیون کو امریکی ایجنسیوں کی کاروائی ۔ 1945 میں جب برٹش یرو شلم پر حکومت کر رہے تھے تب وہاں کئی یہودی آزادی کا نعرہ لگانے والے تھے جنہیں برٹش کہتے تھے کہ یہ دہشتگرد گروپ ہے ۔ ایک گروپ نے22جولائی 1946میں ہوٹل کنگ ڈیوڈ پر حملہ کیا جو برٹش سرکار کا مرکزی دفتراور آرمی کا ہیڈ کوارٹربھی تھا ۔اس ’’ارگن‘‘نامی یہودی گروپ نے عربوں جیسے کپڑے پہن کر کنگ ڈیوڈ ہوٹل پر حملہ کیاجس میں 41 مسلمان شہید اور باقی یہودی ، برٹش وغیرہہلاک ہوئے ۔ اس ارگن گروپ کے کئی صدر تھے جن میں کچھ کے نام ہیں ’’ ریبین ، مینیکم بیگین ، ایریل شرون‘‘ ۔ برٹش سرکار انہیں دہشتگرد کہتی تھی لیکن بعد میں جب اسرائیل ناجائز ریاست بنتی ہے تو انہیں دہشتگردوں میں سے کئی لوگ وزیر اوروزیر اعظم بنتے ہیں۔ جس کے فوراََ بعد فلسطینی مسلمان اسی آزادی کیلئے لڑ تے ہیں تو یہی ایریل شرون ،مینیکم بیگین انہیں دہشتگرد کہتے ہیں ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہٹلر نے یہودیوں کو جرمنی سے بھگایا تھاتو یہودی جگہ،جگہ مارے پھررہے تھے ۔ اس وقت فلسطینیوں نے خوش آمدید کہا تھا اور اس کے بعد یہی یہودی ان فلسطینیوں کو مار کر بھگاتے ہیں اور دہشتگرد کہتے ہیں ۔ اسی طرح امریکہ ، ساؤتھ افریقہ سمیت کئی ممالک کی مثالیں آپ کو تاریخ میں ملیں گی جہاں ان ممالک کو کسی بھی قابض فوج یا حکومت سے آزادی کی آواز اٹھانے والوں کو دہشتگرد کہا گیا پھر جب وہ سلطنتیں آزاد ہوگئیں تو وہی دہشتگرد ہیرو کہلائے ۔ کیسا دوہرا رویہ ہے؟ کوئی دہشتگردی کے لفظ کی وضاحت کر سکتا ہے؟ہمیں اقوام متحدہ بتائے کہ کیسے دہشگردی مسلمانوں کی وراثت میں ہے؟ کیا اقوام متحدہ اور مسلم ممالک میں کوئی عدل کے تقاضے موجود ہیں؟ پاکستان میں ایف اے ٹی ایف کے اجلاس چلتے رہے جس میں صرف ایک ہی مطالبہ رہا کہ حافظ سعید اور فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن پر پابندی لگائی جائے وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ منی لانڈرنگ سے حافظ سعید اور فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن کو امداد ملتی ہے جس سے وہ کشمیر ، ہندوستان اور دیگر ممالک میں جہاد کے نام پر دہشتگردی کرتے ہیں۔ سابقہ حکومت نے ان باتوں پر عمل کر کے حافظ سعید کو نظر بند کر دیا تھا لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان نے ثبوت نہ ہونے کی بنا پر حاٖفظ سعید اور فلاح انسانیت پر سے پابندی ہٹا دی تھی ۔ سب سے پہلے تو میں وزیر اعظم پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے یہ کہنا چاہوں گا کہ جہاد کے معنی سمجھیں ! اس کے بعد انتہائی افسوس ہوا مجھے موجودہ پڑھی لکھی حکومت پر جو حافظ سعید اور فلاحِ انسانیت کی وضاحت عالمی دنیا کے سامنے کرنے میں ناکام رہی ۔ انہیں بتائیں کہ پاکستانی عوام فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن اور حافظ سعید ،جہاد ، تحریک آزادی جموں و کشمیر ، کشمیری بھائیوں سے محبت کرتے ہیں ،سر زمین کشمیر کو اپنی شاہ رگ کہتے ہیں اور اس کیلئے تن ، من ،دھن سے قربانی دینے کو تیار ہیں۔ دوسری بات کہ اگر یہ دہشتگردی ہے کہ آج کشمیری مسلمانو ں جن پر اتنے مظالم ہو رہے ہیں ، حال ہی میں پلوامہ حملے کے بعد کشمیر کے ایک گاؤں کی تمام ماؤں بیٹیوں کی عصمت دری بھارتی فوجیوں نے ایک ہی رات میں کردی، کیلئے آواز اٹھانا اور ان کی مدد کرنا توپھر امریکہ ، اسرائیل ، بھارت سب سے بڑی دہشتگرد حکومتیں ہیں ۔ اقوام متحدہ میں ان پر بھی پابندی لگنی چاہئے کہ یہ لوگ افغانستان، کشمیر ، فلسطین ، عراق ، شام میں معصوم لوگوں پر بمباری کر رہے ہیں اور ان کا قتل کر رہے ہیں ۔ جبکہ حافظ سعید اور فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن تو صرف انسانیت کی خدمت کرنا جانتی ہے، جو تھر سمیت ہر جگہ جہاں انسانیت پامال ہو رہی ہے بلاتفریق مذاہب ، خوراک و پانی اور دیگر ضروریات زندگی فراہم کر رہی ہے ۔ سب سے پہلے حکومت پاکستان اقوام متحدہ سے یہ سوال کرے کہ وہ لفظ دہشتگردی کی وضاحت کر دے کہ کیا انسانیت کی خدمت و احساس کرنا دہشتگردی ہے؟ ہمارا دین تو اسے عبادت کہتا ہے اور ہمیں عبادت کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔تاکہ اقوام متحدہ کے ساتھ مزید چلنے کے بارے میں آئندہ سوچا جائے ۔

Malik Shafqat Ullah
About the Author: Malik Shafqat Ullah Read More Articles by Malik Shafqat Ullah: 33 Articles with 27466 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.