جنگ کسی مسئلے کا حل تو نہیں لیکن ........

جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں لیکن جارحیت کاارتکاب جب قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن جائے تو وطن عزیز کا دفاع لازم ہوجاتا ہے۔27فروری 2019ء کی صبح بھارتی طیاروں نے جب دوبارہ کنٹرول لائن عبور کی تو پاک فضائیہ کے شاہینوں نے دونوں بھارتی طیارے مارگرائے ‘جس پر پاکستانی قوم کا جذبہ اور ولولہ قابل دید تھا ۔ جس طرح گرفتار انڈین پائلٹ کو تمام تر مخالفت کے باوجود واپس کردیاگیا‘ ابھارت کوکشیدگی ختم کرکے مذاکرات کی میز کی جانب لوٹنا چاہیئے تھا ‘ افسوس کہ ایسانہیں ہوا بلکہ کنٹرول لائن پر اب بھی گولہ باری کی جارہی ہے جس میں پانچ پاکستانی فوجی شہید بھی ہوچکے ہیں ۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے ایک واقعہ یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں جو جنگوں کی تاریخ کا آئینہ دار ہے۔" دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریاں دیکھ کر کسی نے آئن اسٹائن سے پوچھا کہ تیسری جنگ عظیم کن ہتھیاروں سے لڑی جائے گی ۔آئن اسٹائن نے کہا تیسری جنگ کا تو مجھے معلوم نہیں ‘ البتہ چوتھی جنگ عظیم کلہاڑیوں اور ڈنڈوں سے ہی لڑی جائے گی ۔ان کا مطلب یہ تھا کہ جدید ایٹمی ہتھیار وں کی جنگ برسرپیکار ممالک کو سماجی ‘ اقتصادی اور سائنسی اعتبار سے صدیوں پیچھے دھکیل دیتی ہے ۔" اﷲ نہ کرے کہ دونوں ممالک کے مابین کشیدگی بین الاقوامی سرحدوں تک پہنچ جائے کیونکہ بھارت جیسے مکار دشمن سے اچھائی اور بھلائی کی توقع رکھنا عبث ہے ‘ہمیں امن کی کوششوں کے ساتھ ساتھ جنگ کے لیے بھی تیار رہنا ہوگا ۔ اس میں شک نہیں کہ سرحدوں کا دفاع افواج پاکستان ہی کرتی ہیں لیکن جنگ میں اس وقت کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی جب ہر چھوٹا بڑا شہری ‘ عورتیں اور مرد خود کو وطن کا محافظ تصور کرکے پاک فوج کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر نہ کھڑا ہو ‘ بطور خاص دوران جنگ شہری دفاع کی اہمیت سب سے اہم ہوجاتی ہے۔کسی نے کیاخوب کہاہے کہ فضا سے گرتے ہوئے بم کو روکا نہیں جاسکتا لیکن احتیاطی تدابیر اختیار کرکے نقصان کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے ۔ جنگ چونکہ سر پر پہنچ چکی ہے۔فی الفرض جنگ نہیں ب ھی ہوتی پھر بھی ہماری تیاری مکمل ہونی چاہیئے ۔ مزید وقت ضائع کیے بغیر یونین کونسل کی سطح پر ہر گلی اور محلے میں نوجوان خود منظم ہوکرایک ایسا موثر اور تیز رفتار نٹ ورک قائم کریں جس کے ذریعے دشمن کے ہوائی حملے کی خبر اور احتیاطی تدابیر عوام تک بروقت پہنچانے کا فریضہ انجام پاسکے ‘ بھارت جھوٹ اور پروپیگنڈہ سے پاکستانی عوام کو ذہنی طور پر مفلوج کرسکتا ہے ‘ شہری دفاع کے اچھے رضا کار وہ ہوتے ہیں جو دشمن کے پروپیگنڈے کا بروقت جواب دیتے ہوئے اپنے عوام کو حقیقت حال سے بھی آگاہ رکھیں‘ شہری دفاع تنظیم کے ہر ممبر کو اس بات کا علم ہونا چاہیئے کہ کس گھر میں صبح ‘دوپہر اور شام کے وقت کتنے افراد رہائش پذیر ہوتے ہیں ‘ صبح ‘ دوپہر اور شام کو کتنے افراد گھر میں موجودہوتے ہیں تاکہ فضائی حملہ ہونے کی صورت میں تباہ شدہ ملبے سے اتنے ہی افراد کی تلاش کی جائے اور زخمیوں کی بروقت طبی امداد پہنچائی جاسکے ۔ جن پاکستانیوں کے پاس کسی بھی طرح کی ٹرانسپورٹ موجود ہے وہ جہاں بھی ہوں‘ بوقت ضرورت انہیں زخیموں کو ہسپتال پہنچانے اور فوج کو اسلحے کی سپلائی لائن قائم کرنے کے لیے ہر لمحے تیار رہنا ہوگا ۔دوران جنگ چونکہ رات کے وقت بلیک آؤٹ کرنا لازم ہوتاہے اس لیے ہر گھر میں سیل سے روشن ہونے والی بیٹری ‘ موم بتی یا لالٹین کا انتظام ہو ۔ چوری‘ ڈاکہ زنی اور دیگر جرائم پیشہ افراد کچھ عرصہ آرام کرلیں تو وطن عزیز پر ان کااحسا ن ہوگا۔تجاوزات کا خاتمہ ہر محب وطن پاکستانی کا فرض ہونا چاہیئے تاکہ ایمرجنسی حالات میں ٹریفک کی نقل و حرکت میں آسانی رہے ‘ ٹریفک کے قوانین پر ہر شہری کو خود عمل کرنا چاہیئے تاکہ فوجی قافلوں اور ایمولنسوں کو ترجیح کے طور پر راستہ مل سکے ۔ہسپتالوں میں خون کی اشد ضرورت پڑتی ہے ‘بطور خاص نوجوان ہسپتالوں میں خود پہنچ کر خون کا عطیہ دیں ۔جان بچانے والی ادویات ‘ طبی آلات کی فراہمی اور طبی عملے کی موجودگی کا انتظام کرنا انتظامی اداروں کی ذمہ داری ہے ۔65ء کی جنگ میں فضائی حملوں سے بچاؤکے لیے ڈبلیو شکل کے مورچے کھودے گئے تھے لیکن اب بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہو نے کی بنا پر سوائے کھلے میدان کے مورچے نہیں کھودے جاسکتے ‘جن گھروں میں تہہ خانے موجود ہیں ان کے دل میں دوسروں کو پناہ دینے کا جذبہ بھی ہونا چاہیئے ۔پہلے فضائی حملے کے وقت سائرن بجائے جاتے تھے اب یہ کام مسجدوں کے سپیکروں سے لیا جاسکتا ہے ۔ زخمیوں کی فوری مدد اور جلد سے جلد ہسپتال پہنچنے کے لیے بھی نوجوا ن ہی کردار ادا کرسکتے ہیں ‘ اس سے پہلے کہ حالات مزید بگڑیں یونین کونسل کے ناظم /کونسلر کو اپنے علاقے کے نوجوانوں کو اکٹھا کرکے تنیظم کی شکل دینی چاہیئے۔ ماہرین کو بلوا کر نوجوانوں کی شہری دفاع کی فوری تربیت کاانتظام کیاجائے۔اخبارات اور ٹی وی چینلز بھی رہنمائی کرسکتے ہیں ۔زمانہ جنگ میں معمولات زندگی کو برقرار رکھنا بھی ضروری ہے ‘ ہر کاروباری شخص ‘ دکاندار ‘ سپلائر ‘پرچون فروش اپنے منافع کو چند دنوں کے لیے چھوڑ کرخود کو پاکستان کا محافظ بنائے اور ہر سطح پر ذخیرہ اندزوی کا خاتمہ ‘ ذرائع آمدورفت میں رکاوٹیں دور کر نے میں مدد گار ثابت ہو ‘جہاں جہاں بھی پاک فوج کے افسراور جوان یا فوجی قافلہ نظر آئے ‘ ہر پاکستانی شہری پر لازم ہے کہ نعرہ تکبیرلگاکر سیلوٹ کرے ۔ حد سے زیادہ لچک دکھانے کے باوجود بھارت کی گردن میں ابھی تک خم نہیں آیااس لیے خوش فہمی کاشکار ہونے کی بجائے ہمیں اپنے اندرون اور بیرونی دفاع کو ہر حال میں مضبوط بنانا ہوگا۔امن کی بھیک ‘ خیرات میں نہیں ملتی بلکہ اس کے لیے اپنی طاقت کو منوانا اشد ضروری ہے ۔سکورڈرن لیڈر حسن صدیقی بالاشبہ قومی ہیرو کے روپ میں سامنے آئے ہیں انہوں نے ایم ایم عالم کی یاد کو تازہ کردیااس لیے انہیں حکومت کی جانب اعلی اعزاز سے نوازا جانا بے حد ضروری ہے تاکہ دوسرے بھی تقلید کریں۔

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 666330 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.