صحافی اور انتریامی میں یہ فرق ہے کہ ایک کے اندازے اکثر
غلط نکلتے ہیں جبکہ دوسرے کے کبھی کبھار ٹھیک نکل جاتے ہیں اس لیے غیب کا
علم تو کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اگر دوسرا سرجیکل
اسٹرائیک نہ ہوتا تو ۲۷ فروری ۲۰۱۹ کی صبح سارے اخباروں کی شاہ سرخی کیا
ہوتی؟ ۲۶ فروری کو دراصل یوں تو عدالت عظمیٰ میں کئی اہم مقدمات کی سماعت
تھی مگر ان میں سب سے اہم رافیل کا معاملہ تھا ۔ رافیل کے معاملے میں کلین
چٹ مل جانے پر بغلیں بجانے والی بی جے پی کوایک بہت بڑا جھٹکا لگنے والا
تھا ۔ اس بات کا قوی امکان تھا کہ سپریم کورٹرافیل لڑاکا طیارے خریدنے کے
لیے ہندوستان اور فرانس کے درمیان ہوئے معاہدے کو چیلنج دینے والی درخواست
مسترد کرنے کے اپنے گزشتہ فیصلے پر نظر ثانی کے لیے دائر درخواستوں پر کھلی
عدالت میں سماعت کے لیے رضا مندی ہوجائے گی ۔ اس انتخابی موسم میں مودی
سرکار کے لیے رافیل کی بدعنوانی پلوامہ سے زیادہ خطرناک مسئلہ ہے کیونکہ
آج کل جیسے ہی کوئی رافیل کا نام لیتا ہے عوام کے ذہن میں چوکیدار چور ہے
کا نعرہ گونجنے لگتا ہے۔اب بتائیں کہ ذرائع ابلاغ کی توجہ اس سے ہٹانا
ضروری ہے کہ نہیں ؟ اور اس کا سب سے آسان طریقہ کیا ہے ؟۲۷ فروری کے
اخبارات کی سرخی دیکھ لیں سب پتہ چل جائے گا۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے حالیہ فیصلے سے رافیل کے جن کو بوتل سے باہر نکال دیا
ہے۔ اب انتخاب کے خاتمہ تک جب بھی اس معاملے کی سماعت ہوگی بی جے پی کے لیے
ایک بڑا چیلنج سامنے آجائے گا ۔ اس بار تو وہ لوگ بوتل کا ڈھکن بند کرنے
میں کامیاب ہوگئے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کتنے دنوں تک ’مودی جی کا بوتھ سب
سے مضبوط ‘ ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ رافیل معاملے میں عدالت کے دروازے پر
دستک دینے والے سارے لوگوں کا تعلق بی جے پی سے رہا ہے ۔ ان میں ایک سابق
مرکزی وزیر دفاع اور وزیر خزانہ یشونت سنہا ہیں ۔ ان کے فرزند ارجمند جینت
سنہا اب بھی مودی جی کی کابینہ میں وزیر ہے۔ اس کے علاوہ ارون شوری ہیں ۔
شوری بھی سنہا کے ساتھ اٹل جی کی کابینہ کے وزیر تھے۔ ان دونوں کے ساتھ
معروف وکیل پرشانت بھوشن ہیں ۔ وہ خود تھے کبھی بی جے پی میں نہیں تھے لیکن
کانگریس کے خلاف بی جے پی کے شانہ بشانہ ضرور کھڑے تھے۔ ان کے والد شانتی
بھوشن ابتداء میں تو جنتا پارٹی کے وزیر قانون تھے مگر بعد میں انہوں نے بی
جے پی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مودی جی
کی لنکا گھر کے بھیدی ڈھا رہا ہے۔ ویسے رامائن کی روایت یہی ہے۔ رام چندر
جی کو بن باس پر بھیجنے کا کام ان کی سوتیلی ماں کیکئی نے کیا۔راون کی پیٹھ
میں اس کے بھائی وبھیشن نے چھرا گھونپا۔سیتا جی کو ان کے شوہر نے گھر
بدرکیا۔ مودی جی نے اپنی رام بھکتی کے ثبوت میں اسی پرمپرا کو آگے بڑھایا
۔
عدالت عظمی نے ۱۴ دسمبر، ۲۰۱۸ کو فرانس سے رافیل لڑاکا طیارے خریدنے کے
لیے ہندوستان کے معاہدے کو چیلنج دینے والی درخواست مسترد کردی تھی ۔ اس نے
اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ اس معاملے میں سابق معاہدہ منسوخ کرنے اور ہوائی
جہاز خریداری کی فیصلہ سازی کے عمل پر شک کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ یہاں تک
کہ عدالت نےاس معاہدے میں مبینہ بے قاعدگیوں کے لیے ایف آئی آر درج کرنے
اور عدالت کی نگرانی میں جانچ کرانے کی درخواست تک کویہ کہہ کر ٹھکرا دیا
تھا کہ ’ہمیں رافیل طیاروں کی خرید کے عمل میں دخل دینے کی کوئی وجہ نظر
نہیں آتی ہے ‘۔۔ عدالت نے اپنی محدودیت کا اعتراف اس طرح کیا تھا کہ ،’رافیل
جنگی طیاروں کی قیمت پر فیصلہ کرنا عدالت کا کام نہیں ہے ۔ حکومت کو عدالت
۱۲۶ کے بجائے ۳۶جنگی طیارے خریدنے کے لیے پابند نہیں کر سکتی اور نہ طیاروں
کی خریداری کےمعاملے میں دباؤ ڈال سکتی ہے‘۔ اس مقدمہ کے سب سے نازک پہلو
آفسیٹ پارٹنر کا تھا جس کو لے وزیراعظم کے انل امبانی کے تعلقات پر سوالات
اٹھائے جارہے تھے ۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ،’پسندیدہ آفسیٹ پارٹنر
کے انتخاب میں دخل دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے ، ذاتی سوچ کی بنیاد پر دفاعی
خرید جیسے حساس معاملات میں تفتیش نہیں کروائی جا سکتی ‘۔
عدالت عظمیٰ کے اس دو ٹوک فیصلےنے برسرِ اقتدار بی جے پی میں نئی جان پھونک
دی ۔ تین صوبوں میں شکست کی اداسی کافور ہوگئی اور وہ اپنی بے گناہی کا
بلند و بانگ دعویٰ کرنے لگے ۔ سارے ملک میں اسی طرح کے جشن کا ماحول برپا
کیا گیا جیسا کہ پہلے اور دوسرے سرجیکل اسٹرائیک کے بعد کیا گیا تھا لیکن
وہ دیرپا نہیں ہوسکا۔ ابھینندن کی گرفتاری کے بعد جس طرح ماحول کبیدہ خاطر
ہوگیا اسی طرح کی کیفیت حکومت کے حلف نامہ میں درج غلط بیانیوں کے سبب پیدا
ہوگئی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ اب عدالت کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت
پیش آئی اور اس کی جانب سے توجہ ہٹانے کے لیے یہ سب مشقت کیوں کرنی پڑ ی۔
چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی زیرقیادت بنچ نے اپنے فیصلہ میں کہا تھا کہ قیمت
کی تفصیلات سی اے جی کو بتائی گئیں اور سی اے جی کی رپورٹ کی جانچ پبلک
اکاؤنٹس کمیٹی نے کی ہے۔ سپریم کورٹ کو گمراہ کرنے کی یہی مذموم حرکت حکومت
کو مہنگی پڑ گئی ۔
کانگریس نے جب اعتراض کیا کہ سی اے جی رپورٹ کا کوئی بھی حصہ پارلیمنٹ یا
عوام الناس کے سامنے نہیں رکھا گیاتو بازی الٹ گئی ۔ پی اے سی کے صدرنشین
اور کانگریس قائد ملیکارجن کھڑگے نے پریس کانفرنس میں سوال کیا کہ پبلک
آڈیٹر کی رپورٹ کب پیش ہوئی ؟ اور پی اے سی نے کب اس کی جانچ کی؟ تو سرکار
کے ہاتھوں سے طوطے اڑ گئے ۔ کھڑگے نے کہا’ حکومت نے عدالت سے جھوٹ بولا کہ
سی اے جی رپورٹ ایوان اور پی اے سی میں پیش ہوئی اور پی اے سی نے اس کی
جانچ بھی ‘ جبکہ سرے سے اس کا وجود ہی نہیں ہے۔ اس موقع پر سارے ملک کے لوگ
سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ جس جماعت کی حکومت عدالت عظمیٰ تک کو حلف نامہ کے
اندر جھوٹ بھول سکتی ہے اس کے سامنے عوام کی کیا وقعت ہے؟ یہی وہ وقت ہے
جبکہ راہل نے اپنے پرانے نعرے میں یہ اضافہ کردیا کہ چوکیدار ، بھاگیدار
اور چور ہی نہیں جھوٹا بھی ہے ۔
کانگریس کے قائد کپل سبل نے سپریم کورٹ کے فیصلے میں کجی کے لئے مودی حکومت
کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ ان کے مطابق عدالت میں اگر غلط حقائق پیش کیے جائیں
اور اس کی بنیاد پر عدالت فیصلہ کرے تو اس کی ذمہ داری عدالت پر نہیں حکومت
پر عائد ہوتی ہے۔کپل سبل کی دلیل یہ تھی کہ سپریم کورٹ ’طیارہ معاملہ
میںبدعنوانی کی جانچ کا صحیح فورم نہیں ہےکیونکہ وہ فائل نوٹنگس کی جانچ
نہیں کرسکتا ۔ اس لیے وہ بی جے پی حکومت کو کلین چٹ دینے کا مجاز بھی نہیں
ہے۔ سپریم کورٹ کے لیے وزیراعظم جیسے ذمہ داروں سے تفتیش بھی ممکن نہیں ہے
حالانکہ اس معاملے میں وزیراعظم اور وزیر دفاع سے پوچھ تاچھ لازمی ہے۔ اس
طرح سبل نےبی جے پی اور حکومت کی جانب سے کیے جانے والے کلین چت کے دعویٰ
کو بچکانہ قرار دے دیا۔ کپل سبل نے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی(جے پی سی)
تحقیقات کا مطالبہ کیا اور ایوان پارلیمان میں یہ مسئلہ اٹھانےکی بات کی
تاکہ این ڈی اے حکومت کی کذب گوئی پر گرفت کی جائے۔
حکومت نے اسے ٹائپنگ کی غلطی کے سبب پیدا ہونے والی غلط فہمی باس کر معاملہ
رفع دفع کرنے کی کوشش کی۔ حزب اختلاف اس بہانے بازی سے مطمئن نہیں ہوا اس
نے اٹارنی جنرل کو پی اے سی میں طلب کرکے یہ دریافت کرنے کا مطالبہ کیا کہ
انہوں نے ایسا حلف نامہ کیوں داخل کیا جس سے حقائق کی عکاسی نہیں ہوتی؟
ساتھ ہی عدالت کوگمراہ کرنے حرکت پر حکومت سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ۔
اس ہنگامہ کے دوران اتنے حساس معاملہ کا مرکزی کردار وزیراعظم نریندر مودی
مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے تھا۔ اس لیے نت نئے سوالات جنم لے رہے تھے ۔
ان کا ازالہ کرنے کی خاطر وزیر اعظم نے اے این آئی کو ایک انٹرویو میں
کانگریس کے دعووں اور رافیل ڈیل میں انل امبانی کی مبینہ طور پر جانبداری
پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ، ’ یہ میرے خلاف ذاتی الزام نہیں ہے بلکہ
میری حکومت پر الزام ہے۔ اگر میرے خلاف ذاتی طور پر کوئی الزام ہے، تو ان
کو پتہ کرنے دیں کہ کس نے، کب اور کہاں اور کس کو دیا؟ ۔ ‘ اس بیان میں
تفتیش کی بلا واسطہ تائید موجود تھی ۔
اس دوران سابق وزیر ارون شوری ،یشونت سنہا اور پرشانت بھوشن نے سپریم کورٹ
میں ریویوپیٹیشن دائر کرکے فیصلےپر نظر ثانی کی مانگ کردی ۔ اس عرضی میں
گزشتہ فیصلے کی خامیوں کو نمایاں کرتے ہوئے وضاحت کی گئی کہ جس خط کی بنیاد
پر فیصلہ کیا گیا اس میں نہ صرف غلط معلومات فراہم کی گئی ہیں بلکہ کسی کا
دستخط بھی نہیں ہے۔ درخواست گزاروں نے فیصلے کے بعدمنظر عام پر آنے والے
نئے حقائق کی بنیاد پر معاملے کی تہہ میں جانے کی ضرورت پر زور دیا۔یہ نئے
حقائق انگریزی روزنامہ دی ہندو اور انڈین ایکسپریس نے اپنی تحقیق کی بنیاد
پر پیش کیے تھے ۔ ان سے پتہ چلاتھا کہ انسداد بد عنوانی بیورو کو رافیل
سودے کے عمل سے ہٹا دیا گیا اور وزیر اعظم کے دفتر نے سرکاری ٹیم کو
اندھیرے میں رکھ کر سودے بازی کی۔ ’نہ کھاوں گا اور نہ کھانے دوں گا‘ کا
نعرہ لگا کر اقتدار سنبھالنے والے وزیراعظم کے دفتر کا سی بی آئی کو ایک
خاص معاملے سے دور کردینا کس بات کا اشارہ ہے؟ اس معاملہ میں دی جانے والی
غیر معمولی سہولیات مثلاً ایسکرو کھاتے کی بات خارج کرکے بینک گارنٹی بھی
مستثنیٰ کردینا شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ سب وزیر
اعظم کے دوست انل امبانی پرسرکاری کرم فرمائی ہے۔ آج کل وزیراعظم کے ساتھ
ساتھ انل کے بھی ستارے گردش میں ہیں اور اس پرجیل جانے کی نوبت آگئی ہے۔
ذرائع ابلاغ اور حزب اختلاف کے شدید دباو کے بعد حکومت ایوان پارلیمان میں
اس معاملے پر بحث کے لیے راضی ہوگئی اور سی اے جی کی رپورٹ بنانے میں جٹ
گئی مگر سی پی ایم اس کو پہلے ہی مسترد کردیا ۔ اس کا کہنا تھا کہ رافیل
سودے کے وقت کنٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل خود وزارت خزانہ کے سکریٹری رہ چکے
ہیں، اس لیے ان کے ذریعہ تیار کردہ رپورٹ میں مفادات کا ٹکراو ہے۔ اس
صورتحال میں سی اے جی رپورٹ قابل اعتبار نہیں ہے۔سیتا رام یچوری نےاس ’مہا
گھوٹالے‘ کی اعلیٰ سطحی تفتیش اور خاطی افراد کے خلاف سخت کارروائی کا
مطالبہ کیا ۔اس تابظر میں ۲۱ فروری ۲۰۱۹ کو سپریم کورٹ رافیل جنگی طیارہ
معاہدہ معاملہ میں اپنے فیصلے پر نظرثانی کے لئے رضامند ہوگئی اور متعلقہ
عرضی کی سماعت پر اتفاقظاہر کردیا۔
عدالت کے اندر اس معاملے کی چار درخواستیں زیر سماعت ہیں۔ پہلی ترمیم پٹیشن
خود مرکزی حکومت کی طرف سے داخل کی گئی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے سی
اے جی کے ریفرنس کی’غلط تشریح‘ کر دی ہے۔ اس کو درست ہونا چاہیے۔ دوسری
پرشانت بھوشن، یشونت سنہا اور ارون شوری کی ہے جس میں نظر ثانی کے علاوہ
کچھ افسران کے خلاف کورٹ کو گمراہ کرنے کی خاطر جھوٹی گواہی دینے سے متعلق
فرد جرم کا مطالبہ کیا گیا ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ ۱۴ دسمبر ۲۰۱۸ کو رافیل
معاملے کا پہلا فیصلہ ہوااور ۱۴ فروی ۲۰۱۹ کو پلوامہ کا حملہ ہوگیا۔ ۲۱
فروری ۲۰۱۹ کو عدالت عظمیٰ نے نظر ثانی کی درخواست کو قبول کرنے کا عندیہ
دیا سماعت کے لیے ۲۶ فروری ۲۰۱۹ کا مہورت نکالا اور کھلی عدالت میں مقدمہ
چلانے کا فیصلہ کیا مگر اسی دن دوسرا سرجیکل اسٹرائیک بھی ہوگیا ۔ اس کے
ساتھ ہی گویا پونر جنم سے قبل ہی رافیل کا اسقاطِ حمل ہوگیا ۔اس طرح کے
اتفاقات بالی ووڈ میں بھی نہیں ہوتے۔
بالا کوٹ سے متعلق اتنی متضاد باتیں ہورہی ہیں کہ وہاں کیا ہوا یہ توکوئی
نہیں جانتا۔ اسی لیے ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بنرجی حکومت سے سوال
کیا ہے کہ ’’اپوزیشن ہونے کے ناطہ ہم آپریشن اور ایئر اسٹرائیک پر مکمل
معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت بتائے کہ کہاں بم گرائے گئے اور اس میں
کتنے لوگ مارے گئے۔‘‘دراصل بین لاقوامی ذرائع ابلاغ مثلاً نیویارک ٹائمز
جیسے معتبر اخبار نے یہ لکھ کر کھلبلی مچا دی ہے کہ اس آپریشن میں کوئی
ہلاکت نہیں ہوئی۔ لہذا حزب اختلاف کو یہ سوال کرنے کا بھی حق ہے اور ممتا
بنرجی یہ الزام لگانے میں بھی حق بجانب ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی
انتخابات سے قبل جوانوں کے خون پر سیاست کررہے ہیں ۔ممتا نے پوچھا ہے کہ
جوانوں کے ساتھ ایسا کوئی کیسے کر سکتا ہے؟ کیا ممتا بنرجی نہیں جانتیں کہ
اقتدار کے لیے ہمارے سیاستداں کسی کے ساتھ کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔ خیر اس
سارے بحث مباحثہ میں رافیل بدعنوانی نے ضرور سرجیکل اسٹرائیک کے ملبے میں
دب کر دم توڑ دیاہے ۔
|