پربت کے پیچھے مودی کا گاﺅں۔۔۔

آپ آج سے 71سال پیچھے چلے جائیں،تقسیم ہند کے مناظر کو تصور میں لائیں ،لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کی غیرمنصفانہ تقسیم کا مطالعہ کریں،ہندو مسلم فسادات کے اسباب پر غور کریں،کانگریس کی مکارانہ سیاست پر نظر دوڑائیں،بھارت کے انتہاپسند ہندو نظریات کا جائزہ لیں پھربرصغیر کی تقسیم میںان ہندو سیاسی قائدین کی تاریخ پڑھ لیں،مذہبی ،سیاسی ،تہذیبی و سماجی بنیادوں پر برہمنوں سے شودر وں تک تقسیم در تقسیم نام نہاد سیکولر معاشرے پر غور کریں،موہن داس گاندھی سے لے کر راجیو گاندھی تک کے قاتلوں کا سراغ لگا لیں،کانگریس سے لیکر آر ایس ایس کے سیاسی ونگ بی جے پی کی تاریخ پڑھ لیںآپ کو تعصب ، نفرت اورانتقام جیسے منفی عوامل کارفرما نظر آئیں گے

آپ آج سے 71سال پیچھے چلے جائیں،تقسیم ہند کے مناظر کو تصور میں لائیں ،لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کی غیرمنصفانہ تقسیم کا مطالعہ کریں،ہندو مسلم فسادات کے اسباب پر غور کریں،کانگریس کی مکارانہ سیاست پر نظر دوڑائیں،بھارت کے انتہاپسند ہندو نظریات کا جائزہ لیں پھربرصغیر کی تقسیم میںان ہندو سیاسی قائدین کی تاریخ پڑھ لیں،مذہبی ،سیاسی ،تہذیبی و سماجی بنیادوں پر برہمنوں سے شودر وں تک تقسیم در تقسیم نام نہاد سیکولر معاشرے پر غور کریں،موہن داس گاندھی سے لے کر راجیو گاندھی تک کے قاتلوں کا سراغ لگا لیں،کانگریس سے لیکر آر ایس ایس کے سیاسی ونگ بی جے پی کی تاریخ پڑھ لیںآپ کو تعصب ، نفرت اورانتقام جیسے منفی عوامل کارفرما نظر آئیں گے ۔آپ صرف موہن داس گاندھی کے قتل کے اسباب ہی کا جائزہ لے لیں۔کرم چند موہن داس گاندھی برصغیرہند میں ہندو وں کے نمائندہ اور انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں ایک متحرک راہنما تھے۔گاندھی غیر متشدد نظریات کے حامی ،تشدد کی بجائے سیاسی جدوجہد کے قائل اور متحدہ ہندوستان کے حامی تھے ۔دوسری طرف کانگریس کے راہنماءپنڈت جواہر لال نہرو بظاہر تو سوشلسٹ اور سیکولر نظریات کے حامی تھے لیکن عملاًمتشدداور سماجی طبقاتی نظام پر بھرپور یقین رکھنے والے کشمیری راہنما ءتھے جو تقسیم ہند کے بعد بھارت کے پہلے وزیراعظم بنے ۔گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو کے نظریات میں اختلاف تھا اور یہی وجہ تھی کہ گاندھی نے جواہر لال نہرو کی بطور وزیراعظم نامزدگی کے بعد کہا کہ ”نہرو کبھی اچھا وزیراعظم ثابت نہیں ہو سکتا وہ وزیراعظم کا اچھا سیکرٹری ضرور بن سکتا ہے، اگر بھارت میںحقیقیعوامی جمہوری نظام لانا ہے تو بھارت کا وزیراعظم ایک کسان ہو نا چاہیے کیونکہ بھارت کی 70فیصد سے زائد آبادی کسانوں پر مشتمل ہے اور کسانوں کا نمائند ہ وزیراعظم ہی کسانوں کے مسائل حل کر سکتا ہے “۔گاندھی آخری وقت تک تقسیم ہند کے مخالف رہے لیکن تخلیق پاکستان کے بعد وہ دونوں ممالک کے درمیان خوش آئند تعلقات کو ہی خطے کی ترقی کا ضامن قرا ر دیتے رہے۔مشہور برطانوی مصنف سٹینلے والپرٹ اپنی مشہور کتاب ''Gandhi's Passion"میں لکھتا ہے کہ جب پاکستان معرض وجو د میں آگیا اور دونوں ممالک کے درمیان سرحدی لکیر کھینچ دی گئی، ہندو مسلم فسادات کی آگ نے بنگال ،مشرقی پنجاب سمیت کئی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو گاندھی نے کشیدگی کم کرانے کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح سے پاکستان میں ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا جسے قائد اعظم نے قبول کر لیا لیکن اس وقت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے گاندھی کو پاکستان آنے کی اجازت نہ دی۔اس موقع پر گاندھی نے کہا کہ ” دنوں ممالک کی ترقی ، استحکام اور بقاءصرف اسی صورت ممکن ہے کہ پاکستان اور ہندوستان آپسی رنجشیں بھلا کر پر امن اور دوستانہ تعلقات کو فروغ دیں ، یہ ممکن نہیں کہ ایک ملک دوسرے کو نقصان پہنچا کر اکیلا ترقی کے زینے عبور کر سکے “۔نہرو نے1948میںبرطانوی راج سے ساز باز کرنے کے بعد جب کشمیر میں بھارتی فوج اتاری اور کشمیر پرقبضہ جمایا تو گاندھی نے اس کی سخت مخالفت کی اور کہا کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیری عوام کا حق ہے وہ کس ملک کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اس فیصلے کا اختیار صرف کشمیریوں کے پاس ہے نہ کہ پاکستان یا ہندوستان کے پاس ۔سٹینلے لکھتا ہے کہ موہن داس گاندھی نے کشمیر پر بھارتی تسلط کے بعدکشمیر یوں کے حق میںمرن بھرت (بھوک ہڑتال )رکھا جو لگ بھگ تین روز سے زائد عرصہ تک جار ی رہا ،گاندھی کی حالت انتہائی نازک ہو گئی ،کانگریس کے ہندو و مسلمان رہنماﺅں کی طرف سے کشمیر سے افواج کی واپسی کی شرط پر گاندھی نے اپنا مرن بھرت توڑا ۔اس واقعہ کے بعد بھارتی انتہا پسند جماعت راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ(آر ایس ایس )کے انتہا پسند ہندو نتھورام گوڈسے نے گاندھی کو کشمیریوں کی حمایت اور پاکستان کے ساتھ پر امن تعلقات کی خواہش رکھنے کی بنا پر تین گولیاں مار کر قتل کر دیا۔

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ بھارت میںلبرل کانگریس کی حکومت ہو یا انتہا پسند ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی ،پاکستان کے ساتھ پرامن تعلقات کے حامیوں کے لیے یہ سرزمین ہمیشہ ہی غیر محفوظ رہی ہے ۔کشمیر کے تنازع پر پلوامہ واقعہ کے بعد دونوں ممالک کے درمیان حال ہی میں پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال نے ایک دفعہ پھر بھارت کے سیکولر چہرے سے نقاب اتار دیا ہے لیکن اس کے باوجود آج بھی بھارت میں چند آوازیں ایسی ہیں جو کشمیر میں بھارتی مظالم اور پاکستان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کے خلاف آج بھی سنائی دیتی ہیں۔بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج مارکنڈے کٹجو نے پلوامہ حملے کو بھارتی ڈرامہ قرار دیتے ہوئے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو ان کی امن کاوشوں پر نوبل انعام کا حقدار قرار دے دیا۔مارکنڈے نے 95فیصد بھارتی میڈیا کوبھی بکاﺅ میڈیاقرار دیا۔ سابق بھارتی وزیر اے کے انٹونی نے مودی پر پلوامہ حملے بارے غلط اور بے بنیاد معلومات پھیلانے اور رافیل طیاروں کی ڈیل میں بھارتی مفادات کو نقصان پہنچانے کا الزام عائدکیا ہے ۔بھارت کے یونین منسٹر وی کے سنگھ نے گزشتہ روز اپنے بیان میں کہا کہ بی جے پی کے صدر امیت شاہ کا پاکستان میں 250ہلاکتوںکا بیان مشکوک ہے ۔امیت شاہ نے 3مارچ کو احمد آبادمیں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتی فضائیہ نے پاکستان میں 250سے زائد جیش محمد کے دہشت گردوں کونیست و نابود کر دیا ہے ۔بھارتی وزیر دفاع نرملا ستھرمن نے بالا کوٹ میں ہلاکتوں کی تعدا د بارے کہا کہ بھارت کے سیکرٹری خارجہ نے ہلاکتوں کی تعدا د نہیںبتائی اورکہا کہ 250ہلاکتوں کا دعوی بے بنیاد ہے ۔خود بھارتی ریٹائرڈ فوجی افسران نے پلوامہ حملے میں استعمال ہونے والے بارود کو بھارتی مواد قرار دیا ، حتیٰ کہ انتہا پسند راج ٹھاکرے کو بھی یہ کہنا پڑا کہ پلوامہ حملہ مودی سرکار کا گھڑا ہو ا ڈرامہ ہے ،عام آدمی پارٹی کے سربراہ ارویند کجریوال نے تو لوک سبھا کے فلور پر کھڑے ہو کر مودی حکومت کے خفیہ عزائم بے نقاب کرتے ہوئے کہا کہ مودی الیکشن جیتنے کے لیے اور کتنی لاشیں چاہتے ہیں ۔ممتا ز بھارتی سماجی رہنما ومن مشرام نے بھی اس حدتک دعویٰ کرلیاکہ ”بھارت سرکار کو پلوامہ حملے کے بارے میں آٹھ دن پہلے جانکاری تھی اور اس بابت حکومت کے پاس آئی بی کی رپورٹ بھی تھی لیکن اس کے باوجود وہ مودی حکومت نے حملہ ہونے دیا“۔عالمی میڈیا نے بھی بھارتی پروپیگنڈہ کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے بھارتی میڈیا کو بی جے پی کی پروپیگنڈہ مشین کا لقب دیا غرض یہ کہ جو گڑھا انتہاپسند مودی سرکار نے پاکستان کے لیے کھود ا تھا بھارت خود اس میں گرتا نظرآ رہا ہے ۔بھارتی میڈیا نے پلوامہ واقعہ پر بے بنیاد الزامات کو جیسے ہوا دی وہ بیماربھارتی معاشرے کی سوچ کی عکا س ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق بھارت میں 2005سے لیکر آج تک اوسطاًہر سال 100سے 150افراد بھارتی جنونیوں کی انتہاپسند سوچ کی بلی چڑھ جاتے ہیںجبکہ ہر سال تقریباً2ہزار سے زائد زخمی ہو تے ہیں، یہ ہے دہشت گردی کے خلاف امن کی آواز بلند کرنے والے سیکولر بھارت کا حقیقی چہرہ جوان جنونیوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے ۔ گجرات کے مسلم کش فسادات ہوں یا اڑیسا میں عیسائیوں پر بھارتی جنونیوں کے حملے ،پنجاب میں سکھوں کا قتل عام ہو یا بھگل پور میں مسلمانوں کا خون ،کوئی بھی ان جنونیوں سے محفوظ نہیں۔
اوپر بیان کردہ تمام تر حقائق کے باوجود نفرت اور انتقام کی آگ میں پلنے والا بھارتی انتہا پسند معاشرہ کھلی آنکھوں ”اکھنڈ بھارت“کے نظریہ کی اندھی تقلید کر رہا ہے جو مودی حکومت کو مزید انتہاپسندی کی طرف بڑھنے کی حوصلہ افزائی کر تا ہے ۔کشمیر کی خوبصور ت جنت نظیر وادیوں کو مودی سرکار کی رعونیت نے جہنم بنا رکھا ہے ، کشمیرکے خوبصورت سرسبز پربتوں کے اس طرف یعنی پاکستان سے مسلسل امن اور دوستی کے عملی ثبوت دیئے جارہے ہیں جبکہ ان پربتوں کے دوسری طرف ایک ایسی قوم آباد ہے جو حقائق کو کھلی آنکھوں دیکھنے کے باوجود خود اپنی اور خطے کی دیگر ڈیڑھ ارب آبادی کے لیے خطرہ بن چکی ہے ۔اس مصداق بھارت کے فلمی گیت میںجس خوبصور ت بھارت کی تصویر پیش کی جاتی ہے اس تصویر کے پیچھے چھپے بھارت کے اصل چہرہ کو اگر ان الفاظ میں پیش کیا جائے توبیمار معاشرہ کی درست عکاسی ہو گی ؛
پربت کے پیچھے مودی کا گاﺅں
گاﺅں میں جنونی رہتے ہیں

Sheraz Khokhar
About the Author: Sheraz Khokhar Read More Articles by Sheraz Khokhar: 23 Articles with 14554 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.