کشمیر کا معاملہ جس وقت موضوع بحث بنا ہوا تھا اچانک
ارونا چل پردیش سے تشدد کی خبریں آنے لگیں ۔ وہاں پر دیگر علاقوں سے آکر
بسنے والوں کو مستقل رہائشی سرٹیفکیٹ دینے کے فیصلے کو لے کر ہنگامہ ہوگیا
۔ یہ ۶ قبائل کے لوگ بر سوں سے وہاں آباد ہیں ۔ مظاہرین پر گولی چلی تودو
لوگ ہلاک ہوئے لیکن اس سے احتجاج میں شدت آگئی ۔ مظاہرین نے نائب وزیراعلیٰ
چاونا مین کے گھر کو آگ لگا دی اور وزیر اعلیٰ پیما کھنڈو کے گھر پر
پتھراو کیا ۔ اس کے بعد حکومت نے اپنا فیصلہ بدل دیا اور امن بحال ہونے لگا
۔ تصور کیجیے کہ جموں کشمیر کی حکومت برخواست نہیں ہوئی ہوتی اور کسی مسئلہ
پر کشمیری مظاہرین بی جے پی کے سابق وزیراعلیٰ کویندر گپتا کے گھر کو آگ
لگا دیتے وہاں کتنی گولیاں چلتیں اور کتنے لوگ مارے جاتے ؟ اور سب سے اہم
بات یہ ہے کہ کیا حکومت ان کا مطالبہ مان لیتی؟
ارونا چل پردیش میں اگر امن کی بحالی کے لیے مظاہرین کا مطالبہ تسلیم کیا
جاتا ہے تو کشمیر میں شمشیر کیوں نکالی جاتی ہے؟ ایسے میں اگر کوئی یہ کہے
کہ کشمیر سرحد پر واقع ہے تو اسے معلوم ہوتا چاہیے کہ اروناچل کے مشرق میں
میامنار۔ مغرب میں بھوٹان اور شمال میں چین کی سرحد ہے۔ پاکستان کی طرح چین
سے بھی بھارت کے تعلقات اچھے نہیں ہیں بلکہ وہ ہندوستانی وزرائے عامہ کے
ارونا چل پردیش دورےپر اعتراض بھی درج کراتا ہے۔ اس تناظر میں جموں کشمیر
کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کا بیان اہمیت کا حامل ہے کہ آئین کی ۳۵ ۔اے
سے چھیڑ چھاڑ کے سبب تو وادی کی حالت اروناچل پردیش سے بھی دگرگوں ہوجائے
گی ۔اٹل جی نے کہا تھا ہم کشمیریت ، جمہوریت اور انسانیت کی بنیاد پرمسئلہ
کا حل نکالیں گے۔۲۰۱۴ میں مودی جی نے بھی وہی مکالمہ دوہرایا تھا لیکن
کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا ۔ٹونک میں وزیراعظم نے تسلیم کیا ہے کہ کشمیر کے
لوگ دہشت گردی کے سب سے زیادہ شکار ہوئے ہیں اور آئے دن اس کی گولی کا
نشانہ بن رہے ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو کیا وہ نفرت کے بجائے ہمدردی وغمخواری
کے مستحق نہیں ہیں ؟
وزیراعظم نرسمھا راو کو مونی بابا کہا جاتا تھا ۔ ان کا کہنا تھا ’کوئی
فیصلہ نہ کرنا بھی بہترین فیصلہ ہوتا ہے‘ ۔ ان کے بعد منموہن سنگھ کے لیے
بھی یہ لقب استعمال کیا گیا ۔ مودی جی ایک تیز طرار وزیر اعظم کی حیثیت سے
سامنے آئے لیکن ان کی پھرتی نمونہ پلوامہ حملے کے بعد سامنے آیا ۔ ۳ بج
کر ۱۰ منٹ پر یہ حملہ ہوا۔ اس وقت وہ کسی تشہیری فلمبندی میں مصروف تھے۔ ۵
بج کر ۳۰ منٹ پر انہوں نے ایک جسہی عام سے خطاب کیا لیکن اس سانحہ پر خاموش
رہے ۔ ۶ بج کر ۴۰ منٹ پر انہوں نے ٹویٹ کرکے مذمت کی ۔ یعنی دو جملے لکھنے
کے لیے ۵۶ انچ کا سینہ والے نریندر مودی نے ساڑھے تین گھنٹے لگائے۔ اس کے
بعد سارے ملک میں کشمیری طلباء اور تاجروں حملے ہونے لگے یہاں تک کہ سپریم
کورٹ نے سرکار کو پھٹکار لگائی مگر وزیراعظم کمبھ کرن کی نیند سوتے رہے ۔
دسں دن بعد ٹونک میں ایک عوامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس تشدد
کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہماری لڑائی دہشت گردی کے خلاف ہے۔ انسانیت کے
دشمنوں کے خلاف ہے۔ ہماری لڑائی کشمیر کے لئے ہے، کشمیریوں کے خلاف نہیں‘‘۔
کاش کہ مودی جی اپنے بھکتوں کو یہ اپدیش دس دن پہلے دیتے تو دنیا بھر میں
بدنامی نہیں ہوتی اور کشمیری ان صعوبتوں سے بھی نہیں گزرتے ۔
ہمارے ملک میں اندھ بھکتوں کی ایک ایسی فوج تیار کی گئی ہے جس کودنگا فساد
کرنے کے سوا کچھ نہیں آتا۔ ایسے لوگ جو اپنے ملک کے بارے میں بہت کم جانتے
ہیں وہ ان کا آلۂ کار بن جاتے ہیں ۔لوگوں کو پلوامہ پر غصہ ہے اور پنڈتوں
کےکشمیر چھوڑنے کا قلق ہے لیکن وہ نہیں جانتے کہ یہ ہجرت فاروق عبداللہ یا
غلام نبی آزاد کے زمانے میں نہیں ۱۹۸۰ میں اس وقت ہوئی جب وہاں جگموہن کی
گورنر شپ میں صدر راج نافذ تھا۔اسی بدنام زمانہ سنجے گاندھی کے دوست کی
حکومت تھی جس نے ترکمان گیٹ پر ہزاروں جھگیوں کو اجاڑ دیا ۔ اندرا گاندھی
نے اسے دہلی کا گورنر بنا کر پدم بھوشن کا ایوارڈ دیا اور کشمیر کا گورنر
بنایا۔ وی پی سنگھ نے بھی ۱۹۹۰ میں یہی کیا ۔ اسی نےپنڈتوں کو کشمیر سے
عارضی طور پر نکلوایا جو مستقل بن گیا ۔ ویسے اٹل جی بھی جگموہن کے قدردان
تھے انہوں نے اس کو شہری ترقی کا وزیر بنایا ۔ یعنی ملک کے سارے شہر دہلی
اجاڑنے والے کے حوالے کردیئے گئے۔ جس طرح عام لوگ یہ نہیں جانتے کہ کشمیر
سےپنڈت کن حالات میں نکلے اسی طرح اس بات سے بھی ناواقف ہیں کہ ہندوستان
بھر سے ہزاروں محنت کش روزگار کی تلاش میں کشمیر جاتے ہیں کیونکہ وہاں
انہیں دوگنا اور تین گنا مزدوری ملتی ہے نیز ان کے ساتھ اچھا سلوک بھی کیا
جاتا ہے۔
میڈیا کو چاہیے کہ وہ ان حقائق سے عوام کو آگاہ کرے لیکن چونکہ اس کو یہ
خبر دکھانے کی قیمت نہیں ملتی اس لیے وہ انہیں نشر نہیں کرتا ۔ حکومت میڈیا
کی توجہ اس جانب مبذول نہیں کراتی اس لیے کہ اس کی ساری توجہ فی الحال
انتخاب جیتنے پر مرکوز ہے اور یہ خبر انتخابی کامیابی کے لیے معاون و
مددگار نہیں ہے۔ حکومت چاہتی ہے پلوامہ اور سرجیکل اسٹرائیک کے بل بوتے پر
انتخاب جیت لے ۔ ذرائع ابلاغ میں تووہ اس کی مدد سے کامیاب ہوگئی ہے لیکن
زمینی حقیقت اس سے مختلف ہے ۔ اس کا مظاہرہ پٹنہ میں این ڈی اے کی سپر فلاپ
ریلی سے کیا جاسکتا ہے ۔ اس موقع پر وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ تو آگئے لیکن
عوام نہیں آئے۔ اس پر مودی جی نے ذاتی طور پر تو کہا نتیش کمار بہت محنتی
آدمی ہیں لیکن کم بھیڑ کو دیکھ کر ان کا نام لینا بھول گئے۔ گاندھی میدان
کا یہ جلسہ فلاپ کیوں ہوا تولالو یادو کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ اتنے
لوگ تو پنواڑی کی دوکان پر بھی جمع ہوجاتے ہیں ۔
اس سنکلپ ریلی کا انعقاد ہندوستانی فضائیہ کے ذریعہ بالاکوٹ ائیر اسٹرائیک
کے پانچ دن بعد کیا گیا تھا ۔ بی جے پی کے علاوہ این ڈی اے میں شامل سبھی
پارٹیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اس بار تاریخی مجمع ہوگا کیونکہ پانچ سال پہلے
اسی دن مودی جی نے گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر مظفر پور میں اپنی
انتخابی تشہیر کی شروعات کی تھی اوراس چھوٹے سے شہر میں اس سے زیادہ لوگ
اکٹھا ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی تجزیہ نگاروں نے اس کا موازنہ مہاگٹھ
بندھن کی ریلی کے بجائے سی پی آئی کے جلسے سے کردیا ۔ اسی سی پی آئی سے
جس کا نہ تو بہار اسمبلی میں کوئی رکن ہےاور نہ لوک سبھا میں ہے۔ جنتا دل
یو کی حمایت اور سرکاری مشینری کا استعمال بھی اسے کامیاب نہیں کرسکا اس سے
عوام کے مزاج کا اندازہ ہوتا ہے۔یہ کیوں ہوا ؟ اس بات اندازہ ریلی کے بعد
وقوع پذیر ہونے والے ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ پٹنہ ریلی کے بعد
بیگوسرائے میں شہید پنٹو سنگھ کے گھر والوں سے ملنے کے لیے وزیر وجے سنہا
جب پہنچے پنٹو کے گھر والوں نے بی جے پی سے پوچھا کہ اس پروگرام منسوخ کیوں
نہیں کیا ؟ اور بولے’’آپ کافی دیر بعد خراج عقیدت پیش کرنے آئے ہیں، ایسے
نہیں ہوتا۔ یہ شہید کی بے عزتی ہے۔‘‘ ذرائع ابلاغ کی ہوا مختلف ہے لیکن
عوامی غم و غصہ کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ
بیگو سرائے سے اس بار سی پی آئی کے ٹکٹ پر کنھیا کمار کامیاب ہوجائے ۔ |