عراق کا امریکی فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ

شام میں قیام امن کے لئے ترکی ، ایران اور روس نے سر جوڑ لئے
شام ، افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد امریکی افواج کا عراق میں موجود رہ کر ایران پر نظر رکھنے کا منصوبہ

امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کی جانب سے مملکت شام میں داعش کو مکمل شکست کے اعلان کے بعد فوجی انخلا رکوانے کے لئے امریکی انتظامیہ اور کانگریس میں اختلافات بدستور برقرار ہیں۔ امریکی صدر اب صرف100فوجی شام میں موجود رہنے کا عندیہ دے چکے ہیں ۔ شام میں امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد خطے میں نئی صورتحال کے حوالے سے ترکی ، ایران اور روس کا اثر نفوذ بڑھ جائے گا۔ خاص طور پر شام کے صدر اور ایران کے صدر حسن روحانی اور مذہبی رہنما سے پہلی مرتبہ ملاقات میں علاقائی صورتحال پر بات چیت ہوئی۔ شام میں تبدیل ہوتی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے گزشتہ دن روس کے شہر سوچی میں روسی صدر ولادی میر پوتن ، ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان اور ایران کے صدر حسن روحانی چوتھے سہہ فریقی اجلاس میں شریک ہوئے۔ ’’ 14فروری کو روس کے شہر سوچی میں سہ فریقی کانفرنس منعقد ہوئی ۔سربراہی اجلاس کے بعد تینوں رہنماؤں نے مشترکہ طور پر پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔پریس کانفرس سے خطاب کرتے صدر رجب طیب اردوغان نے کہا کہ’’ اجلاس میں امریکہ کے فوجی دستوں کے شام سے انخلا کے فیصلے کا جائزہ لیا گیا اور اس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ انخلا کے بعد دہشت گرد تنظیم پی کے کے/ وائی پی جی اور داعش کو کسی صورت بھی علاقے میں قدم جمانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ انخلا کے بعد کی صورتحال کا تمام پہلووں خاص طور پر دہشت گردی کے موضوع پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ قائم کیے جانے والے سکیورٹی زونز دہشت گرد تنظیموں کے لئے فروغ دینے کا باعث نہیں بننے چاہئے، علاقے میں کسی بھی صورت دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘‘۔روس کے صدر ولادمیر پوتین نے کہا کہ ’’شام کے بحران کو حل کرنے کے لئے مختلف امور پر کام کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بارہویں آستانہ سربراہی اجلاس ماہ مارچ میں منعقد ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آئینی کمیٹی کی فہرست کے ناموں کی تقریبا مکمل طور پر منظوری دیدی گئی ہے‘‘۔ اس موقع پر ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا کہــ شام کے مستقبل کا فیصلہ صرف شام کے عوام کو کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ شام میں فائر بندی کے قیام کے لئے بڑے پیمانے پر کوششیں صرف کی گئی ہیں اور اس میں کافی حد تک کامیابی بھی حاصل کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ علاقے میں جنگ ختم ہو کر رہ گئی ہے اور اب علاقے میں امن کے قیام کی ضرورت ہے۔‘‘

17ستمبر2018میں ترکی نے ادلیب میں مکمل فائر بندی کی اپیل کی تھی جس کو کافی سراہا گیا تھا ۔ ادلیب نے فائر بندی پر مکمل عمل درآمد کے لئے صدر رجب طیب اردوغان نے مطابقت پر دستخط بھی کئے تھے ۔سوچی مطابقت کے دائرہ کار میں مخالف فوجوں کے پاس موجود بھاری اسلحہ کو واپس کرنے، علاقے میں امن کے قیام اور اپنا گھر بار ترک کرنے والے افراد کو واپس بنانے کا عمل شروع کر دیا گیا تھا تاہم مختصر عرصے کے بعد بشرالاسد انتظامیہ کے دستوں اور ایران نواز غیر ملکی ملیشیاگروپوں نے علاقے میں سول آبادی پر نئے سرے سے حملوں کا سلسلہ شروع ہونے سے فائر بندی کے اثرات زائل ہوئے۔متعلقہ گروپوں نے گزشتہ دنوں ادلیب میں توپوں سے 100 سے زائد بار حملے کیے تھے۔ روس، ترکی کو تشدد کے ذمہ دار گروپ ''حییت التحریر شام'' کی طرح کے گروپوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کرنے کی تجویز پیش کر چکا ہے لیکن ترکی علاقے میں سویلین آبادی کے متاثر ہونے کی وجہ سے اس فوجی آپریشن کی مخالفت کر رہا ہے۔فرقہ وارانہ خانہ جنگی میں سات برسوں میں 5لاکھ سے زاید افراد جاں بحق ہوچکے ہیں نیز لاکھوں شامی عوام اپنے ہی ملک میں آئی ڈی پیز بننے پر مجبور ہوئے اور لاکھوں افراد نے ترکی ، لبنان ، اردن ، یورپ میں پناہ لی ہوئی ہے ۔ شام میں خانہ جنگی اور تازی ترین تبدیلیوں پر ترکی ، روس اور ایران کے مذاکرات جاری ہیں ۔ ان مذاکرات کوآستانہ عمل کا عنوان دیا گیا تھا ، تینوں ممالک اِس وقت شام میں اہم کردار ادا کررہے ہیں ۔شام کے صدر بشار الاسد کی حمایت روس اور ایران کررہا ہے ، جب کہ امریکا بشار الااسد کے خاتمے کی کوشش کرتا رہا ہے ، داعش نے عراق و شام میں اپنے مضبوط ٹھکانے بنا لئے تھے ، جس کے خاتمے کے لئے عالمی قوتوں نے شام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ، دوسری جانب ایران نے بشار الاسد کی صدارت کو بچانے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ۔ ایک پر امن مظاہرے سے شروع ہونے والی خانہ جنگی میں لاکھوں انسانوں کو جانی و مالی نقصان ہی نہیں پہنچا بلکہ فرقہ وارانہ اختلافات کا اثر پوری مسلم دنیا پر پڑا ۔ ترکی بھی اس جنگ میں باغی کردوں کی وجہ سے کودا۔ جن کی حمایت امریکا کررہا تھا ۔امریکا نے مشرقی شام میں کرد وں کو ایساجنگی سامان دیا جو ترکی کے نزدیک کردستان کی مملکت بننے کی داغ بیل ڈالنے کا سبب بنا ۔ ترکی نے امریکا کو متنبہ بھی کیا کہ وہ کرد جنگجوؤں کو اس طرح مسلح نہ کرے کہ ترکی کی سلامتی کے لئے خطرہ بن جائیں ۔ شام میں گزشتہ تین برسوں سے بڑی تیز رفتاری سے تبدیلیاں ہورہی ہیں اور اب ترکی مشرقی شام میں کرد باغیوں کے خلاف جنگی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ یہ ترکی کے لئے بہت بڑا فیصلہ ہے کیونکہ امریکا اور روس کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے والا ترکی اب خود شام میں جنگ کا ایک کردار بن چکا ہے جو 30لاکھ شامی مہاجرین کی میزبانی بھی کررہا ہے جس پر 30ارب ڈالر اخراجات کو بھی برداشت کررہا ہے۔امریکا اب داعش کے مکمل خاتمے کے نام پر شام سے اپنی فوجیں نکالنے کا اعلان کرچکا ہے۔ امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف وٹیل نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایت پرعمل درآمد کرتے ہوئے شام امریکی فوج کو واپس بلانے کا امکان ہے۔جنرل وٹیل نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ امریکی فوج کے انخلاء کے وقت خطے میں امن وامان کی صورت حال کو بہتر بنانا ہوگا۔عراق کے بارے میں بات کرتے ہوئے جنرل جوزف وٹیل نے کہاکہ وہ سمجھتے ہیں کہ عراق میں امریکی فوج اپنی ذمہ داریاں ادا کرتی رہے گی۔تاہم عراقی انتظامیہ کی جانب سے امریکا کے اس بات کو رد کردیاہے کہ شام ، افغانستان کے فوجی انخلا کے بعد امریکی فوجیں عراق میں موجود رہ کر ایران پر نظر رکھیں گی ۔ عراق نے اپنے سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ کئے جانے کا عندیہ ہے ۔ عراقی وزیر اعظم عادل المہدی نے شام کے حوالے سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد تعاون کے لئے یقین دہانی ضرور کرائی ہے کہ عراق تمام فورسز کی شام میں قیام امن کے لئے کی جانے والی کوششوں کے لئے تیار ہے۔وزیر اعظم عادل المہدی نے عراق میں کسی نئے فوجی اڈے کے امکان کو رد کرتے ہوئے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ عراق میں اس وقت امریکا کا کوئی فوجی اڈا نہیں ۔ تاہم ذرایع ابلاغ کے مطابق امریکی صدر نے اپنے فوجیوں سے غیر اعلانیہ ملاقات عراقی میں موجود ایک فوجی اڈے میں کی تھی ۔ شام میں امریکی انخلا اس وقت عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے ۔ ترکی اور ترکی حمایت یافتہ ملیشیا شام کے سرحدی شہر مبنج میں داخل ہونے کی مکمل تیاری کرچکی ہیں ۔ تاہم مبنج میں موجود ڈیمو کرٹیک فورسز شہر کا انتظام شامی حکومت کے حوالے کرنا چاہتی ہیں ۔ لیکن ترکی تواتر کے ساتھ شہر میں داخل ہونے کے لئے تیاریوں میں مصروف اور مبنج شہر پر قبضے کے لئے ارادے ظاہر کرچکا ہے ۔

عراق میں امریکی فوجیوں کے انخلا کے حوالے سے عراقی پارلیمنٹ کے70اراکین نے غیر ملکی قوتوں ،خاص طور پر امریکی فوجیوں کے انخلا کے بل پر دستخط کئے ہیں ۔عراق کے قومی سلامتی اور دفاع کے پارلیمانی کمیشن کے رکن مہدی تقی کے مطابق عراق میں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد اور فوجی اڈوں کی مکمل معلومات مسلح افواج کے کمانڈر انچیف عادل عبدالمہدی نے پارلیمنٹ کو نہیں دیں تو ان کے خلاف مواخذے کی تحریک بھی لائی جا سکتی ہے۔عراقی ذرائع کے مطابق بتایا جارہا ہے کہ امریکا اپنا بھاری فوجی ساز وسامان مغربی عراق کے شہر الرمادی میں شام سے ملنے والی سرحدی علاقے میں پہنچانا شروع کرچکا ہے۔ رپورٹس کے مطابق صوبہ الانبار کے شہر الرمادی سے 490کلو میٹر کے فاصلے پر واقع التنف میں پہنچائے جانے والے جنگی سازو سامان میں بھاری توپیں اور ریڈار بھی شام ہیں ۔ 2017سے عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے مطالبات کئے جارہے ہیں لیکن امریکی صدر ٹرمپ واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ’’ امریکی فوجی عراق میں رہ کر ایران پر نظر رکھیں گے‘‘ ۔ امریکی صدر کے غیر اعلانیہ دورے کے بعد عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے ۔ تاہم امریکا کی جانب سے ایران حمایت یافتہ جنگجو ملیشیا کی موجودگی پر ایران سے کہا گیا ہے کہ’’ وہ اپنی حمایت یافتہ جنگجوؤں کو عراق سے وپس بلا لیں ، کیونکہ داعش کی شکست کے بعد اب ایران حمایت جنگجو ملیشیاؤں کی عراق میں کوئی ضرورت نہیں ہے‘‘۔2017میں ایران نے داعش کو شکست دینے کا اعلان کیا تھا کہ عراق سے داعش کا خاتمہ کردیا ہے ۔ اُس وقت کے عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے بھی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ داعش کو فوجی حد تک شکست ہوگئی ہے۔ لیکن وہ دولت اسلامیہ کے خلاف حتمی فتح کا اعلان اس وقت کریں گے جب ریگستان میں بھی اس کو تباہ کردیا جائے‘‘۔

اسرائیل اور امریکا نے عراق میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر نفوذ پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ایران کی عراق میں موجودگی سے انہیں خدشہ لاحق ہے کہ عراق کو اسرائیل کے خلاف حملوں کے لئے استعمال کیا جائے گا ۔ امریکی صدر بھی اپنے ان خدشات کا اظہار کرچکے ہیں۔ اسی لئے انہوں ’’ الاسد‘‘ کے فوجی اڈے میں ایرانی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے باور کرایا تھا عراق میں امریکی فورسز ایرانی نفوذ پر قریب سے نظر رکھے گی ۔اس کی بنیادی وجہ اُس وقت سامنے آئی جب عراق میں ایران نواز جنگجو ملیشیا ؤں میں سے عصائب اہل الحق کے سیاسی ونگ ’’ صادقون‘‘نے اسرائیل پر حملوں کے لئے شام میں داخل ہونے کی دھمکی دی تھی۔ شام میں موجود ایرانی عسکری ٹھکانوں پر اسرائیلی حملوں میں اضافے کے بعد عراقی ملیشیا کی قیادت کے اعلان کے بعد ایرانی فضائیہ کے سربراہ بریگیڈیئر جبل عزیز نصیر زادہ کا بھی اعلان آیا کہ ان کا ملک اسرائیل کے ساتھ فیصلہ کن معرکے کے لئے تیار ہے۔عراق سے امریکی فوجی انخلا نہ ہونے کی صورت میں ایران اور اسرائیل کے درمیان شام میں عسکری ٹھکانوں پر حملوں میں اضافے کے بعد صورتحال مزید سنگین ہوجائے گی۔ جس کے بعد شام جہاں ایک جانب ترکی کی جانب سے امریکی حمایت یافتہ کردوں کے خلاف زمینی و فضائی کاروائی کرے گا تو دوسری جانب اسرائیل ، ایرانی عسکری ٹھکانوں کو نشانہ بنائے گا ۔ جس سے مشرق وسطی کی صورتحال میں امریکی فوجیوں کے انخلا کے باوجود جلد بہتری کی توقعات نہیں ہیں۔بلکہ ایک نئے محاذ کھلنے کا امکان زیادہ ہے۔امریکا کا یہ دعویٰ تو سامنے آچکا ہے کہ وہ چند ہفتوں میں باقی ماندہ داعش کا خاتمہ کردے گا لیکن گزشتہ دنوں ایک فضائی حملے میں عام افراد کی ہلاکت پر تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے کہ داعش کو اگر شام سے شکست ہوگئی ہے تو عام عوام کیوں نشانہ بن رہے ہیں۔

عراق اور شام میں داعش کی تعداد 20/20ہزار سے زاید بتائی جاتی رہی ہے ۔ داعش نے عالمی سطح پر اسلام کے نام و امن و سلامتی کے دین کو بُری طرح نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ سب سے زیادہ نقصان مسلم امہ کو پہنچا اور داعشی فتنے کی وجہ سے عراق و شام کے مسلمانوں کے علاوہ افغانستان کی عوام بھی بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ عراق سے داعش کی شکست کے بعد داعش کی بڑی تعداد شام میں مختلف شہروں میں جمع ہوئی ۔ جن کے خلاف روس ، امریکا نے فضائی حملے کئے ۔ زمینی جنگ میں ایران اور بشار الاسد کی حمایت یافتہ جنگجو ملیشیاؤں نے بھی داعش کو شکست دینے میں کامیابی حاصل کی اور داعش کی بڑی تعداد مارے جانے کے بعد اُس سے کئی بڑی تعداد شام سے نکل کر دیگر ممالک میں چھپنے میں کامیاب ہوگئے ۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ داعش کے جنگجوؤں کو شکست ہوئی ہے لیکن ان کے فتنے کا نظریہ ابھی ختم نہیں لیکن کمزور ضرور ہوا ہے۔ مبینہ طور پر داعش کی بڑی تعداد نے جنگ زدہ افغانستان کو اپنی پناہ گاہ بنائی ہوئی ہے لیکن افغان طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر امریکی و غیر ملکی افواج افغانستان سے انخلا کرتی ہیں تو افغان طالبان انہیں بہت جلد ختم کردیں گے۔امریکا ، برطانیہ اور یورپی ممالک کے لئے یہی خدشات پریشان کن ہیں کہ عراق و شام کے بعد داعش کا اگلا ٹھکانہ افغانستان ہے لہذا انہیں دوبارہ مستحکم ہونے کے بجائے منتشر یا ختم کردیا جائے ، جس کی گارنٹی افغان طالبان نے امریکا سے مذاکرات کے دوران دی ہے کہ افغانستان کی سرزمین اس سے پہلے کبھی کسی بیرون ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوئی اور آئندہ بھی نہیں ہوگی۔ترکی کے وزیر داخلہ کا ایک بیان سامنے آیا کہ گزشتہ ہفتے بم سے بھری گاڑی ترکی میں پکڑی گئی تھی ۔ وزیر داخلہ کے مطابق اس منصوبہ بندی میں داعش کا ہاتھ ہے جو وائی پی جی نامی تنظیم کے 100دہشتگردوں کی رہائی کے لئے جال بن رہے تھے۔

امریکہ کے قائم مقام وزیر دفاع پیٹرک شناناہن نے افغانستان کا مختصر دورہ کیا۔ ان کا دوراس وقت کیا گیا جب افغانستان میں امن مفاہمتی عمل فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہورہا ہے۔18فروری کو افغان طالبان کا وفد وزیر اعظم عمران خان سے اسلام آباد میں باقاعدہ ملاقات بھی کرے گا۔ مذاکرات کے اگلے دور کے متعلق ترجمان کا بیان سامنے آیا ہے کہ امارت اسلامیہ اور امریکا کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک 5مذاکراتی اجلاس ہوچکے ہیں،حالیہ اجلاس کے دوران ہونیوالے فیصلے کے مطابق دوحہ میں اجلاس پنجم میں دو روز کے وقفے کے بعد2مارچ بروز ہفتہ سے دوبارہ شروع ہوجائیں گے۔کابل حکومت میں افراتفری مچی ہوئی ہے۔ الیکشن کمیشن کو برطرف کردیا ہے نیز کابل حکومت نے مذاکرات میں رخنہ ڈالنے کے لئے اقوام متحدہ میں افغان طالبان رہنماؤں کی روس ماسکو افغان امن کانفرنس میں شرکت سمیت نقل وحرکت پر اعتراض اٹھایا ہے کہ بلیک لسٹ رہنما سفر کررہے ہیں ۔ افغان طالبان نے قطر میں مذاکرات سے قبل مذاکراتی وفد کے ناموں کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ا مریکی فریق کے ساتھ امارت اسلامیہ کے مذاکرات جاری ہیں۔ مذاکرات سے متعلق ذمہ داروں کی طرف سے ابھی تک بہت اچھے طریقے سے سرگرمیاں انجام دی جا رہی ہیں۔ امریکی افواج کی واپسی کے بعد انتظامی معاملات میں کئی اہم مراحل باقی ہیں ۔ جسے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ قطر میں افغان طالبان کے سیاسی نائب سربراہ الحاج ملا عبدلغنی بھی مذاکراتی عمل کی نگرانی کے لئے موجود ہیں۔امریکا ، افغانستان اور شام سے انخلا کے لئے منصوبہ بندی و مذاکراتی عمل میں مصروف ہے لیکن عراق میں موجودگی خطے میں امن کی راہ میں مسلسل رکاؤٹ کا سبب بن سکتی ہے۔امریکی قائم مقام وزیرِ دفاع نے افغانستان کے علاوہ عراق میں امریکی وجود کے حوالے سے ڈرکو دور کرنے کے زیر مقصد بغداد کا اچانک دورہ کیا تھا۔عبدالمہدی نے دارالحکومت بغداد میں امریکہ کے نائب وزیر دفاع پیٹرک شاناہن کے ساتھ ملاقات کی۔عراق کے وزیر اعظم عادل عبد المہدی نے کہا ہے کہ عراق کی زمین پر غیر ملکی فوجی بیس ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ عراقی وزیر اعظم عبدالمہدی نے قائم مقام امریکی وزیر دفاع شاناہن سے کہا ہے کہ ہم ملکی زمین پر کسی بھی غیر ملکی فوجی بیس کو قبول نہیں کرتے۔انہوں نے کہا ہے کہ عراق کا فیصلہ آزادانہ فیصلہ ہے اور کسی بھی فریق کے اثر و نفوذ سے متاثر نہیں ہو سکتا۔عبدالمہدی نے مزید کہا کہ ہم عرب اور علاقائی ممالک کے ساتھ روابط کو فروغ دیناجاری رکھے ہوئے ہیں۔امریکہ کے نائب وذیر دفاع شاناہن نے کہا ہے کہ ہم عراق کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں اور میرے اس دورے کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت اور مستقبل کے بارے میں عراقی حکومت کے نقطہ نظر سے آگاہی حاصل کرنا ہے۔

امریکی صدر کو شام اور افغانستان سے افواج کے انخلا کے حوالے دباؤ کا سامنا ہے ۔ اس لئے دیکھنا یہ ہے کہ شام سے امریکی فوجیوں کا انخلا کب تک ممکن ہوگا ۔ جس کے بعد افغانستان سے واپسی کا وعدہ پورا ہوتا ہے یا نہیں ۔ شام اور افغانستان کے بعد عراق میں امریکی افواج کے انخلا و فوجی اڈے کے قیام کے ارادے پر روس ، ترکی اور ایران نے روس کے شہر سوچی میں سر جوڑ ے۔امریکی صدر اپنے انتخابی وعدوں کی تکمیل کے لئے کم ازکم اتنا وقت ضرور لے سکتے ہیں جب امریکا میں 2020کو صدارتی انتخابات کے اہم مرحلہ ہوگا اور امریکی صدر یقینی طور پر اپنے انتخابی وعدوں کا کریڈٹ لیں گے اگر امریکی صدر اپنے انتخابی وعدوں پر عمل درآمد نہ کرسکے تو ممکن ہے انہیں اپنی انتخابی مہم چلانے میں دشواری کا سامنا ہو۔امریکی صدارتی انتخابات سے قبل افغانستان ، شام اور عراق سے غیر ملکی افواج کے انخلا ء کی حکمت عملی پر عمل درآمد تاریخی فیصلے بن سکتے ہیں اگر فریقین مثبت عمل پر یقین رکھتے ہوں ۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 399 Articles with 262813 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.