فوزیہ صدیقی کو محمد بن قاسم کی تلاش

شیخ سعدی ؒ کا قول ہے
ََِِِِ،،میں آج تک اپنی خاموشی پر نہیں پچھتایا۔جب بھی پچھتایا ،اپنے بولنے پر پچھتایا،،
پنجاب کے سابق وزیر اطلاعات جناب فیاض الحسن چوہان صاحب نے کاش شیخ سعدیؒ کا یہ قول پڑھا ہوتا تو ہو سکتا ہے وہ اس انجام سے دوچار نہ ہوتے ممکن ہے اُنہوں نے پڑھا بھی ہو لیکن جب انسان کو اُس کی سوچ سے زیادہ مل جاتا ہے تو وہ اس طرح کی حرکتیں کرتا ہے جس طرح کی حرکتیں جناب فیاض الحسن چوہان صاحب کرتے رہے ہیں یا کچھ وزرا کر رہے ہیں لیکن ایک فیاض الحسن چوہان ہی کیا یہاں ایک سے بڑھ کر ایک چوہان ہے ایک اٹھتا ہے تویہودیوں کو حضرت محمد ﷺ کا اُمتی بنا دیتا ہے دوسرا ہوش میں آتا ہے تو کلبھوشن یادیو کوملک سے باہر بھیج دینے کا دعوہ کر دیتا ہے تیسر ا سوچتا ہے کہ یہ نہ ہو باقی مجھ پر بازی لے جائیں تو وہ جناب عمران خان صاحب کو اﷲ کے بعد سب سے افضل قرار دئے دیتا ہے ان حالات میں میرئے شہر کے صاحب کس طرح خوشامد میں کمتر ثابت ہو سکتے ہیں جنا ب ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے جناب عمران خان صاحب کے لیے قومی اسمبلی میں نوبل انعام کی قرارداد جمع کروا دیتے ہے لیکن فیاض الحسن چوہان صاحب پھر بھی ان تمام مخلوقات میں سے برتر تھے جس وجہ سے اسد عمر جیسے ارسطو بھی اُن کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کر رہے ہے کوئی طبقہ فکر ایسا نہیں جس کوفیاض الحسن چوہان صاحب نے نہ للکارا ہو صحافی ہو یا آرٹسٹ،مولانا حضرات ہویا لبرل ، سیاستدان ہو یا اقلیتی طبقہ جناب کے دست شفقت سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہا بے ہودہ الفاظ کے استعمال میں وہ جناب شیخ رشید صاحب کو بھی مات دئے گئے جانے سے پہلے معصوم کشمیریوں کا بھی زک پہچانا نہیں بھولیں لیکن ہندؤ برادری کے ساتھ چھیڑ خانی اُن کا سر لے گئی ہر دور حکومت میں فیاض الحسن چوہان کسی نا کسی روپ میں موجود ہوتا ہے کبھی دانیال عزیز کے روپ میں تو کبھی طلال کے روپ میں لیکن قصور ان بے چاروں کا بھی نہیں یہ اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لیے اس طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں دوسروں کی پگڑیاں اچھالتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ مائی باپ کو جب تک ضرورت ہو آستعمال کرتے ہیں اورجب یہ کھلونے آستعمال کے قابل نہیں رہتے تو ناراض ہو کر ان جیسے کھلونوں کی بھی پگڑیاں اچھال دیتے ہیں اب بھی وقت ہے عمران خان صاحب کی کابینہ میں شامل کچھ وزرا شیخ سعدیؒ کا قول فریم کر واکے اپنے بیڈ روم کی دیوار پر لگا لیں کیونکہ فیاض الحسن چوہان کو فارغ کرنے کے فیصلے سے لگتا ہے کہ خان صاحب دیر سے ہی سہی لیکن اچھے فیصلے کرنے کی صلا حیت رکھتے ہے موجودہ حکومت کا یہ اقدام بھی اچھے فیصلوں میں شمار ہو گا جس کے تحت وہ تنظیمیں جو دہشت گردی میں ملوث تھی اُن کو کالعدم قرار دیا جا رہا ہے اس ملک اور اس قوم نے دہشت گردی کی وجہ سے بڑی قربانیاں دی ہیں اب بھی اگر دہشت گرد عناصر کو نکیل نہ ڈالی گئی تو اس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلیں بھی بھگتیں گی ویسے بھی کچھ شخصیات اب اس دھرتی کے لیے بوجھ بن گئی ہیں دنیا میں جہاں بھی دہشت گردی کا کوئی واقع وقوع پذیر ہوتا ہے تو ہمیشہ انگلی پاکستان کی طرف اُٹھتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ اب اس بوجھ سے چھٹکارہ حاصل کر لیا جائے لیکن نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرتے ہوئے حکومت کو اس بات کا خیال رکھنا پڑئے گا کئی بے گناہ لوگ بھی اس کے نرغے میں نہ آجائے اور جو مدارس قومی تحویل میں لیے جا رہے ہیں اُن میں زیر تعلیم طالبعلموں کا تقصان نہ ہوحکومت کو اب مدارس کا نصاب بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کوشش کرنی چاہیے کہ تمام مدارس کو جدید خطوط پر استورا کیا جائے تا کہ ان مدارس سے فارغ التحصیل طالبعلم معاشرئے کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکیں لیکن کالعدم تنظیموں کو قومی دھارئے میں شامل کرنے کا حکومت کا بیان سمجھ سے بالا تر ہے اس وقت تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بلا تفریق کاروائی ہی پاکستان کے مفاد میں ہے کیونکہ ہم ایک بار پھر دہشت گردی کے متحمل نہیں ہو سکتے دہشت گردی کا ایک مظاہرہ تو آج ہم کو پاکستان کے تمام بڑئے شہروں بالخصوص لاہور ، کراچی اور اسلام آباد میں دیکھنے کو ملا جب کچھ مادر پدر آزاد خواتین وومن ڈئے (عورتوں کے دن) کے حوالے سے پلے کارڈ اٹھائے سڑکوں پر نظر آئیں اُن پلے کارڈ پر لکھی تحریر یں ہماری ثقافت، ہماری روایات اور ہمارئے مذہب پر خود کش حملے کے مترادف تھی ایک تحریر جو میر ی نظر سے گزری ،،نظر تیری گندی اور پردہ میں کرو،،سورہ احزاب آیت نمبر 59میں اﷲ تعالی کا ارشاد پاک ہے
ترجمہ: اے نبی آپ ﷺاپنی بیویوں سے اور آپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمان عورتوں سے فرما دیجیے اپنے چہروں کے اوپر(بھی) چادروں کا حصہ لٹکایا کریں۔
کچھ اس طرح کے پلے کارڈ بھی نظر سے گزرئے جو ہمارئے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے،، کھانا گرم کر دو گی بستر خود گرم کر لو،، اس طرح کا دہشت گرد حملہ اُن دہشت گرد حملوں سے جس میں ہم ستر ہزار سے زیادہ جانوں کا نذرانہ دئے چکے ہیں زیادہ تکلیف دہ ہو گا ان دہشت گرد حملوں سے بچاؤ کے لیے حکومت سے زیادہ والدین کا کردار اہم ہو گا دہشت گردی کا شکار تو ہماری معصوم بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی ہوئی ہے جن کی دو مارچ کو سالگرہ تھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سولہ سال سے ناکردہ گناہ کی پاداش میں امریکہ میں پابند سلاسل ہے جس تکلیف سے وہ گزر رہی ہے اُس کا اندازہ نہ ہم لگا سکتے ہیں اور نہ اس ملک کے حکمران اُن کو اس اذیت میں مبتلا کرنے میں جنرل (ر) مشرف صاحب کا بھی ہاتھ تھا اس لیے اُن کو اس عذاب سے نکالنا جنر ل باجوہ صاحب کا بھی فرض ہے بہن ہونے کا فرض تو ادا کر رہی ہیں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی جو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے ہر رات در در کے دھکے کھا کر مایوس ہو کر گھر واپس آتی ہے اور ہر صبح ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی امید لے کر نئے عزم اور نئے حوصلے کے ساتھ گھر سے نکلتی ہے اب تک تو ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو ملا ہے یوسف رضا گیلانی کے دور حکومت میں عافیہ کی رہائی کے دلاسے، نواز شریف کی حکومت میں لارئے اور موجودہ حکومت سے وعدئے اُ پ نے یہ دیکھنا ہو کہ دکھ اور بے بسی کیا ہوتی ہے تو ایک دفعہ عصمت صدیقی سے مل لیں،یہ پتا کر نا ہو کہ مجبوری اورلاچارگی کس کو کہتے ہیں تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بچوں سے مل لیں اور اگر یہ دیکھنا ہو کہ صبر کیا ہوتا ہے اور دکھ میں لوگوں کے سامنے کس طرح مسکرایا جاتا ہے تو ایک دفعہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے مل لیں دلاسوں، لاروں اور جھوٹے وعدوں کے باوجود ڈاکٹر فوزیہ صدیقی چہرئے پر مسکرائٹ سجائے اس ملک کی ہر طاقتور شخصیت میں محمد بن قاسم کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جو اُن کی والدہ عصمت صدیقی کے زخموں پر مرہم رکھ دئے جو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بچوں کے غموں کو خوشیوں میں بدل دئے ،جو ڈاکٹر عا فیہ صدیقی کو ناکردہ گناہوں کی سزا سے نجات دلا دئے اور جو اُن کے زبردستی روکے گئے آنسوں کو خوشی میں بہنے کا موقع مہیا کر دئے-

Raja Waheed Ahmed
About the Author: Raja Waheed Ahmed Read More Articles by Raja Waheed Ahmed: 20 Articles with 14739 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.