وزیراعظم ٹریزامے کی جانب سے برطانیہ کو یورپی یونین سے
نکالنے کی ڈیل کو پارلیمانی اراکین نے دوسری بار مسترد کر دیا ہے اور اب اس
معاہدے کیلئےاپنائے گئے لائحہ عمل پر مزید ابہام پیداہوگیاہے۔ 12جنوری کے
بعد ایوان میں اراکین نے منگل کو اس معاہدے کو 242 کے مقابلے میں 391 ووٹ
سے مسترد کیا۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اب اراکین پارلیمان اس بارے میں ووٹ
ڈالیں گے کہ کیا برطانیہ کو معاہدے کے بغیر ہی 29 مارچ کو یورپی یونین سے
نکل جاناچاہیے اوراگراس میں بھی ناکامی ہوئی توپھر سوال یہ ہو گا کہ کیا
بریگزیٹ کو التوا میں ڈال دیا جائے۔ بریگزٹ ڈیل پراراکینِ پارلیمان کی
ووٹنگ سے پہلے برطانوی وزیرِاعظم ٹریزامے نے کہاکہ وہ اس ڈیل پر’’ لازمی
قانونی‘‘تبدیلیوں کے حصول میں کامیاب رہی ہیں ۔ تاہم یورپی کمیشن کے صدر
ژان کلاؤڈ جنکر نے متنبہ کیا تھا کہ اگر اس ڈیل کو ووٹنگ میں شکست ہوئی
توتیسراموقع نہیں ملے گا۔
یہ بات برطانوی وزیراعظم اوریورپین کمیشن کے صدرنے سٹارسبوگ میں رات گئے
ہونے والی ایک میٹنگ کے بعدمشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی۔
آخری مرتبہ وزیر اعظم کی مجوزہ بریگزٹ ڈیل کوپارلیمان کے سامنے جنوری میں
پیش کیاگیاتھااوراس میں اسے 230 ووٹوں سے تاریخی شکست کاسامناکرناپڑاتھا۔
ژان کلاؤڈجنکراورمائیکل بارنئیرسے بات چیت کے دوران دو دستاویزات پرتمام
فریقین متفق ہوئے۔ کیگنٹن کہتے ہیں کہ یہ نہ صرف برطانیہ کے یورپ سے انخلا
کے معاہدے کو’’مضبوط اور بہتر‘‘بنائے گابلکہ مستقبل کے تعلقات کے سیاسی
اظہارکو بھی۔وزیر اعظم مے کہتی ہیں کہ اگر یورپی یونین نے برطانیہ کو بیک
سٹاپ تک محدود کرنے کی کوشش کی تواس دستاویزکو یورپی یونین کے
خلاف’’باقاعدہ زیر بحث‘‘لانے کیلئے استعمال کیاجاسکتاہے۔ یہ ایک طرح کا
حفاظتی اقدام ہے۔
یورپی یونین نے کہا ہے کہ برطانیہ کے رواں ماہ یورپ سے اخراج یا بریگزٹ پر
ڈیل کا معاملہ اور مستقبل اب ارکانِ پارلیمان کے ہاتھوں میں ہے۔یورپی حکام
نے کہا ہے کہ انھوں نے آئرش بیک سٹاپ کے معاملے پرارکانِ پارلیمان کوایک
بار پھریقین دہانی کروائی ہے۔بیک سٹاپ کاحل برطانیہ اوریورپی یونین کے
درمیان دسمبر 2017 میں طے پانے والا معاہدہ ہے جس کا مقصد برطانیہ میں
موجود آئرلینڈ اورشمالی آئرلینڈ کے درمیان سرحد پارتعاون برقراررکھنا،آئرش
جزیرے کی معیشت میں مدد کرنااورگڈ فرائیڈے امن معاہدے کی پاسداری کرناشامل
ہے۔اگربرطانیہ یورپ سے علیحدہ ہوجاتاہے تووہ اشیاکی درآمداوربرآمدپرنئے
قوانین لاگوکرے گالیکن برطانیہ میں موجودآئرلینڈ اور شمالی آئرلینڈکے
درمیان’’بیک سٹاپ‘‘معاہدے کی وجہ سے آئرلینڈ کی امپورٹ ایکسپورٹ اور کسٹمز
قوانین یورپی قوانین کی پاسداری کریں گے لیکن ارکانِ پارلیمان کواس بات
کاخدشہ ہے کہ برطانیہ یورپ سے نکلنے کے بعد بھی یورپی قوانین کی پاسداری
کرے گا۔ یادرہے کہ برطانیہ کو 29 مارچ تک یورپی یونین سے نکلناہے۔تاہم
برطانوی ارکانِ پارلیمان نے جنوری میں وزیراعظم کی طرف سے پیش کی گئی ڈیل
کومستردکیاتھااوراس میں اہم تبدیلیوں کامطالبہ کیاتھالیکن زیادہ تر ارکانِ
پارلیمان کوبل میں شامل آئرش"بیک سٹاپ"کے نکتے پراعتراض ہے۔اب ایک مرتبہ
پھر12 مارچ کوحکومت کوپارلیمنٹ میں شکست کاسامنا کرناپڑاہے جس کے
بعدلیبرپارٹی کے لیڈرنے وزیراعظم مے سے باقاعدہ دوبارہ الیکشن کامطالبہ
کردیاہے۔
چھبیس جون 2016ء کو برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ
ڈال کر بریگزٹ کو تو کامیابی بخش دی، لیکن اب حال یہ ہے کہ یورپی یونین سے
کس طرح نکلنا ہے اس پرتقسیم اس قدربڑھ گئی ہے کہ بغیرمعاہدے یونین کوچھوڑنے
کاڈرستانے لگاہےکیونکہ یہ برطانیہ کیلئےتباہ کن ہوسکتا ہے۔یہ وہ وقت تھاجب
نہ صرف برطانیہ کی معیشت یورپی یونین کے دیگر ملکوں کی نسبت بہتر تھی بلکہ
بیروزگاری کی شرح بھی کم تھی لیکن مزید طلب کی خواہش نے جنم لیااوربرطانوی
عوام نے ملازمتیں غیرملکیوں کوملنے اورمعاشی مشکلات کے ڈر سے الگ ہونے کا
فیصلہ کرلیا۔ لیکن اس فیصلے کے بعد لینے کے دینے پڑنے کا خوف بڑھ گیا ہے
اور اگر بغیر سمجھوتے یورپی یونین سے نکلے تو برطانوی عوام کے خواب اور
امیدیں انہیں مایوسی اور اندھیروں میں دھکیل سکتی ہیں۔
آخر قوم پرستی جسے اب سماجی ماہرین برطانویت کا نام دے رہے ہیں اچانک کیسے
ابھری؟ اس کا جواب تارکینِ وطن کی لہر ہے۔ برطانوی عوام نے تارکینِ وطن کی
آمد کے ساتھ اپنی قوم کی ہیئت اور ثقافت کو بدلتا دیکھا۔ اس پر ان کا
ردِعمل معاشی نتائج کی پروا کیے بغیر بریگزٹ کی صورت میں نکلا۔ تارکینِ وطن
کی لہر پر ردِعمل کی ایک وجہ معاشی بحران تھا۔ برطانوی عوام نے مشرقی یورپ
سے بڑی تعداد میں تارکینِ وطن کی آمد کو ایک خطرے کے طور پر لیا۔ اگرچہ
برطانیہ کی معیشت نئے تارکینِ وطن کو جذب کرنے کی بہترین صلاحیت رکھتی تھی
لیکن عوام نے معاشی بحران کے دوران جو بھگتا، یہ فیصلہ کرتے وقت صرف اسے ہی
ذہن میں رکھا۔
برطانوی عوام نے جونتیجہ اخذکیاوہ اندازے کی بہت بڑی غلطی تھی۔برطانوی عوام
میں قوم پرستی کے اس رجحان سے 4سال پہلے 2002ء میں لیبر پارٹی کے سابق رکنِ
پارلیمنٹ ٹونی رائٹ نے’’ دی اینڈ آف بریٹن‘‘ (The End of Britain) کے
عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا۔ اس مضمون میں ٹونی رائٹ نے اپنے ملک کے
مردوخواتین میں شناخت کے بحران کی بروقت نشاندہی کی اور لکھا کہ برطانوی
عوام میں یہ تصور واضح نہیں کہ وہ کون ہیں؟ کہاں ہیں؟اورکیاہیں؟
ٹونی رائٹ کے مطابق برطانویت انگلینڈ،اسکاٹ لینڈ، ویلزاورشمالی آئرلینڈ کے
عوام کوجوڑنے کیلئےتخلیق کیا گیا۔بیسویں صدی میں جنگ،سلطنت اوربادشاہت نے
برطانویت کوقائم رکھنے کیلئےتاریخی اورعلامتی گوندکاکرداراداکیا۔جونہی ان
عظیم کامیابیوں کی یاددھندلی پڑی اور بادشاہت بھی بحران میں آئی تویہ
گوندکمزورپڑگئی۔اس کے نتیجے میں برطانیہ ایک گہری مشکل لیے 21ویں صدی میں
داخل ہوا۔
وزیرِاعظم ٹونی بلئیر کے دورمیں ویلز،اسکاٹ لینڈاورشمالی آئرلینڈکواپنی
علاقائی پارلیمان تومل گئیں لیکن انگلینڈ کو کچھ نہ ملا۔ 2008ءاور2009ءمیں
پیداہونے والے معاشی بحران کے دوران یونائیٹڈ کنگڈم (United Kingdom) کے
مختلف علاقے الگ الگ رفتارکے ساتھ معاشی مشکلات سے نکلے۔اگرچہ لندن کے
معاشی مرکزمیں کاروباردوبارہ سے چمک اٹھےلیکن انگلینڈ کے مختلف صنعتی
علاقوں میں آج بھی اس بحران کے اثرات موجود ہیں۔ اس بحران کے نتیجے میں
سیاسی قیادت نے بچت کیلئےجو اقدامات اٹھائے اُس کے نتیجے میں عدم مساوات کی
کیفیت بھی پیدا ہوئی۔
ان حالات کے نتیجے میں برطانیہ کے عوام میں قومی عظمت کا خواب پیدا ہوا، جس
کیلئےقربانی کا بکرا ’ ’یورپی سُپر اسٹیٹ‘‘ بنی۔ یہی قوم پرستی تھی جس کی
بنا پر انگلینڈ اور ویلز کے علاقوں کے عوام نے بریگزٹ کے حق میں ووٹ دیا
جبکہ لندن اور اسکاٹ لینڈ میں رہنے والوں کی اکثریت نے بریگزٹ کے خلاف رائے
دی۔
لیبر پارٹی کے سابق رکن پارلیمنٹ ٹونی رائٹ کے لفظوں میں کہا جائے تو’ ’ملک
خود اپنے ساتھ جنگ میں ہے‘‘ بریگزٹ نے ثقافتی جنگ نہیں چھیڑی بلکہ اس جنگ
کو زنجیروں سے آزاد کیا ہے، بوڑھے یا جوان، دیہی یا شہری، ڈرپوک اور
بہادر، ہر کوئی اس کا حصہ ہے۔ برطانوی عوام وطن اور شناخت کے معاملات پر لڑ
رہے ہیں۔ اسی طرح کے خیالات نے پورے یورپ میں دائیں بازو کی جماعتوں
کوسہارادیاہے۔ برطانیہ میں 2 جماعتی نظام کسی تیسری قوت کے ابھرنے میں
رکاوٹ ہے لیکن بریگزٹ نے وہی کردار نبھایا۔ اب بریگزٹ نے قوم کو مزید تقسیم
کردیا ہے۔
یورپی یونین مخالف دھڑے کوخوش رکھنے کیلئےوزیرِاعظم تھریسا مے نے بریگزٹ
ڈیل پر مذاکرات میں سخت مؤقف اپنایا۔ تھریسا مے نے فیصلہ کیا کہ ان کا ملک
یورپی یونین کی مشترکہ مارکیٹ، کسٹمز یونین، یورپی عدالت کے دائرہ اختیارسے
علیحدہ ہوجائے گا۔تھریسامے نے فیصلہ کیا کہ برطانیہ پوری دنیاکے ساتھ الگ
الگ تجارتی معاہدے کرے گااوریورپی شہریوں کی محدود تعداد کوہی ملک میں کام
کی اجازت دے گا۔اس سب کے باوجودہرممکن طریقے سے یورپی یونین کے ساتھ روابط
کو بھی مضبوط رکھے گا۔
تھریسا مے نے ان فیصلوں میں پارلیمان کواعتماد میں نہیں لیااورقبل ازوقت
انتخابات کااعلان کردیا۔ تھریسا مے کوامید تھی کہ وہ اس قدربڑی اکثریت حاصل
کرلیں گی کہ بلاشرکت غیرے فیصلے کر پائیں گی۔ مگر جون 2017ء کے انتخابات
میں تھریسا مے کی امیدیں پوری نہ ہوسکیں اور وہ پہلے سے حاصل اکثریت بھی
کھو بیٹھیں۔اقلیتی حکومت کی سربراہ بننے کے بعد تھریسا مے نے برطانوی عوام
کوبریگزٹ ڈیل پرزیادہ کچھ نہ بتایا اورکئی مہینوں کے مذاکرات کے بعدایسی
ڈیل پارلیمان میں پیش کی جس سے بریگزٹ کے حامی اورمخالف دونوں دھڑوں میں
اپنے دشمن پیدا کرلیے۔
بریگزٹ ڈیل پرصرف ایک فریق خوش ہے اوروہ ہے برسلز۔یورپی یونین کے خارجی
بارڈرپر طویل قطاروں سے بچنے کیلئےتھریسامے اوربرسلز کے درمیان یہ طے
پایاکہ بریگزٹ کے عبوری عرصے کے دوران اگربرسلزاورلندن کے درمیان آزاد
تجارتی معاہدہ نہیں ہوپاتا تو 2020ء تک شمالی آئر لینڈ یورپی یونین کی
کسٹمز یونین اورمشترکہ مارکیٹ کا حصہ رہے گا۔ بریگزٹ کے حامی اس شق کوملک
کی مستقل تقسیم کے طور پر دیکھتے ہیں۔
وزیرِاعظم تھریسا مے اپنی بریگزٹ ڈیل سے پیچھے ہٹنے کوتیارنہیں،اگرچہ انہوں
نے حزبِ اختلاف کو بات چیت کی دعوت بھی دی ہے۔تھریسا مے کاخیال ہے کہ
بریگزٹ کی تاریخ نزدیک آتے ہی ان کی ڈیل کے مخالفین بغیر ڈیل علیحدگی کے
خوف سے ان کی حمایت پرمجبورہوجائیں گے۔ابھی تک وزیرِاعظم تھریسامے کے پاس
اس مشکل سے نکلنے کاکوئی حل نظرنہیں آتا۔اعتمادکاووٹ جیتنے کے بعدتھریسامے
کارویہ دوبارہ سخت ہوگیاہے۔بظاہرایسالگتاہے کہ برطانوی پارلیمان کسی بھی
سمجھوتے پرپہنچنے کی صلاحیت سے محروم ہوگئی ہے۔
سافٹ بریگزٹ کے حامی یہ تجویز پیش کر رہے ہیں کہ ملک یورپی کسٹمز یونین کا
حصہ رہے اور شمالی آئرلینڈ سرحد پر کنٹرول برقرار رکھے۔ ایک تجویز یہ بھی
گردش کر رہی ہے کہ اگر تھریسامے شمالی آئرلینڈ کے بیک اسٹاپ پلان کے خاتمے
کی تاریخ دے دیں تب بھی ان کی بریگزٹ ڈیل منظورکی جاسکتی ہے۔اس
تجویزپراتفاق گیند کوایک بارپھریورپی یونین کے کورٹ میں پھینک دے
گااوربرطانیہ میں پیدا ہونے والا سیاسی بحران ٹل جائے گا۔اس اتفاق رائے
کیلئے ضروری ہے کہ اراکینِ پارلیمان کی اکثریت سمجھوتے پررضامندی ظاہرکرے
لیکن اب تک یہ محسوس ہوتا ہے کہ اراکین پارلیمانی ساتھی اراکین کوکوئی
رعایت دینے کوتیارنہیں۔
برطانوی پارلیمان میں سمجھوتے پر تیار نظر آتے اراکین کی رائے کو دونوں
طرف کے سخت گیر ممبران ایک نتیجے پرپہنچنے نہیں دے رہے۔اراکین کی ایک بڑی
تعداد’’نو ڈیل‘‘کوہی واحد حل قرار دے رہی ہے۔ ایک اور بڑا گروپ کسی بھی ڈیل
کی مخالفت پر تیار ہے اور مزے کی بات یہ کہ دونوں گروپ خود کو حق بجانب
قرار دیتے ہیں۔ تھریسامے بریگزٹ کی تاریخ کو آگے نہیں بڑھاتیں اور ڈیل پر
اتفاق بھی نہیں ہوتا تو اس صورت میں 29 مارچ سے برطانیہ اور یورپی یونین کی
راہیں جدا ہوجائیں گی۔ برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان تجارت ورلڈ ٹریڈ
آرگنائزیشن کے اصولوں کے تحت ہوگی۔ برطانوی سیاسی اور معاشی فیصلوں میں
یورپی یونین کے پابند نہیں رہیں گے۔
برطانوی وزیرِخزانہ فلپ ہیمنڈ کاکہناہے کہ بغیرمعاہدے کے یورپی یونین
کوچھوڑنے کی صورت میں برطانیہ کواگلے15برسوں میں 150/ارب پاؤنڈ کاخسارہ
ہوگا۔ قلیل مدتی اثرات اس سے بھی بھیانک ہوسکتے ہیں۔ حکومت نے غذائی قلت سے
بچنے کے اقدامات ابھی سے شروع کردیے ہیں ۔ ’’نو ڈیل‘‘کی صورت میں ممکن ہے
کہ حکومت کوعوام سے اپیل کرناپڑے کہ وہ اپنی غذائی عادات تبدیل کریں تاکہ
خوراک کی قلت سے بچا جا سکے۔ ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں کوامن و امان کامسئلہ
پیداہونے کی صورت میں اسٹینڈ بائی کردیاگیاہے۔بریگزٹ کواب بھی روکنے کی
امید رکھنےوالے اس انتظار میں ہیں کہ تھریسامے کی بریگزٹ ڈیل پر سمجھوتے کی
تمام کوششیں ناکام ہوجائیں اس کے بعد وہ بریگزٹ پر دوسرے ریفرنڈم کی کوشش
کریں گے۔ یہ حکمتِ عملی رکھنے والوں کیلئےلیبر پارٹی کی حمایت کاحصول ضروری
ہے، تاہم اب تک لیبر پارٹی کے رہنما جیریمی کوربن کا کردار بھی تباہ کن رہا
ہے۔
وزیرِاعظم تھریسا مے عدم اعتماد کی ایک تحریک سے بچ نکلی ہیں لیکن کوربن ان
کے خلاف ایک کے بعد ایک تحریک لانے کے موڈ میں ہیں،جب تک کہ تھریسامے حکومت
کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ اسی لیے کوربن حکومت کے ساتھ بات چیت سے مسلسل
انکارکررہے ہیں۔کوربن اپنی جماعت میں موجود دوسرے ریفرنڈم کے حامیوں کی
رائے پر بھی کان نہیں دھر رہے اوروہ حکومت گرا کر ہر صورت خود آگے آنا
چاہتے ہیں۔ دوسرا ریفرنڈم بھی سیاسی قیادت کیلئےتباہی کا راستہ ہے۔ یہ
راستہ مزید تقسیم اور نفرتوں کا باعث بن سکتا ہے۔اس تقسیم اور نفرت کا ایک
مظاہرہ بریگزٹ ڈیل پر ووٹنگ کے روز برطانوی پارلیمان کے باہر کھڑے 2گروپوں
کے نعروں کی گونج میں صاف نظر آیا جو ایک دوسرے کو نسل پرست اور غدار کے
القابات سے نواز رہے تھے۔ بریگزٹ کو ناکام بنانے کے کئی سازشی نظریات ابھی
سے سامنے آچکے ہیں۔ سابق وزیرِ خارجہ بورس جانسن ایک بیان میں کہہ چکے ہیں
کہ اگر بریگزٹ کو ناکام بنایا گیا تو عوام یہ محسوس کریں گے ملک پر اصل
حکمران اسٹیبلشمنٹ نے سازش کی ہے۔
یورپی یونین نے بھی برطانیہ کے بغیر معمولات چلانے کا ذہن بنالیا ہے۔ یورپی
کمیشن کے سربراہ جین کلاڈ ینکر بار بار کہہ چکے ہیں کہ وہ بریگزٹ پر بات
کیلئےیومیہ 5 منٹ سے زیادہ وقت نہیں دے سکتے۔یہ ایک واضح پیغام ہے کہ اگر
برطانوی الگ ہو رہے ہیں تب بھی یورپی یونین کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ برسلز
میں اس وقت ایجنڈا برطانیہ کی علیحدگی سے ہونے والا نقصان نہیں بلکہ یورپی
یونین کے مستقبل کے منصوبے ہیں۔ یورپی یونین کے باقی 27 ملکوں میں اب یہ
سوچ پائی جاتی ہے کہ وزیرِاعظم تھریسامے 2 سال کے دوران لندن میں دیگر
فریقین پر یہ واضح کرنے میں ناکام رہی ہیں کہ یورپی یونین سے الگ ہونے کے
بعدملک کامستقبل کیسا ہوگا۔ان حالات میں یورپی یونین کو چاہیے کہ وہ
برطانیہ کو الگ ہونے دے تاکہ وہ یونین سے باہر رہ کر اس سوال کا جواب
اطمینان سے تلاش کرسکیں۔ اس سوچ کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین
کو برطانیہ کے بارے میں فکرمند ہونے کے بجائے فرانس، اٹلی، آسٹریا اور
دیگر ملکوں میں ابھرتے ہوئے دائیں بازو پر توجہ دینی چاہیے۔
یورپی یونین کے ارکان میں یہ سوچ بھی موجود ہے کہ اگر برطانیہ بریگزٹ کی
تاریخ کو 29 مارچ سے چند ہفتوں کیلئےآگے بڑھانا چاہتا ہے تب بھی کوئی
مسئلہ نہیں۔ اگر برطانیہ یورپی یونین کی کسٹمز یونین میں رہتا ہے تب بھی
اچھا ہے اور ناروے کی طرح سنگل مارکیٹ کا حصہ رہنا چاہتا ہے تب بھی مسئلہ
نہیں، لیکن اب بریگزٹ پر بحث کرکے توانائیاں ضائع نہ کی جائیں بلکہ مستقبل
پر دھیان دیا جائے۔ نو ڈیل کی صورت میں بھی یورپی یونین کو بڑے خسارے کا
خدشہ نہیں۔ بڑی کاروباری کمپنیاں نو ڈیل کی صورت میں متبادل منصوبے تشکیل
دے چکی ہیں۔
صدر ٹرمپ کا یورپی یونین اور نیٹو کے بارے میں رویہ بھی یورپی ملکوں میں
تشویش کا باعث ہے اور ایک خیال یہ پایا جاتا ہے کہ امریکا برطانیہ کے ذریعے
یورپی یونین کو بلیک میل کرتا ہے۔ برطانیہ کی علیحدگی کی صورت میں یونین اس
بلیک میلنگ سے بھی نجات پا لے گی۔ یورپی یونین میں برطانیہ سے نجات کی سوچ
رکھنے والے بھی بریگزٹ کے حامیوں سے زیادہ مختلف نہیں۔ یورپی یونین
پربرطانیہ کی علیحدگی کے مثبت اورمنفی دونوں طرح کے معاشی اثرات ضرور پڑیں
گے۔ یورپی کمیشن کے اپنے اعدادوشماراوردیگرتجزیہ کاروں کے مطابق 2019ء میں
برطانیہ کی علیحدگی کے بعد یورپی بلاک کی برآمدات اور شرح نمو بڑھے گی
لیکن بیروزگاری اور غربت میں بھی اضافے کی پیشگوئی ہے۔برطانیہ جرمنی کے بعد
یورپی بلاک کی دوسری بڑی معیشت ہے۔برطانیہ کی علیحدگی سے یورپی یونین کی جی
ڈی پی پربھی اثرپڑے گاجبکہ برطانیہ کی علیحدگی سے یورپی یونین کی آبادی 13
فیصد کم ہوجائے گی۔ایک اورمسئلہ یہ ہے کہ برطانیہ کی علیحدگی سے یورپی بلاک
کی جی ڈی پی امریکا سے نیچے آجائے گی کیونکہ اس وقت 28 رکنی یورپی بلاک کی
جی ڈی پی امریکا سے صرف ایک فیصد زیادہ ہے۔
2007ء سے پہلے برطانیہ یورپی یونین کا معاشی انجن تھا لیکن اب ایسا نہیں۔
پچھلے 2سال سے باقی یورپی یونین ملکوں کی معیشت برطانیہ کی نسبت زیادہ تیزی
سے ترقی کر رہی ہے۔ یورپی کمیشن کو امید ہے کہ ترقی کی یہ شرح اس سال اور
آئندہ برس بھی جاری رہے گی۔ یورپی یونین کے باقی27ملکوں کی پیداواری
صلاحیت بھی برطانیہ سے زیادہ ہے۔اس سال برطانیہ کی مصنوعات اورسروسز کی
برآمدات 3/اعشاریہ ایک فیصد رہنے کی توقع ہے جبکہ یورپی یونین کی
شرح4/اعشاریہ5فیصد ہونے کی پیشگوئی ہے۔برطانیہ میں صارفین اپنی آمدن کا
زیادہ حصہ گھریلو ضروریات پر خرچ کرتے ہیں جبکہ یورپی یونین کے باقی ملکوں
میں بچتوں کی شرح بلند ہے۔
برطانیہ کے سرکاری قرضے2001ء میں جی ڈی پی کا35 فیصد تھے جبکہ باقی ملکوں
کا قرض جی ڈی پی کے 60فیصد کے برابرتھالیکن معاشی بحران کے بعدبرطانیہ کے
قرضے بھی تیزی سے بڑھے اوراب یورپی بلاک کے ساتھ اس کافرق زیادہ نہیں رہا۔
بیروزگاری کی شرح کے اعتبار سے برطانیہ کا ریکارڈ باقی یورپی بلاک سے بہتر
رہا ہے۔ اس سال برطانیہ میں بیروزگاری کی شرح 4/اعشاریہ7فیصد کے آس پاس
رہنے کی توقع ہےجویورپی بلاک کی7/اعشاریہ7 فیصد سے بہت نیچے ہے لیکن یورپی
بلاک کی لیبرمارکیٹ میں بہتری کی پیشگوئی ہے جبکہ برطانیہ کی لیبر مارکیٹ
مستحکم رہے گی۔
|