ایک پلاٹ کے احیا کے معاملے سے متعلق کیس میں نیب
نے میرے خلاف ریفرنس دائر کیا۔ میں نے نہیں بلکہ چیئرمین نے وہ پلاٹ ریسٹور
کیا۔میں نے پلاٹ ریسٹوریشن کی تجویز دی تھی کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ یہ سی
ڈی اے ریسٹوریشن پالیسی کے مطابق تھا۔میں سی ڈی اے کا ممبر اسٹیٹ 2006سے
2010ء تک رہا،چھ سال سے زائد عرصے میں میرے خلاف کوئی مقدمہ نہ ہوا، 2017ء
سے نیب نے میری زندگی اجیرن کردی۔
نومبر 2017میں میرا وزارت داخلہ کی جانب سے نام تین ماہ کے لیے ای سی ایل
ڈالا گیا،یہ ایک ایسی ایف آئی آر کے تحت کیا گیا جس میں میں نامزد ہی نہ
تھا۔میں نے وزارت داخلہ کے سیکرٹری کو ایک مراسلے میں اس پر نظرثانی اپیل
بھی کی،مگر کوئی جواب نہ ملا۔ایک سال سے زائد عرصہ ہوگیا میرا نام اب تک ای
سی ایل میں شامل ہے۔
گزشتہ ایک سال میں نیب نے میرے خلاف تین تفتیش اور دو انکوائریاں
کھولیں،تین میں بحیثیت بورڈ ممبر،دو میں بحیثیت ممبر اسٹیٹ۔میری آپ سے
درخواست ہے کہ مہربانی فرما کر ان کیس سے متعلق میرے بیان پڑھ لیں جوکہ اس
خط کے ساتھ موجود ہیں۔اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں بد عنوانی میں ملوث تھا تو
اب یہ مقدمہ بند ہوگیا۔ اور اگر نیب غلط قرار پائے تو میں چاہتا ہوں کہ آپ
ان الزامات سے میرا نام ہٹا دیجیے۔
میرے کیس میں سوائے ایک کے باقی تمام نیب تفتیشی حکام انتہائی نااہل،سخت رو،
مغرور،غیرتربیت یافتہ تھے جنہیں اس ادارے کے بارے میں بہت کم معلوم تھا جس
کی وہ تفتیش کررہے تھے۔ان تفتیشی حکام نے مجھے سنے بغیر ہی یہ سمجھ لیا تھا
کہ میں بدعنوانی میں ملوث ہوں۔ میرے خلاف تمام مقدمات کی بنیاد آڈٹ پیراز
ہیں۔میں نے جون کو نیب کے سامنے اپنی مالی تفصیلات پیش کردیئے ہیں۔میں بے
عزتی، ہتھکڑیوں میں گرفتاری اور میڈیا کے سامنے پریڈ کرائے جانے سے بچنے کے
لیے خودکشی کررہا ہوں۔
جناب چیف جسٹس میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ نیب حکام کے روئیے کا نوٹس لیں
تاکہ تاکہ میری طرح دیگر سرکاری ملازمین کو ان جرائم کی سزا نہ ملے جو
انہوں نے کبھی کیے ہی نہیں۔وہ تفتیشی افسر جو میرے ماتحت کام کرتے تھے
جانتے تھے کہ جرم یا خلاف ضابطہ ہونے اور کسی چیز کو جان بوجھ کر نظر انداز
کرنے یا اتفاقی نظر انداز کرنے میں فرق ہوتا ہے۔جناب محترم چیف جسٹس صاحب
میں اپنی جان اس امید پر دے رہا ہوں کہ آپ نظام میں موثر تبدیلی لائیں
گے،ایسا نظام جہاں نا اہل افراد احتساب کے نام پر معزز شہریوں کے عزت و
آبرو سے کھیل رہے ہیں۔
یہ وہ خط ہے بریگیڈیئرراسدمنیرنے خودکشی کرنے سے قبل 15مارچ کوچیف جسٹس آف
پاکستان کے نام لکھا یہ خط ہی نہیں ہے بلکہ نیب کے خلاف ایک ایف آئی آرہے
یہ خط نیب کی چیرہ دستیوں کونہ صرف آشکارکررہاہے بلکہ نیب کی شفافیت ،تحقیقات
غیرجانب داری پربھی سوالات اٹھارہا ہے اسدمنیرکے الفاظ معلوم نہیں کسی
کوجھنجوڑپائیں گے یانہیں مگراس معاشرے میں جینے والے ہرحساس آدمی کے دل کو
ضرورزخمی کررہے ہیں کہ کس طرح ایک مضبوط آدمی کونیب نے چندمہینوں میں
توڑدیا اورمضبوط اعصاب کامالک یہ فیصلہ کرنے پرمجبورہوا؟
اسدمنیر نے 1971میں فوج میں کمیشن لیا تھا۔ 1998میں ملٹری انٹیلی جنس میں
آیا اور سال 2002میں وہ خیبر پختونخوامیں آئی ایس آئی کا کمانڈر تھا۔ اسے
اس کی خدمات کے عوض 2003میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا تھا۔اس کی دوبیٹیاں
تھیں۔اسدمنیراپنی دوبیٹیوں کی شادی کرکے فرائض سے سبکدوش ہوچکے تھے ،آزادانہ
زندگی گزاررہے تھے ۔
اسدمنیرمختلف چینلز پردفاعی تجزیہ نگارکے طورپراکثرنظرآتے تھے ،فوج اورآئی
ایس آئی میں ان پرکرپشن کاکوئی الزام نہیں لگا سی ڈی اے کاریکارڈ چیک
کیاجائے تویہاں بھی انہوں نے صاف وشفاف زندگی گزاری ،جس پلاٹ کی کہانی ہے
اس کی کل مالیت ایک سے ڈیڑھ کروڑروپے ہے ،آج کل نیب نے کرپشن کے خلاف
جہادکاعلم بلندکیا ہواہے اورکرپشن کے نام پرکئی شریف النفس شہریوں کواپنے
نشانے پررکھاہواہے ،نیب نے جب چاہاجسے چاہانوٹس بھیج دیاکوئی اسے
پوچھناوالانہیں کسی کی پگڑی اچھال دی جسے چاہاگرفتارکردیاجسے چاہاقبرکی
پاتال میں پہنچادے مگرکوئی نہیں جونیب کونوٹس بھیجے ۔نیب کے نوٹسسزاوراس
کارویے نے ایک قابل افسراورایک معتبر پاکستانی کی جان لے لی ۔ہے کوئی
پوچھنے والا۔۔؟اسدمنیرکایہ خط نیب کے خلاف ایف آئی آرہے اس کامقدمہ نیب
پردرج ہوناچاہیے اورنیب نے اب تک جتنے لوگوں کوہراساں کیا اورریفرنس
دائرکیے اوربعدمیں کچھ ثابت نہیں کرسکی ان تمام مقدمات نیب پرقائم
ہوناچاہیں تاکہ اس گھناؤنے کھیل کادروازہ بندہوسکے ۔
تین ماہ قبل سرگودھایونیورسٹی کے سی ای اومیاں جاویدکی نیب ہتھکڑی میں موت
واقع ہوئی مگرپھربھی نیب ٹس سے مس نہیں ہوئی نیب شتربے مہارکی طرح بے
بنیادالزامات پرلوگوں کونوٹس بھیجتا رہااوربھیج رہاہے اورایسے مقدمات
بنارہاہے جونیب عدالتوں میں ثابت نہیں کرپارہاہے ۔جن افراداورشخصیات
پرالزامات عائدکرتاہے ان کامیڈیاٹرائل کیاجاتاہے ان کے خلا ف پروپیگنڈہ
کیاجاتاہے اورآخرمیں پتہ چلتاہے کہ نیب اپنامقدمہ ثابت کرنے میں ناکام
رہااوراخبارمیں سنگل کالم خبرڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ۔
اہم معاملہ کسی انکوائری کے حوالے سے شروع کرایا جانے والا میڈیا ٹرائل ہے۔
میڈیا ٹرائل میں چور ثابت کیاگیا فرد اگر عدالتی عمل میں بری ہو جاتا ہے تو
نیب اور میڈیا کے ہاتھوں تار تار ہوئی عزت کہاں سے واپس لائے گا۔ فائلوں
میں سے نکال کر جو ریفرنس دائر کئے گئے وہ فائلوں میں دب کیوں گئے ؟۔ کیا
چیئر مین نیب نے اس بابو گیری کا نوٹس لیا۔گزشتہ کئی سالوں سے مضاربہ کیس
نیب کی عدالت میں پڑاہواہے اربوں روپے کے میگاسیکنڈل میں نیب تاحال اہم
ترین ملزموں کوگرفتارنہیں کرسکی ہے اورنہ ہی گرفتارملزموں سے کچھ
برآمدکرسکی ہے ۔چندماہ قبل سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی بھارت میں منی
لانڈرگ کی بریکنگ نیوزچلائی گئی اس خبرپرنجی چینلزپرکئی پروگرامات کیے گئے
مگرکھوداپہاڑنکلاچوہاکے مصداق ،یہ بات میڈیاٹرائل تک ہی رہی اورمقصدبھی یہی
تھا ۔
چیئر مین نیب جسٹس(ر)جاوید اقبال کے مطابق گزشتہ سال 400ریفرنس دائر
کئے۔معلوم نہیں کہ ان میں سے کتنے ریفرنس منطقی انجام کوپہنچتے ہیں
مگرمیڈیامیں چارسوریفرنس کے نام سے بڑی خبرضروربن گئی ہے اورشایدمقصدبھی
یہی ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ اپنے قیام سے اب تک نیب کا ادارہ غیر جانبداری
قانون کی پاسداری اور بلا امتیاز احتساب کے دعوے تو کرتا آرہا ہے مگر عمومی
صورتحال یہ ہے کہ ہر دور میں اس کے احتساب کی زد میں حکومت کے مخالفین ہی
آئے۔ خیبر پختونخوا میں نیب نے پچھلے پانچ سال کے دوران کیا کارنامے سر
انجام دئیے؟ اس سوال کا جواب تو شاید نیب کے ذمہ داران کبھی نہ دے پائیں۔
نیب ہمیشہ سیاسی مقاصداورکسی کے آلہ کارکے طورپراستعمال ہواہے ،یہی وجہ ہے
کہ نیب نے عام انتخابات میں آزادانہ طور پر جیتنے والوں پر غیر محسوس انداز
میں تحریک انصاف میں شمولیت کے لئے دباؤ ڈالا۔ الیکشن مہم کے دوران ن لیگ
کے راولپنڈی سے صوبائی امیدوارکوگرفتارکرلیاگیا اوربعدمیں عدالت میں اس کیس
کوثابت نہیں کرسکی ۔
کالم کااختتام کررہاتھا کہ نظروں کے سامنے ایک خبرآگئی جس میں بتایاگیا کہ
ملائشیامیں مقیم پاکستانی ہائی کمیشن کوالالمپورکے قونصلرکے رویئے سے تنگ
آکرخودکشی کرلی ہے ضلع لودھراں کے رہائشی محمدشہبازکے ویزے کی مدت پوری
ہوچکی تھی جوواپس پاکستان آناچاہتاتھا اس نے کئی بارپاکستانی ہائی کمیشن کے
چکرلگائے مگرمسئلہ حل نہ ہوسکا قونصلرمیاں عاطف شریف نے اسے دھمکی دیتے
ہوئے کہاتھا اگراس نے قونصلرخانے کارخ کیاتوپولیس کے حوالے کردے گا جس کے
بعد شہبازگرفتاری کے خوف سے کئی دن تک ایک ہی کمرے میں
بندرہااوربالآخرخودکشی پرمجبورہوگیاہے کوئی جوہمارے ان سرکاری اداروں کے ان
رویوں کے خلاف کاروائی کرے ؟
|