ماشاء اللہ ! پوری قوم 23 مارچ(یوم ِ پاکستان) منا رہی
ہے۔ 23 مارچ 1940، ایک یادگار دن ہے؛ آج ہی کے دن مسلمانانِ برِّ صغیر نے
ایک الگ وطن کے خواب و خواہش کو باقاعدہ ایک زبان دی۔آج ہی کے دن مسلم لیگ
کے سالانہ اجلاس کے موقع پر علامہ اقبال نے وہ تاریخی خطاب کیا جس میں الگ
وطن کے بنیادی خدو خال پیش کیے۔ چوہدری رحمت علی نے قرار دادِ پاکستان پیش
کی ؛ شرکا نے متفقہ طور پر اس کو منظور کیا۔
ویسے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قرار داد کو ’’ قرار دادِ پاکستان‘‘ کا نام
مسلمانوں نے نہیں دیا تھا۔ مسلمانوں کے لیے تو یہ ایک قرارداد تھی ؛ جس کو
انہوں نے قرار دادِ لاہور کا نام دیا تھا۔ لیکن متعصب ہندو پریس نے از خود
اس کو قرار دادِ پاکستان کہنا شروع کردیا ، اور اس طرح اس کا نام قرار دادِ
پاکستان پڑ گیا۔
وہ بھی کیا جذبہ تھا، برصغیر کے کونے کونے سے مسلمان اکٹھے ہوکر لاہور کے
منٹو پارک میں جمع تھے؛کاروباری افرا، دکان دار، نوکر ، مالک ، پڑھے لکھے
اور ان پڑھ، مزودور ، کسان الغرض ہر فرد کے قدم منٹو پارک( موجودہ اقبال
پارک) کی جانب ہی اٹھ رہے تھے۔ جن لوگوں کو انگریزی کا ایک لفظ بھی سمجھ
نہیں آتا تھا وہ بھی قائد اعظم ؒ کا خطاب سننے کے لیے بے چین تھے؛یہ جانتے
ہوئے بھی کہ قائد اعظم اردو میں تقریر نہیں کریں گے، لیکن بس ایک جذبہ دلوں
میں موجزن تھا جو ان کو کشاں کشاں جلسہ گاہ کی طرف لیے جارہا تھا۔
اس جلسے سے 10 برس قبل ، مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الٰہ آباد میں
دو قومی نظریہ کی وضاحت پیش کی تھی ؛ اور دس برس بعد اسی مسلم لیگ کے
سالانہ اجلاس میں ، اب ایک الگ وطن کے خد و خال پیش کیے، یہ بھی ایک اعزاز
کی بات ہے۔دو قومی نظریے کی ہی بنیاد پر ارضِ وطن وجود میں آیا تھا۔ اسی
دو قومی نظریے کے نام پر ہی تو برِّ صغیر کے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانیں
لٹا دی تھیں۔اسی نظریے اور کلمہ ٔ لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر ہی لوگ پر
جوش تھے، اسلام کے نام پر ہی تو لوگوں نے اپنے بھر پُرے گھر چھوڑ کر ایک
نئے وطن کی راہ لی تھی۔ گلی گلی میں نعرہ یہی لگتا تھا ’’ پاکستان کا مطلب
کیا۔ لا الہ الا اللہ‘‘ اور یہ کہ ’’ بٹ کے رہے گا ہندوستان۔ لے کے رہیں گے
پاکستان‘‘
پاکستان قائم ہوا، لوگوں نے خوشیاں منائیں؛لیکن اکھنڈ بھارت حامیوں کو یہ
کیسے گوارا ہوسکتا تھا کہ پاکستان مستحکم رہے، بس سازشیں ان کی تھیں اور
نادانیاں اپنے لوگوں کی تھیں۔ قیامِ پاکستان کے محض20 برس بعد ہی، وہ مشرقی
پاکستان، وہ خطہ ٔ بنگال جہاں مسلم لیگ قائم ہوئی، جس نے تحریک پاکستان میں
ایک فعال کردار ادا کیا؛ اسی خطے کے لوگ اہل اقتدار کی عاقبت نا اندیشی کے
باعث مغربی پاکستان سے متنفر ہوگئے۔ پڑوسی ملک نے اس موقع سے پورا پورا
فائدہ اٹھایا اور جلتی پر تیل چھڑکتا رہا۔ نتیجہ یہ کہ قیامِ پاکستان کے
محض 25 برس بعد ہی ملک دولخت ہوگیا۔مشرقی پاکستان ’’ بنگلہ دیش ‘‘ کے نام
سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔
25 مارچ 1971 کو رات تقریباً 11:30 بجے، مشرقی پاکستان میں جاری شورش اور
ہنگاموں کو فرو کرنے کے لیے ’’ آپریشن سرچ لائٹ ‘‘ کا آٓغاز کیا گیا، اور
اس کے ایک دو گھنٹے بعد( 12 بجے کے بعد تاریخ بدل گئی اور 26 مارچ ہوگئی )
،ایسٹ بنگال رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے میجر ضیا الرحمن( جو بعد ازاں بنگلہ
دیش کے آرمی چیف بنے اور صدر بھی رہے) نے چٹا گانگ سے ریڈیو پیغام کےذریعے
بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کردیا۔اسی لیے 26 مارچ کو بنگلہ دیش کا یومِ
آزادی قرار دیا جاتا ہے۔
لیکن جس وقت ، بنگلہ قوم پرستی کے نشے میں چور قوم پرست عناصر، بھارت کی
آشیر باد پر غیر بنگالیوں کا قتلِ عام کررہے تھے، پاکستانی فوج پر حملہ
آور ہورہے تھے، نہ صرف پاکستانی فوج ، بلکہ ان کے اہل خانہ کو بھی بے دردی
سے قتل کیا جارہا تھا؛ اس وقت مشرقی پاکستان میں ایک طبقہ، ایک جماعت ایسی
بھی تھی جو اس مشکل ترین وقت میں ، کہ جب غیر بنگالی افراد یا تو مشرقی
پاکستان چھوڑ چھوڑ کر جارہے تھے، یا حالات کے باعث دم سادھے بیٹھے تھے کہ
پتا نہیں کب کیا سانحہ ہوجائے؛ اس کڑے وقت میں جماعت ِ اسلامی سے تعلق
رکھنے محبِ وطن عناصر، یحیٰ خان کے مخالف ہونے کے باوجود ملک کی بقا اور
سلامتی کے لیے پاک فوج کے ساتھ کھڑے تھے۔ ان کے شانہ بشانہ ، قدم سے قدم
ملائے ان کا ساتھ دے رہے تھے ۔ جب کہ انہیں اچھی طرح پتا تھا کہ اس وقت
پاکستانی فوج کی حمایت کا مطلب سوائے اذیت ناک موت کے اور کچھ نہیں! لیکن
عزم و ہمت کے یہ مینار پیچھے نہیں ہٹے، ان کے قدم کسی جگہ نہیں
ڈگمگائے؛یہاں تک کہ 16 دسمبر کا وہ دن بھی آن پہنچا جب مشرقی پاکستان کے
بطن سے بنگلہ دیش کا ظہور ہوا۔
فوج کے ہتھیار ڈالنے کے بعد فوجی تو جنگی قیدی بنا لیے گئے اور !
اور پھر یہ ہوا کہ قوم پرستوں اور مکتی باہنی کے دہشت گردوں کے لیے غیر
بنگالیوں کا خون حلال ہوگیا، بنگلہ قوم پرستوں کے لیے کسی کی جان لینے کے
لیے بھی یہی جواز کافی تھا کہ اس فرد یا خاندان نے نام نہاد’’ آزادی‘‘ کی
جنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔( مخالفت تو دور کی بات ہے) جو غیربنگالی تھے ،
ریڈ کراس کی مداخلت پر غیر بنگالیوں کو تو بہر حال کیمپوں تک محدود کردیا
گیا، لیکن وہ جو محب ِ وطن بنگالی تھے، جن کو البدر اور الشمس کہا جاتا ہے؛
ان کے لیے باقاعدہ طور پر موت کے اعلانات نشر ہوئے، ان کے لیے کہا گیا کہ
ان کو دیکھتے ہی قتل کردیا جائے۔ جماعت ِ اسلامی کی الشمس تھی یا اسلامی
جمعیت طلبہ کی البدر، دونو ں کو چن چن کر مارا گیا۔
خدا خدا کرکے یہ آزادی کا نشہ کچھ کم ہوا، جب حالات کچھ معمول پر آئے تو
ان لوگوں کو بھی سکھ کا سانس لینا نصیب ہوا، ان لوگوں نے اس کے بعد قانونی
جنگیں لڑ کر وہاں اپنا وجود ثابت کیا،انتخابی عمل میں حصہ بھی لینا شروع
کیا۔لیکن 2013 میں ’’ بنگلہ باندھو‘‘ شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد
ایک بار ملک کی سربراہ بنتی ہے، اور اس کے بعد، ایک بار پھر پاکستان سے
محبت کرنے والوں کی آزمائش کا ایک نیا دور شروع ہوا، مطیع الرحمن نظامی،
پروفیسر غلام اعظم، عبدالقادر مُلّا اور جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے
مرکزی قائدین پر ’’ آزادی کی جنگ کی مخالفت‘‘ اور پاکستان کی حمایت کے
الزامات لگا کر ایک بار پھر گرفتار کرلیا گیا۔
کئی لوگوں کو پھانسی کی سزا سنا کر انہیں تختۂ دار پر لٹکایا گیا، بے شمار
ایسے ہیں جن کو گرفتاری کے بعد شدید تشدد کا نشانہ بنا کر ہمیشہ کے لیے
معذور کردیا گیا۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ کم و بیش 600 افراد ایسے ہیں جن کی
ریڑھ کی ہڈی کو توڑ کر انہیں معذور کردیا گیا ہے، ہزاروں کو گرفتار
کرلیاگیاہے۔جماعتِ اسلامی پر پابندی لگا دی گئی ہے، جماعت اسلامی کو غیر
قانونی جماعت قرار دیدیا گیا ہے،جماعت ِ اسلامی سے تعلق رکھنا جرم قرار
پایا ہے۔ جماعت ِ اسلامی کا جرم کیا تھا؟
یہی نا کہ اس نے ارضِ وطن پاکستان کو دو لخت ہونے سے بچانے کے لیے اپنی
پوری توانائیاں صرف کردیں، جس وقت پاکستان کا نام لینا جرم تھا، اس وقت
پاکستان کا پرچم تھامے رکھا، جب پاکستانی فوج کا ساتھ دینے کا مطلب صر ف
اور صرف موت تھا، اس وقت پاکستانی فوج کا ساتھ دیا۔ آج سقوطِ ڈھاکہ کے 48
برس بعد بھی یہ لوگ پاکستان سے محبت کے جرم کی سزا بھگت رہے ہیں۔آج 23
مارچ مناتے وقت ان لوگوں کو اپنی دعائوں میں یاد رکھیے گا؛ جنہیں26 مارچ
1971 سے پاکستان سےمحبت کے جرم کی سزا دی جارہی ہے۔ ہم ان کے لیے اور کچھ
نہیں کرسکتے تو کم از کم اپنی دعائوں میں انہیں ضرور یاد رکھیے۔
؎
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سر وں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
|