تحریر: معاذ عتیق راز
بعض لمحے بہت فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج واثرات سے تاریخ کا رخ
موڑدیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک لمحہ مسلمانان برصغیر کی زندگی میں 23 مارچ 1940ء
کو آیا۔ برطانوی راج کی طرف سے اقتدار عوام کو سونپنے کے لیے 1936-37ء میں
انتخابات ہوئے جن میں مسلم لیگ کو بری طرح سے ہزیمت اٹھانی پڑی اور اس کو
شدید زک پہنچی۔اس وجہ سے مسلم لیگ کی قیادت اور کارکنوں کے حوصلے ٹوٹ گئے.
ان پر ایک عجب بے بسی کا عالم تھا۔کانگریس کو مدراس، یو پی، سی پی، بہار
اور اڑیسہ کے ساتھ ساتھ مسلم اکثریتی علاقوں سندھ و آسام میں بھی واضح
اکثریت حاصل ہوئی تھی۔ سرحد اور بمبئی میں اس نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل
کر مخلوط حکومت تشکیل دی۔
پنجاب میں البتہ سر فضل حسین کی پارٹی اور بنگال میں مولوی فضل الحق کی
پارٹی کو جیت ہوئی تھی۔ غرض ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں سے کسی ایک صوبہ
میں بھی مسلم لیگ کو اقتدار حاصل نہ ہو سکا۔ ان حالات میں مسلم لیگ کو ایسا
محسوس ہوتا تھا کہ وہ برصغیر کے سیاسی دھارے سے الگ ہوتی جارہی ہے۔ اس
دوران کانگریس نے ایسے اقدامات کیے جن سے مسلمانوں کے دلوں میں خدشات و
خطرات نے جنم لینا شروع کردیا۔ اس صورت میں مسلم لیگ کی اقتدار سے محرومی
کے ساتھ اس کی قیادت میں یہ احساس پیدا ہورہا تھا کہ مسلم لیگ اقتدار سے اس
بنا پر محروم کر دی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت
کہلاتی ہے۔ مسلم لیگ کی قیادت میں دو جدا قوموں کے احساس کی بیداری کا یہی
نقطہ آغاز تھا۔
23 مارچ 1940ء کو بادشاہی مسجد لاہورکے قریب ایک وسیع و عریض میدان منٹو
پارک میں ہندوستان کے کونے کونے سے لاکھوں مسلمان اکھٹے ہوئے۔ قائد اعظم
محمد علی جناح کی زیر صدارت بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار
داد پیش کی۔ جس کو قراردادِ لاہور کہا جاتا ہے۔ اس قرارداد کا مسودہ سر
سکندر حیات خان نے تیار کیا اور اس کی تائید یو پی سے مسلم لیگی رہنما
چودھری خلیق الزمان پنجاب سے مولانا ظفر علی خان سرحد سے سرداراورنگزیب
سندھ سے سرعبداﷲ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسیٰ نے کی۔اس قرار داد کی
روشنی میں قائد اعظم محمد علی جناح نے خدا داد قابلیت، سیاسی فہم و فراست
سے ہندوستان کے مسلمانوں کے اندر ایک نیا ولولہ اور جوش پیدا کیا۔ بدلتے
حالات نے مسلم لیگ کی پالیسیوں کو بھی متاثر کیا اور کچھ عرصہ بعد قراردادِ
لاہور کا نام قراردادِ پاکستان رکھ دیا گیا۔
اپریل 1941ء میں مدراس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہور کو جماعت
کے آئین میں شامل کر لیا گیا اور اسی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع
ہوئی۔دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد
ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور دوسری
جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کے لئے انتخابات کروائے۔ مسلم لیگ کو
تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر
سامنے آئی۔
بانی پاکستان محمد علی جناح نے قیامِ پاکستان سے پہلے اور اس کے بعد بھی
متعدد مواقع پراس کے مقاصد کو نہایت واضح اور غیر مبہم الفاظ میں بیان کیا
ہے۔23 مارچ 1940ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے خطاب کے دوران فرمایا:
اپنی تنظیم اس طور پر کیجئے کہ کسی پر بھروسہ کرنے کی ضرورت نہ رہے یہی آپ
کا واحد اور بہترین تحفظ ہے۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کسی کے خلاف
بدخواہی یا عناد رکھیں۔ اپنے حقوق اور مفاد کے تحفظ کے لیے وہ طاقت پیدا کر
لیجئے کہ آپ اپنی مدافعت کرسکیں۔
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے کہا اسلام انصاف،
مساوات، معقولیت اور رواداری کا حامل ہے بلکہ جو غیر مسلم ہماری حفاظت میں
آ جائیں، ان کے ساتھ فیاضی کو بھی روا رکھتا ہے۔ یہ لوگ ہمارے بھائی ہیں
اور اِس ریاست میں وہ شہریوں کی طرح رہیں گے۔ آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس
فیڈریشن کے اجلاس میں فرمایا :’’مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا
طرز حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا
ہوں۔ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے 13سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ
بیان کر دیا تھا۔الحمد ﷲ، قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور
قیامت تک موجود رہے گا‘‘۔
اسلامیہ کالج پشاور کے جلسہ میں حصولِ پاکستان کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا
ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا
بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں
کو آزما سکیں۔
قارئین کرام! آج نئی نسل کو بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ قرار داد
پاکستان کے وہ کون سے مقاصد تھے جن کے تحت مسلمانانِ برصغیر نے اپنے علیحدہ
تشخص کی آواز اٹھائی اور جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ہندوستان میں مسلمان آٹھ
سو سال حکمران رہے لیکن نہ تو انہوں نے ہندووں کو زبردستی مسلمان بنایا اور
نہ ہی ان کے مذہبی معاملات میں مداخلت کی لیکن ان 10 صدیوں کے دوران میں،
ہندوؤں کو جب بھی موقع ملا، انہوں نے مسلمانوں کو زک پہنچانے کی کوشش کی۔
1847ء میں شروع کی گئی ہندی تحریک ہو یا 1875ء میں انگریزوں کے زیر سایہ
پروان چڑھنے والی آریہ سماج تحریک1882ء میں شروع ہونے والی گؤ رکھشا تحریک
ہو یا 1920ء میں شروع کی گئی شدھی تحریک ہر جگہ مسلمانوں کو ہی نقصان
پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ آج کے نوجوان جدوجہد اور قربانیوں کی اس داستان کا
حصہ تو نہیں رہے لیکن وہ ملک کو حقیقی معنوں میں قائد کا پاکستان بنا کر
اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔آج بعض طبقے قیام پاکستان کے مقاصد اور دو قومی
نظریے کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں قرارداد پاکستان کی روح کو
دوبارہ زندہ کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ تا کہ کھوئی ہوئی منزل
تلاش کر سکیں اور پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکیں۔ |