پاکستانی اور صرف پاکستانی

اسلامی جموریہ پاکستان دنیا کے نقشہ پر نمودار ہونے سے پہلے اقلیتیں بلخصوص مسلمانوں کی زندگیاں کسی عذاب سے کم نہ تھیں۔

کانگریس جو اس وقت پہلی بار اقتدار میں آئی تھی۔کانگرس اقتدار کے نشے میں کچھ زیادہ ہی سرشار تھی، کانگریس نے کچھ ایسے اقدامات کیے جن سے مسلمانوں کے دلوں میں خدشات اور خطرات نے جنم لینا شروع کر دیا۔ مثلاً کانگریس نے ہندی کو قومی زبان قرار دے دیا، گائے کی قربانی تو دور گاؤ کشی پر پابندی عائد کردی اور کانگریس کے ترنگے کو قومی پرچم کی حیثیت دی۔جس سے مسلم لیگ کی اقتدار سے محرومی کے ساتھ اس کی قیادت میں یہ احساس پیدا ہو رہا تھا کہ مسلم لیگ اقتدار سے اس بنا پر محروم کر دی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کہلاتی ہے۔ یہی نقطہ آغاز تھا مسلم لیگ کی قیادت میں دو جدا قوموں کے احساس کی بیداری کا 23 مارچ 1940 کو قائد اعظم محمد علی جناح کی زیر صدارت مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس لاہور منٹو پارک میں منعقد ہوا۔اس اجلاس میں ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن کی قرار داد لاہور منظور ہوئی جوقرارداد پاکستان کے نام سے مقبول ہوئی۔ یہ مسلمانان پاک وہند کا دو قومی نظریے پریقین کاتاریخی اظہار تھا۔ قرارداد پاکستان شیر بنگال مولوی فضل حق نے پیش کی تھی۔قراردادمیں کہا گیا تھا کہ ہندوستان کے وہ علاقے جہاں مسلم اکثریت میں ہیں اور جو جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ان کی حد بندی اس طرح کی جائے کہ وہ خود مختارآزادمسلم ریاستوں کی شکل اختیار کرلیں اس قرارداد کا اردو ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے پیش کیا۔ اس کی تائید میں خان اورنگ زیب خان، حاجی عبداﷲ ہارون، بیگم مولانا محمد علی جوہر، آئی آئی چندریگر، مولانا عبدالحامد بدایونی اور دوسرے مسلم اکابر نے تقاریر کیں۔ بیگم محمد علی جوہر نے تقریر میں قرارداد کوپہلی بارقرارداد پاکستان کہا۔یہ قرارداد پاکستان کی نظریاتی بنیاد بن گئی اورصرف سات برس کے عرصہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کرہ ارض پرحقیقت بن کرسامنے آگیا-

قائد اعظم محمد علی جناح نے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا جس میں انہوں نے پہلی بار کہا کہ ہندوستان میں مسئلہ فرقہ ورارنہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی ہے یعنی یہ دو قوموں کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق اتنا بڑا اور واضح ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھر پور ہو گا۔قائداعظم محمد علی جناح ؒنے کہا کہ اس صورت میں ایک ہی راہ ہے کہ ان کی الگ الگ مملکتیں ہوں۔دوسرے دن انہی خطوط پر 23 مارچ کو اس زمانہ کے بنگال کے وزیر اعلی مولوی فضل الحق نے قرارداد لاہور پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ اس وقت تک کوئی آئینی منصوبہ نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جدا گانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کر کے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت اعلی حاصل ہو۔

مولانا ظفر علی خان اور قائد اعظم محمد علی جناح مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی رہنما چودھری خلیق الزماں، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگ زیب سندھ سے سر عبداﷲ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسی نے کی۔ قرارداد 23 مارچ کو اختتامی اجلاس میں منظور کی گئی۔

آزادی 1947 سے لیکر ہر سال 23 مارچ کو یوم پاکستان منایا جاتا ہے۔ قرارداد پاکستان کے دن یہ عہد کیا جاتا ہے کہ ملک پاکستان کی سلامتی اور بقاء کے لئے ہر ممکن کوشش کی جائے گئی تمام وسائل کو استعمال کیا جائے گا تاکہ اسلامی جموریہ پاکستان پر کوئی آنچ نہ آنے پائے۔یہ بات بڑی حیران کن ہے کہ بعض تاریخ دان قرار داد پاکستان جو مارچ 21،سے لیکر 23 مارچ1940 تک تین روزہ تھی اس کو 22مارچ 1940 سے لیکر تین روزہ 24 مارچ 1940 لکھ رہے ہیں ۔ حالانکہ قرادداد لاہو 21 مارچ سے شروع ہو کر 23 مارچ 1940 رات 2 بجے اختتام پزیر ہوئی۔ یا کچھ لکھتے ہیں 24 مارچ 1940 دن گیارہ بجے تک ۔ قصہ مختصر ۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح سے1948 مارچ میں قرارداد لاہور کی سالگرہ منانے کے لے تاریخ کا پوچھا گیا تو بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے 23 مارچ کی تاریخ مقرر کی ۔ اور 1948 سے لیکرآج تک قرارداد لاہور کو قرارداد پاکستان 23 مارچ کو نئے جوش جزبہ ولولے اور حُب الوطنی کے تحت منایا جاتا ہے۔

آج ہم 2019 کے مارچ کی 23 تاریخ کو یوم پاکستان منا رہے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جو جوش جذبہ 1940 میں ایک آزاد خودمختار ملک کے لئے تھا اور اﷲ پاک نے سات سال کے قلیل ترین عرصہ میں 1947 میں اسلامی جموریہ پاکستان کی صورت میں نعمت سے سرفراز کیا۔ آج2019 میں وہ ہی جزبہ لگن جوش سے یہ عہد کرنا ہوگا کہ اﷲ پاک کی اس عظیم نعمت اسلامی جموریہ پاکستان کی حفاظت کے لیے ہر قسم کی قربانی دینگے ۔آج 2019 میں ملک کی حفاظت کے لیے عہد کرنا ہوگا کہ ہم ایک قوم ’’ پاکستانی ‘‘ بننے کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کریں گئے تاکہ ہماری پہچان سندھی ، پٹھان ،بلوچی یا پنجابی نہ ہو بلکہ صرف اور صرف پاکستانی ہو ۔
 

Dr Tasawar Hussain Mirza
About the Author: Dr Tasawar Hussain Mirza Read More Articles by Dr Tasawar Hussain Mirza: 301 Articles with 347277 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.