سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کا فیصلہ۔۔۔۔بھارت کے عدالتی نظام پر سوالیہ نشان

بھارت کی خصوصی نیشنل انویسٹی گیشن عدالت نے سمجھوتہ ایکسپریس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی ملزم سوامی آسیم آنند سمیت چار ملزمان کو مبینہ عدم ثبوت کی بنا پربری کر دیا ہے۔ سمجھوتہ ایکسپریس کا سانحہ 18 فروری2007کا دل دہلادینے والا المیہ تھا جس کے متاثرہ خاندانوں کو اپنے پیاروں کی سوختہ لاشوں کے علاوہ بھارتی عدالت سے انصاف بھی نہیں ملا۔ خصوصی عدالت نے جو محفوظ فیصلہ سنایا اس کی بازگشت ہمیشہ بھارتی تاریخ میں متنازعہ حیثیت کے ساتھ سنائی دیتی رہے گی علاوہ ازیں سمجھوتہ ایکسپریس سے متعلق عدالتی فیصلہ اس امر کی علامت بھی ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کے سیکولر بھارت میں ادارہ جاتی بحران نے عدلیہ سے اس کی جرات انصاف بھی چھین لی ہے، یہ فیصلہ آزاد عدلیہ کے نام پر ایک دھبہ ہے۔ سانحہ کے 11 سال بعد ملزمان کی بریت انصاف کے ساتھ مذاق ہے اس فیصلے سے بھارتی عدالتی نظام کی قلعی کھل گئی ہے۔ پاکستان سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس میں عدم پیش رفت کا معاملہ بارہا اٹھاتا رہا ہے اور سینئر بھارتی حکام سے ہارٹ آف ایشیا اجلاس میں بھی اس معاملہ پر بات کی گئی تھی۔ بھارتی عدالت کے یک طرفہ فیصلے کے بعد 42 پاکستانی شہداء کے اہل خاندان کو کیا جواب دیا جائے؟ یہ بھارت کا انتہائی اقدام ہے۔

ایک پاکستانی خاتون راحیلہ جس کے والد اس حادثے میں شہید ہوگئے تھے نے بھارتی عدالت میں اپنی گواہی کی درخواست جمع کرائی تھی جس پر عدالت کو فیصلہ ملتوی کرنا پڑا۔ اگلی سماعت پر پاکستانی خاتون راحیلہ کی درخواست کے جواب میں بھارتی حکام نے یہ اعتراض اٹھایا کہ سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے کے پاکستانی عینی شاہدین کو عدالت میں حاضر ہونے کے لیے پاکستانی ہائی کمیشن کو سمن جاری کیے گئے تھے تاہم مناسب جواب نہیں دیا گیا۔نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے سمجھوتہ ایکسپریس میں ہونے والے دھماکے کے الزام میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سوامی آسیم آنند، سنیل جوشی، لوکیش شرما، سندیپ ڈانگے، رام چندرا کالاسنگرا، رجیندر چوہدری اور کمل چوہان کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔مذکورہ سات ملزموں میں سے دھماکے کے ماسٹر مائنڈ سنیل جوشی کو 2007 میں قتل کردیا گیا تھا جب کہ رام چندرا اور سندیپ ڈانگے تاحال مفرور تھے۔ دیگر چار گرفتار ملزموں میں سے مرکزی ملزم سوامی آسیم آنند پہلے ہی ضمانت پر رہا ہو چکا تھا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان چلنے والی سمجھوتہ ایکسپریس پر 18 فروری 2007پر دھماکا خیز مواد سے حملہ کیا گیا تھا۔ حملے میں 68 مسافر مارے گئے تھے جن میں زیادہ تر پاکستانی تھے۔ دہشتگردی کی آگ میں کوئی جلے اس کی شناخت انسانیت کے حوالے سے کی جائے گی، اس سانحہ کے مقتولین زیادہ تر پاکستانی مسافر تھے۔

اِس ٹرین میں ایک بدقسمت خاندان بھی سوار تھا جو کہ فیصل آباد کے علاقے نیومراد کا رہائشی شوکت علی فروری میں میں ایک شادی میں شرکت کے بعد اپنی بیوی رخسانہ اور پانچ بچوں کے ساتھ سمجھوتہ ایکسپریس پر پاکستان واپس آرہے تھے کہ پانی پت کے علاقہ دیوانہ کے قریب ریل گاڑی میں دھماکے ہوئے، پھر آگ بھڑک اٹھی جس میں شوکت علی کے پانچ بچے درجنوں دوسرے افراد کے ساتھ زندہ جل گئے۔شوکت علی اور ان کی بیوی رخسانہ نے اپنی ایک دودھ پیتی بچی اقصیٰ کے ساتھ سمجھوتہ ایکسپریس سے کود کر جان بچائی۔سمجھوتہ ایکسپریس کا المیہ بھارتی انتظامیہ کی مصلحت پسندی، پولیس کی شرمناک کوتاہی،استغاثہ کی چالبازی،گواہوں پر دباؤ، ماسٹر مائنڈ سنیل جوشی کے قتل، عدالتی پروسس کی بلاجواز طوالت اور واقعات و شواہد کے ہیر پھیر کا گورکھ دھندہ ثابت ہوا، سانحہ کے بعد بھارتی میڈیا نے حسب عادت سارا الزام پاکستان پر لگادیا تھا۔

رخسانہ اوران کے شوہررانا شوکت علی نے سوال کیا ہے کہ میرے پانچ بچوں کی موت کا جواب کون دے گا؟ انہیں کس نیمارا تھا؟ رخسانہ نے کہا کہ'عدالت کے اس فیصلے سیہماری بچی ہوئی زندگی بھی چھیننیکا کام کیا ہے۔ عدالت نے ہمیں گواہی دینیکیلئے بلانا بھی ضروری نہیں سمجھا'۔سمجھوتہ ایکسپریس بلاسٹ 2007 کے دوران رخسانہ اورشوکت علی ٹرین میں اپنے 6 بچوں کیساتھ سوار تھے۔ دھماکے میں دونوں شوہربیوی کے علاوہ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی اقصیٰ شہزادی جواب 12 سال کی ہے، بچ گئی تھی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ کہ بلاسٹ میں مارے گئے پاکستانی اہل خانہ کی طرف سے عدالت میں ایک عرضی داخل کی گئی تھی، جس میں ان کی گواہی بھیشامل کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔ حالانکہ این آئی اے کی خصوصی عدالت نے عرضی خارج کردی تھی۔ یہ عرضی پاکستانی شہری راحیلہ وکیل نے دائرکی تھی۔ راحیلہ کا الزام ہے کہ اس معاملے کے 13 پاکستانی گواہوں کو گواہی دینے کے لئے سمن ہی نہیں بھیجا گیا۔ رخسانہ سوال کرتی ہیں کہ ہندو ہوں یا مسلمان، ان پانچ بچوں کوکس نے مارا؟ اس کا جواب توملنا ہی چاہئے۔سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ معاملہ پرفیصلہ آنے کے بعد پاکستان نے اسلام آباد میں ہندوستانی ہائی کمشنراجیبساریا کوطلب کرکیاپنا احتجاج درج کرایا۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے خارجہ سکریٹری نے ہندوستانی ہائی کمشنرکوطلب کیا اور2007 کے سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ معاملہ میں سوامی اسیمانند سمیت تمام چارملزمین کوبری کئے جانے پراحتجاج درج کرایا۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس دہشت گردانہ حملہ کے ملزمان کو گیارہ برس بعد بری کیا جانا انصاف کا ایک ’مذاق‘ ہے۔ قابل ذکرہے کہ سوامی اسیمانند، لوکیش شرما، کمل چوہان اورراجندرچودھری کوپنچکولہ کی خصوصی عدالت نے بری کردیا۔ ہریانہ پولیس نے یہ معاملہ درج کیا تھا کہ جسے جولائی 2010 میں این آئی اے کومنتقل کردیا گیا تھا۔

بھارت آبادی کے لحاظ سے بہت بڑا ملک ہے پاکستان کا روایتی دُشمن ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی زندگی بھارت کے ہاتھوں اجیرن ہے۔ بھارتی مسلمانوں کی زندگی گائے سے بھی سستی ہے۔ ہندو انتہا پسندوں کو اگر پتہ چل جائے کہ فلاں گھر میں گوشت پکا ہے تو بھارت میں اُس شخص کا جینا مشکل کر دیا جاتا ہے۔ بھارتی عوام کی غالب اکثریت بھارتی سرکار کے پاکستان اور اسلام دُشنمن ایجنڈے کو مسترد کر چکی ہے لیکن مذہبی انتہاء پسندی کو ہوا دینے کے لیے خود مودی سرکار ہی کا فی ہے، اقوام متحدہ، امریکہ، یورپ، برطانیہ کے ممالک کو بھارتی عدالت کی جانب سے کیے گئے اِس فیصلے کہ سمجھوتہ ایکسپریس کے تمام ملزمان باری کردئیے گئے ہیں کی مذمت کرنی چاہیے۔بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف جنگ کی شکل میں محاذ آرائی پاکستان میں آکر بمباری کرنا اور پاکستان کی جانب سے بھارت کے دو جنگی جہاز گرانا اِس ماحول میں سمجھوتہ ایکسپریس کا فیصلہ اِسی طرح کا ہی آنا تھا۔ پاکستان میں سی پیک کا منصوبہ بھارت کے سینے پر مُونگ دل رہا ہے۔ ایک بات ہے کہ بھاری مودی سرکار نے پاکستانیوں کو نظریہ اسلام نظریہ پاکستان کا سبق خوب یاد کروادیا ہے ۔ بھارت کے ساتھ دوستی کے لیے مرے جانے والے طبقے امن کی آشاء کے علمبرداروں کو دیکھ لینا چاہیے کہ بھارت کا اصل چہرہ کتنا بدنما ہے۔

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 453 Articles with 430390 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More