عدلیہ پر بوجھ،نئی جوڈیشنل پالیسی اور وکلاء احتجاج

چند ماہ قبل چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے عہدہ سنبھالتے ہی یہ اعلان کیا تھاکہ وہ عدلیہ پربوجھ ختم کرنے کیلئے اپنے دور میں کوئی غیر ضروری ــ’’ ازخود نوٹس‘‘ نہیں لیں گے اورچھوٹی مقدمہ بازی کا خاتمہ کرنا چاہے گے تو اب تک غیر ضروری ــ ’’ازخود نوٹس‘‘نہیں لیا گیا ہے مگر چند روز میں ایک’’ نئی جوڈیشنل پالیسی‘‘ متعارف کروائی گئی ہے جس میں ضابطہ فوجداری کی چند دفعات میں ترامیم اور کچھ ختم کردی گئی ہیں اِن میں دفعہ 22-Aاور 22-Bکے تحت دائرہونے والی پٹیشن کا خاتمہ ، چار دنوں میں قتل کے مقد مہ کا فیصلہ ، ضمانت بذریعہ تھانیدار اور جانشینی قانون میں ترمیم شامل ہے۔

اِن ترامیم کے آنے کے بعد عام آدمی کیلئے انصاف کا حصول ناممکن ہوچکا ہے کیونکہ چند سال قبل بذریعہ ترامیم ضابطہ فوجداری میں دفعات 22-Aاور 22-B کو شامل کیا گیا تھا جس میں پولیس جب کسی سائل کی دادرسی نہیں کرتی تھی تو وہ مجوزہ دفعات کے تحت ’’جسٹس آف پیس ‘‘سے رجوع کرتا تھا اِس طرح عدالت قانون کے مطابق سائل کی درخواست پر سماعت کے بعدپولیس کو اندراج مقدمہ یا درخواست کو خارج کرنے کا حکم صادر فرماتی تھی مگر اب نئی ترامیم کے تحت سائل درخواست برائے اندراج مقدمہ ’’ ڈسٹرکٹ کمپلینٹ افسر‘‘ کو دے گا جو ایک ’’ایس پی صاحب ‘‘ہونگے اگرڈسٹرکٹ کمپلینٹ افسر درخواست پر فیصلہ کرنے میں’’ تاخیر‘‘ کریں گے تو سائل درخواست پر جلدی فیصلہ کیلئے عدالت عالیہ سے’’ رجوع ‘‘کر سکے گا جس کے بعد درخواست خارج ہوجائے تو’’ کہانی ختم ‘‘ اور اگر سائل کے حق میں فیصلہ ہوگا تب متعلقہ تھانیدار یعنی SHOکوئی تاخیری حربے استعمال کرے گا توبالآخر سائل سیشن عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔

جہاں تک بات چار دنوں میں قتل کے مقد مہ کا فیصلہ کرنے کی ہے تو یہ کیسے ممکن ہوگا ؟ جبکہ ضمانت کا اختیار تھانیدار کو دینا رشوت کے رحجان میں اضافہ کا باعث بنے گا اِس کے علاوہ جانشینی قانون کی موجودگی میں جانشینی سرٹیفکیٹ دینے کا اختیار دیوانی عدالت سے لے کر’’نادرا‘‘ کو دینا بھی غیرضروری اقدام ہے اِیسا کرنا پیشہ وکالت سے منسلک افراد یعنی ’’وکلاء ‘‘کا استحصال کرنے کے مترادف ہے۔

’’ پاکستان بار کونسل‘‘ نے اِن ترامیم کے نافذ ہونے کے بعد پورے ملک میں دو روز ہڑتال کا اعلان کیا جس کے بعد ہر جمعرات کوباقاعدہ احتجاج کے طور پر ہڑتال کرنے کا اعلان کردیا گیاہے اِس کے علاوہ چیف جسٹس صاحبان سے وکلاء نمائندگان کی ملاقاتوں پربھی اُس وقت تک پابندی عائد کردی ہے جب تک ’’مجوزہ ترامیم ‘‘ واپس نہیں لی جائیں گی ۔

نئی’’ جوڈیشنل پالیسی2019‘‘ سے پہلے بھی ’’ جوڈیشنل پالیسی2009‘‘متعارف کروائی گئی تھی جس کے بعد 2010تک دائرہونے والے تمام دیوانی مقدمات کو ’’اولڈ کیس‘‘قرار دے کر ’’لال رنگ کا فائل کور ‘‘لگادیا گیا تھا ۔’’اولڈ کیس‘‘ کا مطلب یہ تھا کہ اِن مقدمات کی سماعت چھوٹی چھوٹی تاریخوں میں کی جائے گی اور کاروائی تیز ہوگی مگر چند ماہ بعد وہ فائل کور ’’غائب ‘‘ہی ہوگئے جبکہ اِن مقدمات کی سماعت بھی معمول کے مطابق ہواکرتی تھی ۔ ـُ

میری ذاتی رائے میں ’’مجوزہ ترامیم ‘‘ کی وجہ سے پیشہ وکالت سے منسلک افراد کا استحصال تو ہوگا ہی لیکن ایک عام آدمی انصاف کے حصول کیلئے دربدر ہوگا ۔ملک ’’پولیس اسٹیٹ‘‘ بن جائے گا اور انصاف کا حصول رشوت کے بغیر ناممکن ہوجائے گا ۔جہاں تک بات چیف جسٹس آف پاکستان کی ہے تو انہیں’’ضابطہ فوجداری کا ماہر ـ‘‘مانا جاتا ہے۔در اصل عدلیہ پر بوجھ فوجداری مقدمات کا نہیں دیوانی مقدمات کا ہے ۔بہتر یہ ہوتا ہے کہ ’’ضابطہ دیوانی‘‘ میں ایسی ترامیم لائی جاتیں جن کی وجہ سے جھوٹی مقدمہ بازی اور دیوانی مقدمہ بازی کی طوالت ختم کی جاسکتی کیونکہ آج تک’’ ضابطہ دیوانی‘‘ پرکسی نے توجہ نہیں دی اِسی لئے اِن مقدمات کی کاروائیاں نسل در نسل چلتی ہیں یاپھر ماتحت عدلیہ کے جج صاحبان کو ’’ٹارگٹ‘‘ دیا جائے کہ روزنامہ کی بنیاد پر مثال کے طور پر پچاس مقدمات کا فیصلہ لازمی کرناہوگا۔

آخر میں ، میں اُمید کرتا ہوں کہ چیف جسٹس آف پاکستان بہت جلد ’ ’ جوڈیشنل پالیسی2019‘‘ پر نظر ثانی کریں گے جس سے ختم کی جانے والی ’’ضابطہ فوجداریــ‘‘ کی دفعات22-Aاور 22-B بحال کی جائیں گی تاکہ عام آدمی کو انصاف کی فراہمی میسرہوسکے اور ہماراملک ــ ’’پولیس اسٹیٹ‘‘ بننے سے بچ جائے۔

Shahzad Imran Rana
About the Author: Shahzad Imran Rana Read More Articles by Shahzad Imran Rana: 68 Articles with 50891 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.