نیوزی لینڈ میں مسلمانوں پر حملے کا زخم تازہ تھا،
جس کے نتیجے میں چار درجنوں سے زیادہ مسلمان نماز جمعہ کی ادئیگی کے وقت
خون میں لت پت اخری آرام کی طرف محو سفر تھے ،اُن کی تدفین سے فارغ ہوئے
تھے جبکہ مسلمانانِ پاکستان ایک دوسرے کو دلاسہ دینے میں مصروف تھے ان کے
لئے ایک منٹ کی خاموشی اور شمعیں روشن کرنے کی رسمیں چل رہی تھیں۔ کہ کراچی
میں افسوس ناک واقعہ سے ملک میں سنا ٹا سا چھا گیا ہے ،اور خبر جنگل کی آگ
کی طرح اطرافِ عالم میں پھیل گئی،بات معمولی نوعیّت کی نہ تھی ، بلکہ دلوں
کو ہلا دینی والی تھیں،جس سے ہر قلب کو ضرور صدمہ پہنچی ہو ئی ہوگی،اور ہر
سانس تھوڑی دیر کے لئے روکی ہو گی، ہر مسلمان پیش امدہ واقعی کی تفصیل سے
آگاہ ہونا چا ہتا تھا،الیکٹرانک میڈیا میں بریکنگ نیوز کی طور پر چلی،پرنٹ
میڈیا میں سرخی کی بنی، سوشل میڈیا پر واقعہ کی سی سی ٹی وی فو ٹیج وائرل
ہوئی ۔
خبر تھی ’’کراچی میں ممتاز عالم دین ،روحانی پیشوا،مبلغ اسلام ،درجنوں
کتابوں کے مصنف، فقہ العصر،شریعت کور ٹ کے سابق جج، شیخ الاسلام حضرت مو
لانا مفتی محمد تقّی عثمانی کی گاڑی پر فا ئرنگ مو لانا محفوظ رہے شیخ
الاسلام نماز جمعہ سے واپس آرہے تھے‘‘ میڈیا رپوٹس کے مطابق مولانا کے ساتھ
اہلیہ اور دو نواسے بھی گاڑی میں سوار تھے اس قافلے میں دو گاڑیاں ،تھیں جس
میں گارڈ اور ایک پولیس اہلکار جو ڈیوٹی پر معمورتھے جائے وقوعہ پر دم توڑ
گئے جبکہ مولانا شہباز بھی موت کی آغوش میں چلے گئے۔
یاداشت بخیر! واقعہ کی پس منظر کی طرف مڑکر بنظر غائر دیکھا جائے، تو فائر
نگ کا واقعہ ایک ایسے وقت میں رونما ہوا ہے، کہ پاک بھارت تعلقات کشید گی
کی حدوں کو عبور کر رہی ہے،پڑوسیوں سے ہمدر دی تلخی کا شکار ہوگیا ہے،جب کہ
دیگر ہمسائے بھی منہ پھیرے ہوئے ہیں……، دشمن اپنے حریف کے چڑیا کو برداشت
نہیں کر سکتا ، چہ جائیکہ اتنا عظیم رہنما ہوں……یہ تو مذہبی شخصیّت تھے ،
دیگر ممتاز شخصیات کوبھی دشمن کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں،اُن کو نشانے پررکھ
کر درمیان سے اُڑانا چا ہتا ہے، لیکن ہمارے یہ اکا بر ہر میدان میں سر خرو
ہو نگے۔
وا قعہ اتنا افسوس ناک تھا کہ طلباء ،علماء کی انکھیں اشکبارہوئے، عام
مسلمان حیران ہے کہ ان کو کیسے برداشت کیا جائے۔
ملک کے سیاسی وعسکری قیادت سے مذمتی بیانات جاری ہوگئے جو ایک اچھی شگون
ہے،دردِ انسانیت رکھنے والے عظیم راہنماؤں نے حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ
قاتلوں کو فی الفور گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچا یاجائے۔
دریں اثناء بعض حکومت عہداروں ’’را‘‘اور افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں کے
ملوِث ہو نے کا انکشاف کیا ہے، جسطرح افغانستان یا بھارت میں ناخوش گوار
واقعہ نمودار ہوتا ہے تووطن عزیز کو مورد اِلزام ٹھہراتا ہے، بغیر کسی
تحقیق بِنا ثبوت اِلزام تراشی کی پوجھاڑشروع ہوجاتی ہیں، لیکن اِس
بارپاکستان کے اعلٰی اور ذمہ دار شخصیات یہ بیان داغہ ہیں کہ اِس واقعہ میں
بیرونی ایجنساں شریک ہیں بلکہ نا م بھی لیکر پردہ چاک کیا ہے،حکومت نے
مجرموں کی گر فتاری اورانجام تک پہنچانے کے عزم کا اِعادہ بھی کیا ہیں ، جس
سے مو لانا کے عقیدت مندوں کوسکھ کا سانس ضرور ملا ہو گا،
لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ماضی کی طرح دیگر قا تلوں اور حملہ آوروں وہی سلوک
کیا جا تاہے یا اُن کو کڑی سے کڑی سزا سے نوازا جاتاہیں، کسی بھی شخصیت پر
حملہ کرنا قتل کے مترادف ہیں،اور قانون کے مطابق قتل اور اِقدام ِقتل دونوں
ایک جرم ہے، ضرورت اس امر کی مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا ئے ،اُ
ن کو اول بے نقاب کیاجائے اور پھر برسر عام اور کیمرے کے سامنے پھانسی دی
جائے تاکہ پھرکوئی مائی کا لعل اسطرح فعل کا ارتکاب نہ کریں صرف ظالم کے
لئے سزا نہیں دوسروں کے لئے سبقِ عبرت بھی ہو٭٭٭ |