سمجھوتہ ایکسپریس دہلی سے لاہور کے درمیان چلتی ہے ۔ وہ
بین الاقوامی ٹرین ہے ۔ اس دہشت گردی میں غیر ملکی شہری ہلاک ہوئے تھے۔اس
معاملے میں کل آٹھ ملزم تھے۔ تفتیش سے قبل اس گروہ کے سرغنہ اور سنگھ کے
کارکن سنیل جوشی کو قتل کردیا گیا۔ تین دیگر ملزمن رام چندر كلسنگرا، سندیپ
ڈانگے اور امت عرف اشونی چوہان کو عدالت نے مفرور قرار دیا ہے۔ان لوگوں کے
بارے میں مہاراشٹر ایس آئی ٹی کے ایک افسر نے یہ انکشاف کرکے سنسنی پھیلا
دی تھی کہ ممبئی دھماکوں کے نامعلوم مرنے والوں میں وہ شامل تھے لیکن بعد
میں اس بات کو رفع دفع کردیا گیا ۔ ان چاروں کے علاوہ زیر حراست لوکیش شرما،
کمل چوہان اور راجندر چودھرینیز ضمانت پر رہا ہونے والے سوامی اسیمانند کو
عدالت شواہد کی عدم موجودگی کے سبب بری کردیا گیا۔ گواہی پیش کرنے والے ہی
اگر اسے چھپانے پر تل جائیں تو اور کیا ہوسکتا ہے؟
۱۲ فروری ۲۰۱۲ کو نوئیڈا سے گرفتار ہونے والے کمل چوہان نے چنڈی گڑھ کی
عدالت سے باہر نکلتے ہوئے صحافیوں کےسامنے اعتراف کیا تھا کہیہ دھماکے اسی
نے اپنی مرضی سے کیے ۔اس سے ایک سال قبل سوامی اسیمانند بھی اقبال جرم کرنے
کے بعد اپنے بیان سے مکر گیا تھا ۔ اس وقت این آئی اے نے بڑی تفصیل کے ساتھ
اس سازش کو بے نقاب کیا ۔ اس کے مطابق اس میں جملہ ۶ لوگ ملوث تھے۔ ماسٹر
مائنڈ سنیل جوشی نےاپنے ساتھیوں سندیپ ڈانگے اور رام چندر کلسانگرا کے ساتھ
مل کریہ سازش رچی مگر دسمبر ۲۰۰۷ میں پر اسرار طور پر جوشی کو قتل کردیا
گیا ۔ لوکیش شرما اور کمل چوہان نے عملاً ٹرین میں بم نصب کیا تھا۔ این آئی
نے ان کے ساتھی مفت بھائی عرف مہیش بھائی اور سریش نائرکو درگاہ اجمیر شریف
پر حملے میں ملوث پایا تھا ۔ امت عرف اشونی چوہان جو ابھی بری ہوا ہے
سمجھوتہ ایکسپیرس کے علاوہ اجمیر شریف کیس میں بھی مطواب تھا۔رام چندر
کالسنگرا اور سندیب ڈانگے سمجھوتہ ایکسپریس کے علاوہ موڈاسہ، مکہ مسجد،
اجمیر شریف اور مالیگاؤں کے بم دھماکوں میں ملوث پائے گئے تھے ۔
عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے اور بہت حد تک درست بھی ہے کہ انتظامیہ کے
اہلکاروں کی بڑی تعداد سنگھ سے متاثر ہے لیکن یہ حسن اتفاق ہے کہ جب اس طرح
کا کوئی معاملہ پیش آتا ہے مشیت ایزدی کسی نہ کسی جری افسر کو وہاں متعین
کردیتی ہے جو بلا خوف و خطر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیتا ہے۔ اس
کی ایک بہت بڑی مثال تو ہیمنت کرکرے ہیں جنہوں نے اپنی جان کی پرواہ کیے
بغیر فرض منصبی کی ادائیگی کی۔ سابق پولس کمشنر مشرف بھی ان میں سے ایک ہیں
کہ جنہوں نے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر ہیمنت کرکرے کے موت کے پیچھے سربستہ
راز فاش کئے۔ اسی طرح کے ایک افسر وکاس نرائن رائے بھی ہیں جو ۲۰۰۷ سے لے
کر ۲۰۱۰ تک سمجھوتہ ایکسپریس معاملے کی تحقیق کرنے والی ایس آئی ٹی کے
سربراہ تھے۔
۲۰۱۶ کے اندر دی وائر کو دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا
تھا دھماکے کے تین دن بعد ایس آئی ٹی کا قیام عمل میں آگیا تھا۔ تفتیش کی
ابتداء لشکر طیبہ سے کی گئی اس لیے وزارت داخلہ بھی انہیں خطوط پر سوچ رہی
تھی ۔ اس کے بعد ایس آئی ایم کو کھنگالنے کے لیے جیل میں بند کارکنان
سےرابطہ کیا گیا مگر بات نہیں بنی۔ خوش قسمتی سے جو بم پھٹ نہیں سکے تھے ان
کے غلاف اندور سے خریدے گئے تھے اس طرح معاملہ وہاں پہنچ گیا ۔ رگھونندن
اٹیچی اسٹور میں کام کرنے والے ایک ہندو اور ایک مسلم ملازم کی مدد سے اسے
خریدنے والوں کاخاکہ تیار کیا گیا۔اس کے بعد پتہ چلا کہ دھماکے میں استعمال
ہونے والا سارا سامان اس دوکان کے آس پاس سے خریدا گیا ہے۔
ایم پی کے پولس افسران نے زیادہ تعاون تو نہیں کیا مگر ذاتی طور پرتفتیش کے
صحیح رخ پر ہونے کی تائید کردی۔ سنیل جوشی کی قیادت میں کام کرنے والا
ہندوتواوادی دہشت گرد گروہ نشانے پر آگیا ۔ اس انکشاف نے یو پی اے کی
وزارت داخلہ کو چونکا دیا ۔ رائے نے بتایا کہ وزارت داخلہ کے تحت منعقد
ہونے والے مشترکہ اجلاس میں پتہ چلا کہ ۲۰۰۶ کا مالیگاوں دھماکہ اور ۲۰۰۷
کے مکہ مسجد ، اجمیر شریف و سمجھوتہ ایکسپریس میں استعمال کیا جانے والا
سازوسامان اور طریقہ ٔ کار بالکل یکساں ہے اور ان سب کے پیچھے ایک فکر کام
کررہی ہے۔ ہیمنت کرکرے اسی زمانے میں مالیگاوں کی تحقیق کررہے تھے اور
دوہفتہ بعد نارائن رائے سے ملنے والے تھے لیکن اس سے پہلے ان کو ہلاک کردیا
گیا ۔ اس قدرباریک بینی کے ساتھ تیار کی گئی رپورٹ کے باوجود اگر عدالت کو
شواہد کی عدم موجود گی کا شکوہ ہے ہو تو کوئی کیا کرسکتا ہے۔
حکومت ہند آج کل پاکستان پر اظہر مسعود اور حافظ سعید پر کاروائی کرنے کے
لیے بین الاقوامی دباو بنارہی ہے لیکن اس مقدمہ نے اس کی ساری ہوا نکال دی
۔ فیصلے کے چند گھنٹے بعد حکومتِ پاکستان نے اسلام مںب آباد ہندوستانیسفیر
اجے بساریا کو طلب کرکے اپنا احتجاج درج کرایا۔پاکستانی وزارت خارجہ نے
کہاکہ سمجھوتہ ایکسپریس دہشت گردانہ حملہ کے ملزمنہ کو گاکرہ برس بعد بری
کان جانا انصاف کا ’مذاق‘ ہےکیونکہ اس دھماکے میں ہلاک ہونے والے۶۸ لوگوں
میں بچے اور چار ریلوے کے ملازمن بھی شامل تھے۔حکومت ہند نے اس اعتراض کو
خارج کرتے ہوئے کہا کہ ہندستانی عدلہہ اور عدالتی نظام نے ’شفاف طریقہ‘ سے
قانون کے مناسب طریقہ کار پر عمل کاا ہے۔ یہ دلیل اپنے لوگوں اور قومی
ذرائع ابلاغ کی سمجھ میں تو آسکتی ہے لیکن عالمی سطح پر اس کی پذیرائی
مشکل ہے۔
سیاست وسفارت سے قطع نظر اس فصلہم سے ان متاثرین کو شدید دھچکا پہنچا جو
انصاف کے منتظر ہںک۔ ان میں سے ایک بجنور کے رہنے والے ذاکر نے مایوسی کا
اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود کو بے عزت محسوس کر رہے ہں ۔ ذاکر خود زخمی
ہوگئے تھے اور ان کے والدین اس دھماکے میں ہلاک ہوگئے ۔ والدہ کی تو لاش تک
نہںر ملی ۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے اہل خانہ سے تبادلہ خاہل کے بعد اس
فصلہن کے خلاف اپلل کریں گا۔ ذاکر کا کہنا ہے چونکہ وہ اپنے والدینکھو چکے
ہیں لہٰذا ملزمنا کو آزاد نںزخ گھومنے دیں گے۔ پاکستانی شہری راحلہ وکیلکو
شکایت ہے کہ پاکستانوا ں کو گواہیکے لئے سمن ہی نہںے بھجاچ گای۔ ایک اور
مسافر رخسانہ سوال کرتی ہںگ کہ ہندو ہوں یا مسلمان، مجھے اس کا جواب چاہیے
کہ میرے پانچ بچوں کوکس نے مارا؟ایک طرف جہاں این آئی اے اسیمانند اور اس
کے ساتھیوں کو بچانے کی کوشش کررہی ہے وہیں دوسری جانب سی بی آئی کے وکیل
آر سی کوڈیکر اسپیشل جسٹس جے کے پنڈیا سے عشرت جہاں کے فرضی مڈبھیڑ معاملے
میں ونجارہ اور امین کی تفتیش کرنے پر اصرار کررہے ہیں ۔ وقت کا پہیہ گھوم
رہا ہے ۔ کون اس کی لپیٹ کب آئے گا کوئی نہیں جانتا ؟ لیکن بقول امیر
مینائی یہی سچ ہے کہ ؎
قریب ہے یارو روز محشر ،چھپے گا کشتوں کا خون کیوں کر
جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
|