دوچار اہل قلم مل بیٹھیں تو اپنے ہم عصروں پر الزام
تراشیوں کے بعد سیاسی حالات پر بحث ضرور کرتے ہیں ۔سجاد قمر سے اس روز طویل
عرصے بعد ملاقات ہوئی وہ ایک صاحب علم انسان ہیں سیاست کے داؤ پیچ اور
باریکیوں سے واقف ہیں میں اکثر ان سے کہا کرتا ہوں کہ اگر وہ سیاست کے
میدان کو چن لیتے تو زیادہ کامیاب ٹھہرتے ۔ اس دن بحث کے پتے محفل کے روح
رواں حفیظ عثمانی نے بانٹے تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کامیاب ہے یا ناکام
؟ نواز ، زرداری کے خلاف کاروائیاں قانونی تقاضے ہیں یا انتقام ؟سیر حاصل
بحث رہی اور یقینا یہ بحث آج کل ہر گلی کوچے میں جاری ہے لیکن اس بحث نے
نیا موڑ اس وقت لیا جب پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے کپتان کی
ناراضگی کا ذکر چھڑا سجاد قمر وزیر اعلیٰ پنجاب کے پرجوش حامی ہیں اور
حیران کن طو ر پر محفل میں موجود اکثریتی لوگ مجھے اس چپ چپ رہنے والے شخص
کے طرف دار دکھائی دیے۔
میں حیران ہوں کہ چند ماہ کے بعد ہی عمران خان اپنے وسیم اکرم پر برہم کیوں
ہیں ؟ کیا مسئلہ صرف اسمبلی ممبران کی تنخواہوں میں اضافہ ہی ہے یا قصہ
کوئی اور ہے ؟عمران خان نے گزشتہ روز عثمان بزدار سے ملاقات کے بعد جو بیان
دیا اس کالفظ لفظ تو کوئی اور ہی کہانی سنا رہا ہے وہ کون سی اشرافیہ ہے
جسے متوسط طبقے کا یہ قائد ایوان قبول نہیں ؟
عثمان بزدار کی نامزدگی کے بعد جو لوگ خوشی کے شادیانے بجارہے تھے کہ ایک
بھولا بھالا شخص ان کے ہتھے چڑھ گیا ہے اور اب سب سے بڑے صوبے پر اصل
حکمرانی وہ خود کریں گے کھسیانی بلی کی طرح کھمبا کیوں نوچ رہے ہیں ؟ اپنی
نجی محفلوں میں مایوسی سے یہ کہتے کیوں سنائی دیتے ہیں بھولااتنا بھی بھولا
نہیں ہے ۔
عمران خان کو اپنے انتخاب پر فخر کرنا چاہیے تھا ناکہ سازشی ٹولے کے کان
بھرنے پر وزیر اعلی کی باز پرس شروع کردیتے مگر چونکہ جہاندیدہ آدمی ہیں
اسی لیئے وزیر اعلیٰ کی بات سن کر اصل ماجرے کی تہہ تک پہنچ گئے اور کپتان
کی بزدار کو تازہ تھپکی بہت سارے ارمانوں پر خاک ڈال گئی ہے ۔
میں عثمان بزدار کوذاتی طور پر بھی پسند کرتا ہوں کیونکہ پنجاب کا رہنے
والا ہوں اس لیے ان کے اقدامات کے ثمرات اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں پنجاب
میں انقلابی قسم کی تبدیلیوں کے آغاز کا خود شاہد ہوں ہر وقت ڈرے سہمے اور
دباؤکا شکار سرکاری ملازمین اب آزادی سے اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں
اور یقینا بہترماحول کارکردگی میں اضافے کا موجب بنتا ہے سابقہ حکومت نے
سرکاری ملازمین پر بالعموم اور اساتذہ پر بالخصوص جبری مشقت لاگو کردی تھی
غیر ضروری سختی اور ان کے جائز حقوق تلف کرکے ملازمین کو ذہنی مریض بنا دیا
گیا تھا حد تو یہ تھی کہ بلدیاتی نمائندوں کے انتخاب کے بعد بھی اختیارات
کا مرکز وزیر اعلیٰ ہاؤس ہی تھا خادم اعلیٰ ساری طاقت اپنی مٹھی میں بند
رکھنے کے قائل تھے نتیجتاً گھن گرج بہت تھی مگر حاصل حصول صفر تھا۔
عثمان بزدار سادہ طبیعت کے بردبار انسان ہیں زیادہ شور شرابے کے بھی قائل
نہیں اسی لیئے کام کرتے ہیں ڈھول نہیں پیٹتے اور یقینا یہ عمران خان کی نیک
نامی میں اضافے کا سبب بنیں گے مثل مشہور ہے کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں
کپتان کے گرجنے والے سبھی ساتھیوں کی کارکردگی سامنے ہے ۔ پشاورمیٹرو کا
حشر نشر ہو، وزیر مواصلات مراد سعید کی غیر ضروری گفتگو اور جعلی کارکردگی
ہو یا متنازعہ بیانات سے میڈیا انڈسٹری کو تباہ و برباد کرنے والے وفاقی
وزیر اطلاعات ہو ں یا ہرروزاپنی بد زبانی اور لغو گفتگو سے حکومت کو نئے
بحران میں گھسیٹنے والے وزیر ریلوے ہوں یاسب کی اہلیت کے پول کھولتے غلام
سرور خان ہوں سب کے سب یقینا عمران خان کیلئے درد سر بنے ہوئے ہیں ان
مصنوعی دعوؤں کے درمیان چپ چاپ اپنے کام میں مگن عثمان بزدار جیسے درجن بھر
لوگ بھی عمران خان کو میسر آجاتے تو ان کے سارے خواب تعبیر کی چادر اوڑھ
لیتے۔
|