بلاشبہ نوجوان نسل کسی بھی قوم و مذہب کا سب سے قیمتی
متاع اور بیش قیمت و گراں قدر سرمایہ ہوتی ہے جو اس قوم و مذہب کے مشن کو
لے کر آگے بڑھتی ہے اور ہر دور میں نئی قوت، نئی حرارت، نئی تازگی، نئی
امنگ، نئے جوش،نئے ولولے اورنئے جذبے عطا کرتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ قوموں
کے ہر انقلاب میں نوجوان طبقے نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ نوجوانوں میں
کام کرنے کا جذبہ اور انقلاب لانے کی امنگ ہوتی ہے۔ یہ مضبوط عزم ، باہمت
اور بلند حوصلہ ہوتے ہیں۔ ان کی رگوں میں گرم خون اور وجود میں سمندر کی سی
طغیانی ہوتی ہے کہ ان کے سیلاب کے آگے دنیا کی کوئی طاقت نہیں تھم سکتی۔ یہ
اگر اپنے مقصد پر جم جائیں تو پہاڑوں جیسی ہمت رکھتے ہیں کہ دنیا کی کوئی
طاقت انہیں اپنی جگہ، اپنے مشن سے ہٹا نہیں سکتی۔ یہ کسی بھی دشمن کے سامنے
سیسہ پلائی دیوار اور فولاد کی طرح مضبوط ثابت ہوتے ہیں، ان کی قابلیت و
ذہنی صلاحیتیں انہیں حالات کا رخ موڑ دینے، مشکلات جھیلنے اور مسلسل جدوجہد
اور جانفشانی کے ساتھ ساتھ وقت اور جان و مال کی قربانی دینے کا جذبہ اور
حوصلہ عطا کرتی ہیں اور ان کو وقتاً فوقتاً اس کے لیے ابھارتی رہتی ہیں۔ جس
قوم کے نوجوان اپنے مشن میں فولاد کی طرح مضبوط ہوں انہیں دنیا کی کوئی
طاقت ناکام نہیں کر سکتی۔ حضرت اقبال ؒ نے بالکل بجا فرمایا ہے کہ
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد
تاریخ بتاتی ہے کہ فرعون جیسے ظالم و جابر کے خلاف حضرت موسیٰ علیہ السلام
کی دعوت پر ’’لبیک‘‘ کہنے والے چند نوجوان ہی تھے جنہوں نے مصائب و آلائم
کی پروا نہ کرتے ہوئے علم حق بلند کیا۔ تاریخ اسلام کے ہر دور میں دعوتِ حق
کی پکار پر لبیک کہنے اور اس مشن کو لیکر آگے بڑھنے والوں میں نوجوان ہمیشہ
پیش پیش رہے ہیں۔ معرکہ حق و باطل میں سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے ، کفر کے
مقابلہ میں پہاڑ کی طرح ڈٹ اور فولاد کی طرح جم گئے اور اپنے مشن سے نہیں
ہٹے۔ ہزاروں مشکلات، ہر طرح کے مصائب وآلائم برداشت کیے مگر اپنے مقصدسے
ایک لمحہ کیلئے بھی غافل نہیں ہوئے۔ حق و باطل کی پیکار میں انہوں نے ہر
طرح کے سود و زیاں سے بے نیاز ہوکر حق و صداقت کا ساتھ دیا۔ قرآن کریم اس
حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے۔
فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰٓی اِلَّا ذُرِّیَّۃٌ مِّنْ قَوْمِہٖ عَلٰی خَوْفٍ
مِّنْ فِرْعَوْنَ وَ مَلَاءِھِمْ اَنْ یَّفْتِنَھُمْ ط
’’(پھر دیکھو کہ) موسیٰ کو ، اس کی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے
ان کو نہ مانا، (نہ آپ کے ساتھ چلنے پر آمادہ ہوئے )فرعون اور اپنی قوم کے
سربراہوں، وڈیروں کے ڈر سے (انہیں خوف تھا کہ) وہ انہیں عذاب میں مبتلا
کریں گے۔‘‘ (سورہ یونس10: 83)
گویا اس پُرآشوب اور پُرخطر زمانے میں جب فرعون اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ
کے درمیان ایک زبردست کشمکش برپا تھی،اس وقت حق کا ساتھ دینے اور حضرت
موسیٰ علیہ السلام کو اپنا رہنما تسلیم کرنے کی جرات فقط چندنوجوان لڑکوں
نے کی۔ قومِ موسیٰ علیہ السلام کے بڑے افراد اور عمر رسیدہ لوگ مصلحت کوشی
اور عافیت پرستی کا شکار ہوکر رہ گئے۔ نہ صرف یہ کہ وہ خود حق کا ساتھ دینے
پر آمادہ نہ ہوئے بلکہ نوجوانوں کو بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیروی سے
روکتے رہے تاکہ وہ فرعون کے غیظ و غضب سے محفوظ رہ سکیں۔ آج بھی بالکل اسی
طرح کی کیفیت اور کشمکش کا سامنا ہے کہ ہمارے بڑے اور عمر رسید افرادِ ملت
مصلحت پسند ہیں ، کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی پر گامزن ہیں کہ کچھ ان کا
مان لو، کچھ اپنا منوا لو اور امن و عافیت کی زندگی بسر کروں۔
یہ حقیقت معرکہِ فرعون و کلیم علیہ السلام سے حضور سید عالم ﷺکے دور تک
اسلام اور کفر و جاہلیت کی کشمکش میں ہمیشہ نمایاں طور پر نظر آتی ہے اور
یہ ثابت کرتی ہے کہ بلاشبہ نوجوان نسل ہی کسی قوم و مذہب کا سب سے قیمتی
متاع اور بیش قیمت سرمایہ ہوتی ہے۔ سرزمین عرب میں جب آنحضور صلی اللہ صلی
علیہ وسلم نے دعوتِ حق پیش کی تو آپﷺ پر ایمان لانے والوں میں بڑوں، بوڑھوں
اور عمر رسیدہ لوگوں کی بجائے اوّلیت کا شرف بھی نوجوانوں کو حاصل ہوا، ان
باہمت ، بلند حوصلہ نوجوانوں کی عمریں قبولِ اسلام کے وقت بیس سال سے بھی
کم تھیں جن میں حضرت سیدنا علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت
جعفر بن طیاررضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت
طلحہٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت
اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ،
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ چند ایسے نوجوان تھے جن کی
عمریں بیس سال سے زائد تھیں جن میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ
عنہ، حضرت سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ
عنہ،حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت زید بن حارث رضی
اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت طارق بن زیاد رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت سیدنا خالد
بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ
عنہ،حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی
اللہ تعالیٰ عنہ۔ ایسے ایسے جرنیل و بہادر نوجوان تھے جن کے نام سن کر آج
بھی دنیا کانپ اٹھتی ہے۔ یہ سب اور ان کے علاوہ اور بے شمار حضور نبی کریم
ﷺ پر اوّل ایمان لانے والے سب نوجوان ہی تھے جو اسلام کو مضبوط کرنے اور
پروان چڑھانے میں پیش پیش رہے اور جوانمردی، شجاعت و جانثاری کی انوکھی
داستانیں رقم کیں جن کی مثال نہ پہلے دیکھنے کو ملتی ہے نہ بعد کے ادوار
میں۔
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحراء و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
حضور سید عالم ﷺ نے اپنی ظاہری زندگی کے آخری مشن کی سپہ سالای بھی ایک
نوجوان ’’اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘‘ کو سونپی، جن کی عمر بیس سے
کم تھی۔گویا آپ ﷺ کی طرف سے اپنی ظاہری زندگی کا آخری پیغام بھی یہی تھا کہ
میرے بعد نوجوان ہی میرے مشن کو حقیقی معنوں میں لے کر آگے بڑھیں گے۔ محمد
بن قاسمؒ کو دیکھیں نہایت کم عمر، برصغیر پاک و ہند میں اسلام کا بیج بونے
والے باہمت نوجوان ہی تھے۔ ان کی ہیبت کا یہ عالم تھا کہ برصغیر میں جس طرف
کا رخ کرتے تھے کلیساء و دیر کی دیواریں لرز کر زمین بوس ہو جاتی
تھیں۔اسلام کی گذشتہ تاریخ ایسے باہمت،بلند حوصلہ، شجاع و بہادر نوجوانوں
سے بھری پڑی ہے جن کا نام سنتے ہی کفر کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو جاتا
تھا۔ایک زمانہ تھا کہ اہل مغرب پر مسلم نوجوانوں کا ایسا دبدبہ طاری تھا کہ
وہ سرزمین اسلام کی طرف سے آنے والی تیز ہواؤں اور اٹھنے والی گرد سے بھی
خائف ہو جایا کرتے تھے کہ یہ سرزمین اسلام کی طرف سے آنے والی ہوائیں اور
گرد و غبار کوئی اچھا پیغام نہیں دیتیں، اس اٹھتے گرد و غبار میں کہیں مسلم
نوجوانوں کے لشکر نہ آتے ہوں۔
مگر افسوس کہ آج معاملہ بہت الگ ہو چکا۔ آج سب کچھ الٹ ہوگیا ۔آج جاگنے
بلکہ جگانے والے سو گئے ،بہادر بزدل اور بزدل بہادر بن گئے، آج بلیاں شیروں
کا شکار کرتی دیکھائی دیتی ہیں۔ باہمت و بلند حوصلہ آج پستی و ناداری میں
جا گرے۔دنیا کے مظلوموں کو ظالموں کے پنجوں آزاد کرانے والے آج خود ظالموں
کے دنگل میں پھنس گئے، دنیا کے ستم زدوں کو تحفظ و پناہ دینے والے آج خود
غیروں سے تحفظ اور پناہ ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ دنیا پر حکومت کرنے والے آج
محکوم بن گئے۔دنیاکو علم و حکمت کا درس دینے والے آج غیروں کی شاگردی
اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے۔ جن کے ناموں سے کفار اپنے بچوں کو ڈرایا کرتے
تھے آج ان کے بچوں کے دلوں میں کفار کی ہیبت اور دبدبے کارعب بیٹھ
گیا۔جوکبھی ایک بہن کی پکار پر تڑپ اٹھتے تھے آج انہوں نے کشمیر ، فلسطین،
برما، بوسنیا، چیچنیا، کوسوؤ، سربیہ، صومالیہ ، افغانستان و عراق، لیبیا و
شام کی لاکھوں کروڑوں ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کوکس کے رحم وکرم پر چھوڑ رکھا
ہے؟آج لاکھوں کروڑوں مظلوم مسلمان بچوں ، بچیوں کے مستقبل کا محافظ کون ہے؟
کون ا ن کے حقوق کو پامال کر رہاہے ؟کس جرم کی سزا میں ان پر بم ، میزائل
وغیرہ برسائے جا رہے ہیں ؟آخر ان کا قصور کیا ہے؟ان سے کیا خطا سرزد ہوئی
ہے؟ کیا ان کا قصور یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے بچے ہیں ؟یا یہ کہ وہ انگریزی
کی بجائے عربی اور دوسری زبانیں بولتے ہیں؟کوئی بتائے تو سہی ان کا جرم؟
کوئی بتائے سہی ان کا قصور؟
انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں کہاں ہیں ؟ کیا وہ اس انتظار میں ہیں کہ
جب وہ مر کھپ جائیں تو ان کے کفن و دفن کے نام پر ساری دنیا سے چندہ اکٹھا
کیاجائے؟عالمی امن وسلامتی کے دعویدار اب کہاں ہیں؟کوئی ہے جو ان مظلوموں
کے حق میںآواز اٹھائے؟ کوئی ہے جو ظالم کا ہاتھ روکے؟کوئی ہے جو ان معصوم
مسلمان بچوں کو دلاسا دے اور حق کی آواز بلند کرے؟کوئی ہے مظلوم ماؤں،
بہنوں، بیٹیوں کی آواز پر لبیک کہنے والا؟ کیاانسانیت دم توڑ چکی ہے؟کیا
اخوت، بھائی چارہ، ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات مٹ چکے ہیں؟ مسلم
نوجوانوں کی غیرت کہاں ہے؟ کیادنیا کے چوتھائی ( ڈیڑھ ارب سے زائد)
مسلمانوں کی غیرت دم توڑ چکی ہے؟ کیا اب کوئی مظلوموں کی داد رسی کرنے
کیلئے ایوبی، ابن قاسم ، غزنوی ، طارق و خالد بن کر نہیں آئے گا؟کیا مسلم
نوجوانوں کا جوش مارنے والا خون منجمند پڑ چکا ہے؟ کیا اب ان میں کوئی
حرارت باقی نہیں رہی؟ آج مسلم نوجوانوں میں نہ کوئی عمر ہے جو ظالم کے
سامنے کلمہ حق بلند کرے اور حق و باطل میں تفریق کرے، نہ ہی کوئی خالد و
طارق ہے اور نہ ہی کوئی صلاح الدین ہے جوسامراجیوں سے جہاد کرسکے اور
صلیبیوں، صہیونیوں پر قہر بن کر ٹوٹ پڑے ۔نہ ہی ہم میں کوئی ابن قاسم ہے جو
ایک مظلوم بہن کی آواز پر لبیک کہتا ہوا مندر، کلیساء و دیر کے در و
دیوارہلا کر رکھ دے۔ ہماری متاع اجڑ گئی، ہمارے کارواں لٹ گئے۔ ہمارے بیش
قیمت متاع کو زنگ کھا گیا، ہمارا چمن ویران ہو گیا،ہمارے چمن کے مالی،
ہمارے گلشن کے محافظ یرغمال ہو گئے، ہمارے گلشن دین وملت کے مستقبل کے
معمار برباد ہو رہے ، ہمارے چمن کو نکھار دینے والے پھول خزاں آلود ہیں،ان
کے احساس زیاں کو دیمک کھا گیا،ان کا جوش مارنے والا خون سرد ہو کر جم چکا،
ان کے جوش اور جذبوں کی آگ ٹھنڈی پڑ چکی، ان کی غیرت مٹی میں دفن ہو
گئی۔آخر کس کو آواز دیں؟ کس کو للکاریں؟کن کے ضمیر جھنجھوڑیں ، کسی میں
کوئی حرارت اور احساس ہی باقی نہیں رہا دین و ملت کا۔وائے ناکامی! ۔۔۔ وائے
ناکامی!۔۔۔
وائے ناکامی! متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
آج کے دور کی بے حیائی و بے پردگی، فحاشی وعریانی نے پورے معاشرہ کو بے حیا
ء ، بے شرم اور بے غیرت بنا کے رکھ دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے نوجوان
قومی کرکٹ ٹیم کے کوئی میچ ہار جانے پر تو خون کے آنسو بہاتا ہے اور
کھلاڑیوں پر ان کا خون کھول اٹھتا ہے مگر کشمیر، فلسطین، بوسنیا، چیچنیا ،
افغانستان، عراق، شام اور لیبیا وغیرہ میں ہزاروں مسلمان ماؤں ، بہنوں ،
بیٹیوں کی بندر نما یہودیوں ، عیسائیوں اور ہندؤوں کے ہاتھوں ہونے والی عزت
کی پامالی پر ان کا خون کیوں نہیں کھولتا؟ کیوں نہیں جوش مارتا؟ اس پر ذرا
غم و غصے کا اظہار کیوں نہیں کیا جاتا؟ ان کے چہروں پر مایوسی و غمی کی
ہلکی سی لہر تک بھی پیدا نہیں ہوتی ، قبلہ اول بیت المقدس پر بندر
نمایہودیوں کا قبضہ دیکھ کر بھی ان کا خون جوش نہیں مارتا ، حرمین شریفین
کے گرد امریکی و برطانوی افواج کی موجودگی ان کے اضطراب و قلق کاباعث کیوں
نہیں بنتی ؟
آج ہماری نوجوان نسل ٹی وی کے سامنے بیٹھی ہوئی کرکٹ میچ دیکھ رہی ہوتی ہے
۔ کھلاڑی جب سنچری مکمل کرتا ہے تو وہ خوداور میدان میں ہزاروں شائقین،
ہماری قوم ، خاص کر نوجوان نسل بے ساختہ سجدے میں گرتی پڑتی ہے اور اس کے
انگ انگ میں خوشی جھومنے لگتی ہے اور رب کا شکر ادا کرنے لگتی ہے۔ اس وقت
رب یاد آتا ہے اور اپنے مسلمان ہونے کا احساس ہوتا ہے تو سجد ے میں گر کر
رب کو اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ دوران میچ کتنی نمازیں قضا ہوتی
ہیں اس وقت نہ رب یاد آتا ہے اور نہ ہی احساس ہوتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور
نماز کا وقت ہے ، اذان ہوگئی ، رب کا بلاوا آ گیا ، چلیں مسجد جاکر نہ سہی
یہیں پر رب کو سجدہ کر لیں اور رب کو اپنے مسلمان ہونے کاثبوت دیں۔
کفر ہمیں عملی میدانوں میں شکست دینے کی ترکیبیں کر رہا ہے ، غیروں نے ہمیں
ہر میدان میں پچھاڑ دیا،ہم دنیا میں ہر جگہ قوموں کی صفوں میں شکست خوردہ
ہیں،ہم عملی طور پر ہر میدان میں غیروں سے پیچھے ہارے ہوئے ذلیل و رسواء ہو
رہے ہیں اور ہماری معصومیت دیکھو کہ ہم اسے کھیل کے میدانوں میں شکست دے کر
پٹاخے، فائرنگ اور مٹھائیاں بانٹ کے جشن منارہے ہوتے ہیں اور رب کا شکر ادا
کرتے نظر آتے ہیں کہ اس نے عزت رکھ لی مگرقوموں کی صفوں میں ہر جگہ ذلیل و
رسواء ہوتے ہوئے نہ عزت کا احساس ہے نہ ہی غیرت کا اور نہ ہی اس پر کوئی
اپنے رب سے مناجات ہیں کہ یا رب ! ہم دنیا میں ہر جگہ ذلیل و رسواء کیوں
ہیں؟ غیروں کو کھیل کے میدان میں ہرانے کیلئے ہماری قوم کی طرف سے رب سے
کیا کیا مناجات، کس لگن اور خلوص سے دعائیں و التجائیں کی جاتیں ہیں مگر
قوموں کی صفوں میں جیتنے کیلئے، قوموں میں سربلند ہونے اور عزت و وقار سے
سر اٹھا کر جینے کیلئے نہ اجتماعی طور پر کوئی رب سے مناجات ہیں اور نہ
دعاؤں میں وہ خلوص اور لگن ہے جو میچ میں جیتنے کیلئے ہے تو کیونکر قوم کا
زوال نہ ہو؟ وہ کیونکر دنیا میں ذلیل و رسواء نہ ہو؟
آج کے نوجوانوں کے جوش و جذبوں کی آگ صرف ہوس پرستی تک محدود ہے۔کسی کو فیس
بک، ٹویٹ، ویٹ ایپس اور دیگر ذرائع سے فحش، عریاں و نیم عریاں فلمیں، ڈرامے
، مجرے دیکھنے اور سکرینوں سے لطف لینے سے فرصت ہی نہیں ہے کہ وہ ملت کا
سوچیں، دنیا میں دین و ملت کی پستی و رسوائی ، خواری و ناداری میں غور و
فکر کریں۔ دن رات ان کی نظریں اپنی ہوس پرستی کو ٹھنڈا کرنے کیلئے سکرینوں
پر جمی ہیں۔وہ اپنے گرم خونوں کی تپش کو ٹھنڈا کرنے کیلئے فحش بینی ، برہنہ
و عریاں تصاویراور ویڈیوکلپس کا سہارا لے رہے ہیں۔ آج ہر دوسرا نوجوان کسی
لڑکی کے طلب و عشق میں مبتلا نظر آتا ہے، یا وقت سے پہلے لڑکیوں کی ہو اس
رکھتا ہے، یا کوئی اپنی ہوس مٹانے کیلئے دوسری راہیں ڈھونڈتا پھر رہا ہے۔
جو ایام پڑھنے لکھنے کے تھے یہ حضرات عاشقی میں مجنوں و رانجھا کا ریکارڈ
توڑنے کا سوچ رہے ہیں۔ یہ باتیں نوجوانوں پر کڑوی اورگراں تو ضرور گذریں گی
مگر مجھے حق اور سچ بیان کرنے سے خوف نہیں ہے۔ میں یہ مجموعی معاشرتی حقیقت
بیان کر رہا ہوں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے ۔ آج مجموعی طور پر معاشرہ
میں یہی کچھ ہوتا نظر آ رہا ہے۔
یہ ہمارے ساتھ کیوں ہوا؟ کیسے ہمار ے معاشرہ پر شہوت زنی و ہوس پرستی کا
بھوت سوار ہوا؟ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ ہماری خواتین نے پردہ کے قرآنی
احکامات ترک دئیے۔ اللہ و رسول ﷺ کی ہدایات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جسم کی
نمائش، سنگھار اور فیشن کو اپنا شعار بنا لیا۔اس نمائش اور فیشن کی دوڑ میں
ہماری صنعتوں اور انڈسٹریز نے بھی ان کی معاونت کرنے میں کوئی کثر نہیں
چھوڑی۔ آپ خواتین کا لباس دیکھ لیں انتہائی باریک، دوپٹے اتنے باریک کہ صرف
برائے نام ہیں۔ ایک عورت، ایک پردہ کی چیز، ایک سراپا ستر کے لباس کا مرد
کے لباس سے موازنہ کر لیں۔ عورت اور مرد کے جوتوں کا موازنہ کر لیں، آپ کو
مرد کے جوتے مکمل بنداور زیادہ ڈھکے ہوئے ملیں گے، یعنی انڈسٹریز کی طرف سے
مرد کے جوتے بناتے ہوئے مکمل کوشش کی گئی ہے کہ جسم کا زیادہ سے زیادہ حصہ
چھپ جائے جبکہ خواتین کے جوتے بناتے ہوئے زیادہ سے زیادہ کوشش کی گئی ہے کہ
جسم کا زیادہ سے زیادہ حصہ ننگا اور واضح نظر آئے۔ الغرض آپ مرد اور خواتین
سے وابستہ کسی بھی چیز کو مارکیٹ میں دیکھ لیںآپ کو پردہ اور نمائش کا واضح
فرق نظر آئے گاکہ ہماری صنعتوں نے قانون خداوندی اور مسلم کلچر کو بالائے
طاق لاتے ہوئے پردہ داری کس کی زیادہ کی، واضح اور کھلا کس کو چھوڑا؟ کس کی
نمائش کا زیادہ اہتمام کیا؟
یہ معاونت ہمارے اسلامی اور معاشرتی کلچر کو تباہ کرنے میں ہماری انڈسٹریز
کی طرف سے کی گئی ہے اور جلتی پر جو تیل مغرب کی چال اور مکاری نے ڈالااس
نے سب کچھ جلا کے رکھ دیا۔ مغرب کے فحش و عریاں کلچر نے عورت کا سب کچھ
واضح اور کھول کے پوری دنیا کے سامنے رکھ دیا، فحش و عریاں موویز،عورت کے
محاسن پر ڈکومنٹری ۔ اس مغربی یلغار نے پوری دنیا کے معاشرتی نظام کو برباد
کر کے رکھ دیا ہے بالخصوص اسلامی شعار کو تباہ کرنے کیلئے مغرب نے ہر طرح
کی عیاری کی ہے اور اپنا رنگ اور اثر دیکھایاہے۔ اس مغربی یلغار سے اسلامی
دنیا کا کوئی علاقہ محفوظ نہیں رہا، خاص تر ہماری نوجوان نسل تو بری طرح
متاثر ہوئی ہے۔رہی سہی کثر موسیقی ڈرامہ و فلم نے نکال دی۔ ہماری بد قسمتی
کہ ہماری ملت کے ہر طبقہ نے مغربی عیاری کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرنے کی
بجائے اس کی ہر یلغار کوعیش و مستی ، لطف و تفریح سمجھ کر قبول کیا ہے اور
پوری طرح اس کے رنگ میں رنگنے کی کوشش بھی کی ہے۔ آج کچھ نہ کچھ اسلامی
کلچر و روایات نیچلے، غریب اور درمیانی طبقہ میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔آپ
نیچلے اور غریب طبقہ سے جیسے جیسے اوپر امراء و مخیر طبقہ کی طرف جائیں گے
آپ کو زیادہ سے زیادہ پختہ مغربی چال ڈھال ، مغربی انداز ، مغربی رنگ و روپ
اور واضح قطع نظر آئے گا ۔
اگر آج ایک صابن کی ٹکیہ خریدنی ہوتو ننگی تصاویر کا دیدار ہوتاہے ، شیمپو
کی بوتل پر عریاں تصاویر ہوتی ہیں۔ کیا کبھی کسی نے یہ سوچا کہ باتھ میں
برہنہ حالت میں ایسی تصویروں پر نظر کیا کیفیت طاری کرتی ہو گی اور لوگ ان
کو کس نگاہ سے تکتے ہوں گے؟ آخر وہ بھی کسی کی مائیں، بہنیں بیٹیاں ہیں۔
ہماری انڈسٹریز اور بزنس والوں اور پڑھے لکھے لوگوں کو معاشرہ کی پاکیزگی
اور کسی کی ماں بہن بیٹی کا احساس نہیں تو معاشرہ کے دوسرے افراد میں کہاں
سے آئے گا؟ اخبارات روزانہ کسی نہ کسی خوبرو کی تلاش میں ہوتے ہیں اور فحش
و عریاں تصویروں کے ساتھ ان کی خبریں شائع کرتے ہیں۔ شوبز کے نام سے صفحات
مخصوص ہوتے ہیں، شہروں کے بازار فحش و عریاں اور تنگ لباسوں سے بھرے پڑے
ہیں، ٹی وی اشتہارات کو دیکھئے تو وہ ہوس اور جذبات کو ابھارنے والے ، اب
انٹرنیٹ کی تیزی اور پھر اسمارٹ فون کی وبا نے بچے بچے کو وقت سے پہلے بالغ
کردیا ہے ، اخلاقی جرائم کی انتہا ہوچکی ہے ۔ ٹائم پاس گیمز اور فلموں،
ڈراموں، مجروں اور سکس ویڈیوز کے بازاروں میں انبار لگے ہیں اور بہت کم
قیمت پر دستیاب ہیں،یہ فلمیں اور گیمز ملت کے بچوں اور نوجوانوں پر کیسا
منفی اثر ڈالتی ہوں گی کیا کبھی کسی نے یہ سوچا؟
یہ ٹی وی چینلز بچوں کو تفریح کے نام پر کیا کچھ دکھاتے اور سکھاتے ہیں اس
کا اندازہ صرف ٹی وی پر کارٹون نیٹ ورک سے لگایا جا سکتا ہے جس کی نشریات
خصوصاً بچوں کے لئے ہوتی ہیں ان میں مقصدیت اور حقیقت سے دور طلسماتی
کہانیوں میں ماورائی مخلوق کی تصویر کشی کے ساتھ ساتھ ہیرو ہیروئن کی
داستانیں بھی موجود ہوتی ہیں۔ یہ داستانیں بھی اسی طرح فحاشی اور تشدد سے
بھرپور ہوتی ہیں۔ شارٹ لباس، حیاء باختگی، بیہودہ گفتارتاکہ بچے اپنے بچپن
سے ہی ان چیزوں کے عادی ہو جائیں۔ جس طرح بڑوں کے کردار و اخلاق کو تباہ
کرنے کے لئے فلمیں بنائی جاتی ہیں اسی طرح اب وہی یلغار معصوم بچوں سے
سٹارٹ ہوتی ہے تاکہ وہ ننگے اخلاق کے ساتھ معاشرہ میں قدم رکھیں۔
اب توہمارے معاشرہ کا یہ حال ہو گیا ہے کہ دودھ پیتے بچوں کو بھی مائیں ٹی
وی کے سامنے لٹا کر خود اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہیں کہ بچہ روئے
نہیں، ہمیں تنگ نہ کرے ٹی وی میں جی لگا لے، سکرین سے معزوز ہو، سکرین سے
لطف لے اور بت بینی میں مگن ہو جائے۔اُف! خدارا کچھ تو ہوش کے ناخن لیں دل
بہلانے کے لئے آپ اپنے بچوں کو کس آگ میں دھکیل رہے ہیں جس کے شعلوں میں
پوری دنیا جھلس جاتی ہے ۔ کچھ اس سے ہی سبق حاصل کرلیں کہ پیدا ہوتے ہی بچے
کے کان میں اذان کیوں دی جاتی ہے تاکہ بچے کے معصوم ذہن میں اللہ تعالیٰ کی
عظمت و سربلندی کا رعب بیٹھ جائے اور نماز کی منادی دی جائے ، فلاح و نجات
کا راستہ اس کے معصوم ذہن میں نقش ہو جائے۔ بچے شروع سے جو سنتے ہیں ، جو
دیکھتے ہیں ساری زندگی اسی پہ چلتے ہیں۔ہم اپنے بچوں کو شروع سے کیا سنا
رہے ہیں اور کیا دیکھا رہے ہیں؟ کس طرح کا کلچر ، کس طرح کا لباس، کس طرح
کی گفتار ان کے معصوم دل و دماغ میں نقش کر رہے ہیں؟ آج ہم گلی محلہ میں
دیکھتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے بچے نہایت اخلاق باختہ ، عشق و مستی کے گانوں کی
سُر لگا رہے ہوتے ہیں، کئی قسم کے ڈئیلاگ اور جگتیں مار رہے ہوتے ہیں۔ یہ
ٹی وی، کیبل نیٹ ورک اور موسیقی ڈرامہ و فلم سازی کا ہی تو کمال ہے کہ جو
بچے ابھی کلمہ و نماز تو ٹھیک سے پڑھ نہیں سکتے مگر وہ ہر طرح کے گانوں کی
دھنیں اور سُریں لگا سکتے ہیں، وہ طرح طرح کے ڈئیلاگ اور جگتیں مار سکتے
ہیں۔
آج کے دور کی نئی عفریت سمارٹ موبائل فون سے تو قوم پر اور بھی زیادہ گہرا
اور برا اثر مرتب ہو رہا ہے۔ موبائل کمپنیوں کی طرف سے صارفین کے لئے نت
نئے اور دل کش پیکجز کی آفر کے ساتھ فحش و عریاں دلکش تصاویر کو دیکھ کر تو
نہ چاہنے والا بھی موبائل فون کو استعمال کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے اور
یہیں ان موبائل کمپنیوں کی چال ہوتی ہے کہ جس سے ان کے نیٹ ورک اور موبائلز
زیادہ سے زیادہ صارفین استعمال کر یں۔مگر ان پیکجز سے ہماری نوجوان نسل پر
بہت برے اثرات پڑ رہے ہیں۔ جس شعبہ میں چلے جائیں لوگوں کی نظریں کام پہ کم
اور موبائل فون پہ زیادہ اڑی ہوتی ہیں۔ آپ چلتے پھرتے گلی بازاروں میں
دیکھیں،کسی محکمہ و کاروبار، دفاتر، سکول و کالج ، یونیورسٹی میں چلے جائیں
قوم کی نظریں موبائل سکرین پر جمی نظر آئیں گی۔ تعلیمی اداروں میں نوجوان
دوران لیکچر بھی ایس ایم ایس ، گیمز اور ویڈیو سے مستفید ہو رہے ہوتے ہیں۔
موبائل فون سے فحش بینی اور عریانی میں بھی غیرمعمولی حد تک اضافہ ہوا ہے۔
وحیات اور فحش قسم کی تصویریں اور ویڈیو کلپس سے معاشرہ تباہ ہورہا ہے، قوم
اخلاقی طور پر برباد ہو رہی ہے ۔ آج لوگوں کے تن پر تو کپڑا دیکھنے کو ملتا
ہے مگر من اور اخلاق سبھی لوگوں کا ننگا ہے۔
عصر حاضر میں جدید ٹیکنالوجی کا سہارا مل جانے کے بعد ثقافتی یلغار اور بھی
زیادہ خطرناک ہو چکی ہے۔ نوجوانوں کے قلوب و اذہان اور فکر و نظر تک رسائی
کے سینکڑوں اطلاعاتی راستے اور وسائل موجود ہیں۔ ٹی وی، ریڈیو اور کمپیوٹر
، سمارٹ موبائل فون سے انواع و اقسام کی رویشوں کا استعمال کیا جانے لگا ہے
اور نوجوانوں میں گوناگوں شکوک و شبہات پیدا کئے جا رہے ہیں۔ آج کل حقوق کے
محافظوں نے قوم پر ایک اور بھوت سوار کر دیا ہے پرائیوسی کا۔ کہ پرائیوسی
ہر بندے کا حق ہے ، یہی مغرب کی عیاری و مکاری ہے جیسے ہم سمجھ نہیں پا
رہے۔ یہ کچھ جاننے اور شعور رکھنے کے باوجود ہم درس عبرت نہیں لے رہے۔ یہ
صدیوں پرانی صہیونی و نصرائی چال ہے کہ وہ کسی قوم و تہذیب کو تباہ کرنے
کیلئے خاموش اور دراز مدت پالیسی اختیار کرتے ہیں اور وہ قوم بالکل نہیں
سمجھ پاتی کہ یہ ہمارے دوست ہیں یا دشمن۔
یورپیوں نے جب سرزمین اندلس کو مسلمانوں سے واپس لینے کا ارادہ کیا تو دراز
مدت پالیسی تیار کی۔ انہوں نے مسلم نوجوانوں کو گمراہ کرنا شروع کر دیا،
انہیں ہر طرح کی دنیاوی آسائش و لذت مہیا کی۔ ان کی نظریں گمراہ کرنے کیلئے
اپنی قوم کی بیٹیوں کے لباس شارٹ کر دئیے اور فاحشہ لڑکیوں کے جال میں
پھنسایا گیا تاکہ وہ شہوت و ہوس پرستی میں مبتلا ہو جائیں، ان کی نظروں کا
حیاء و پاکیزگی ختم ہو جائے۔ ایک اور کام یہ کیا گیا کہ انہوں نے کچھ
مقامات مخصوص کر دئیے جہاں نوجوانوں کو مفت شراب پلائی جاتی تھی اور نوجوان
لڑکیاں بغیر لباس کے ان کی لذت کیلئے میسر ہوتیں۔ صدیاں گزر جانے کے بعد آج
بھی وہ کسی قوم کو برباد کرنے والے اپنے اصلی طریقے سے ہٹے نہیں ہیں۔ آج
بھی وہ یہی سب کچھ کئی ذرائع اور بہت منظم انداز سے کر رہے ہیں اور مسلم
نوجوانوں کواپنا یرغمال بنا لیا ہے۔ یہ ان کی صدیوں پرانی اور آزمودہ حکمت
عملی ہے جس پر وہ آج بھی ہر طرح کی لغزش و آسائش کے ساتھ عمل پیرا ہیں۔
کلین شیو ، داڑھی منڈوانے کے تصور و عمل کو ہزاروں صدیاں بیت گئیں۔اسلام سے
پہلے یہ تصور و عمل یہود و نصاری ٰ میں موجود تھا۔اسلام کو تو ظہور پذیر
ہوئے ابھی صرف چودہ سوسال کا عرصہ بیتا ہے مگر اسلام کا تصور اور نبی کریم
ﷺ کی سنت اتنے عرصہ میں پرانی ہو گئی ہے جبکہ یہود ونصاریٰ کا عمل ہزاروں
صدیاں بیت جانے کے باوجود اب بھی نیا، جدید اور ماڈرن تصور کیا جاتا ہے وہ
ابھی تک پرانا نہیں ہوا۔ یہود و نصاریٰ کا یہ عمل ہماری نوجوان نسل کیا،
کثیر افرادِ امت حتیٰ کہ بوڑھوں کا بھی پسندیدہ ہے ۔ یقین نہ آئے تو گنتی
کر لیں تمامی افرادِ امت کی اور دیکھ لیں اسلام کے تصور اور نبی کریم ﷺ،
انبیاء ورسل و اولیاء کی سنت والے کتنے ہیں اور یہود و نصاریٰ کے عمل والے
کتنے؟شرم آنی چاہیے مسلمان کہلانے، اسلام پر مر مٹنے اور غلامی رسول ﷺ میں
موت بھی قبول ہے کے نعرے لگانے والوں کو۔تم رسول اللہ ﷺ کی غلامی میں ان کی
ایک سنت تو ڈارھی کی قبول نہیں کر رہے اور نعرہ ہے غلامی رسول میں موت بھی
قبول ہے۔واہ ! کیا کہنا تیری عقیدت کا؟
وائے قومے کشتہء تدبیر غیر
کار او تخریب خود تعمیر غیر
از حیاء بیگانہ پیران کہن
نوجوانان چوں زنان مشغول تن
در دل شان آرزوھا بی ثبات
مردہ زایند از بطون امہات
دختران او بزلف خود اسیر
شوخ چشم و خود نما و خردہ گیر
ساختہ پرداختہ دل باختہ
ابروان مثل دو تیغ باختہ
آہ قومی دل ز حق پرداختہ
مرد و مرگ خویش را نشناختہ
حکیم الامت حضرت علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے یہاں بہت حکمت بھری باتیں
ارشاد فرمائی ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ آج ہماری قوم غیروں کی تدابیر اور
اشاروں پہ چل رہی ہے، اس قوم کا کام فقط یہ رہ گیا ہے کہ وہ خود اپنی قوم
کی تخریب کاری کر کے غیروں کی تعمیر کر تاہے ۔ اب وہ زمانہ آگیا ہے کہ
پیران کہن قوم کے بزرگوں کی آنکھوں میں بھی حیا ء باقی نہیں رہا۔ اور قوم
کے نوجوان عورتوں کی طرح اپنے تن کو سنوارنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کے دلوں
میں آرزوئیں کچھ اور ہی ہیں۔ آج ماؤں کے بطن سے مردہ روحیں جنم لے رہی ہیں۔
قوم کی بیٹیاں اپنی زلف کی خود اسیر ہو چکی ہیں، ہر وقت اپنے آپ کو ہی
آئینے میں دیکھتی رہتی ہیں اور اپنے آپ کو ہی سنوارنے میں لگی رہتی ہیں۔ جو
گھر کی رونق تھیں، جو شرم و حیاء اور پاکیزگی کی علامت تھیں آج ان کا وجود
شیطان کی دو دھاری تلوار جیسا ہے جس کی نظر پڑتی ہے اسے زیر کر دیتی ہے۔آہ
! ہائے قوم! تو تو مر چکی ہے۔ تو بالکل مردہ حالت میں ہے۔ افسوس کہ ابھی
تجھے اپنی مرگ کا پتہ ہی نہیں چلا۔
ہمارا دکھ اور رونا صرف یہی نہیں کہ ہماری متاع لٹ گئی بلکہ ہمارا دکھ،
ہمارا رونا اور بھی زیادہ یہ ہے کہ متاع کارواں لٹ جانے کے بعد اس کے دل
میں احساس زیاں بھی باقی نہیں رہااور یہی ہماری سب سے بڑی بد نصیبی و کم
بختی ہے۔ مال و متاع لٹ جائے تو پھر سے اکٹھا کیا جا سکتا ہے مگر جب احساس
ہی ختم ہو جائے تو قوموں کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا یقینی ہوتا ہے۔ آج قوم
انتشار و افتراق کا شکار ہے اور قوم کو منتشر کرنے والے عقل کے اندھے تفرقہ
پرست علماء و سیاستدان خوشی سے بغلیں بجا رہے ہیں کہ ہم نے لوگوں کی کثیر
تعداد اپنے اپنے مسلک ، عقیدے اور ایجنڈے پر جمع کر دی ہے اور انہیں بانٹ
کر، ان کے ذہنوں میں تفرقہ ڈال کر ایک دوسرے کے مد مقابل لا کھڑا کیا ہے۔
انہیں نہ کوئی دین و ملت کا احساس ہے نہ کوئی فکر۔ہاں فکر ہے تو صرف اپنی
دنیا بنانے کی ، دین و ملت کی دنیا میں رفعت و سربلندی کی نہیں۔ آج پوری
قوم تناؤ اور الجھاؤ کا شکار ہے اور وہ اپنے مشترکہ مفاد کیلئے نہیں لڑتی
بلکہ چند مخصوص ٹولوں، لابیوں کے مفاد کیلئے لڑتی اور مرتی ہے ۔ اپنے ذاتی
نہیں کسی کے مفاد کیلئے آپس میں دست و گریباں ہے۔ جب کارواں اور قافلے کے
اپنے لوگ ہی قاتلوں کے بھیس میں ہوں تو پھر محافظوں اور قاتلوں کا فرق مٹ
جاتا ہے۔جب چور اور چوکیدار میں شناخت ممکن نہ رہے تو پھر کارواں کو لٹنے
سے کون روک سکتا ہے؟
آج قوم کی مثال آدھے پروں والے پرندوں کی سی ہے جب کوئی اٹھنے اور کچھ
تدابیر کرنے کی کوشش کرتا ہے تو بڑے اس کا شکار کر لیتے ہیں۔ علامہ اقبال
علیہ الرحمہ نے کہا تھا کہ آدھے پروں والا پرندہ جب بھی اڑنے کی کوشش کرتا
ہے تو بلی اسے شکار کر لیتی ہے۔آج ہمارے بڑوں، ڈویروں اور راہبروں نے پوری
قوم کو آدھے پروں والا پرندہ بنا دیا ہے۔جب کوئی اڑنے کی کوشش کرتے ہیں
توکئی بلیاں ہمیں دبوچ لیتی ہیں۔ آج قوم رات کی سیاہی میں ہی نہیں دن کے
اجالوں میں بھی لٹ رہی ہے، قتل ہو رہی ہے، اس کے مفادات پہ ڈاکہ پڑ رہا ہے،
اسے حقوق کو دبوچا جا رہاہے۔ قوم کی حیثیت اب سمندر کی تہہ میں موجود ان
کیکڑوں سے مختلف نہیں جو صرف بڑی مچھلیوں کی خوراک بننے کے لئے زندہ ہوتے
ہیں۔
آج قوم کو بدیانت و خود غرض حکمران، کرپٹ انتظامیہ،جھگڑالو اور تفرقہ پرست
علماء و رہبر میسر ہیں جو خود غرض ہیں، صرف اور صرف اپنا مفاد دیکھتے ہیں،
اپنا فروغ دیکھتے ہیں۔ اپنے حقوق اور مفاد کے تحفظ کیلئے قوم کو آپس میں
لڑاتے ہیں۔ یہ صرف دنیا میں اپنا نام، شناخت اور وقار بنانا چاہتے ہیں ملت
کا نہیں۔نتیجتاً آج بڑوں کے یہ وصف پوری قوم میں نمایاں نظر آتے ہیں کہ قوم
مجموعی طور پر پیٹ پرست ہے، کوئی اپنے مفاد سے آگے دیکھنے کو تیار نہیں۔ آج
پوری قوم مجموعی طور پر بدیانت، خود غرض، بد عنوان و کرپٹ، مفاد پرست نظر
آتی ہے اور یہ قانون قدرت کا دستور ہے کہ بڑوں کے وصف چھوٹوں میں منتقل
ہوتے ہیں اور حکمرانوں کے وصف رعایا و عوام میں گردش کرتے ہیں۔ استادوں اور
راہبروں کے وصف شاگردوں میں،جرنیل و سپہ سالار کے وصف اس کی افواج میں
دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ظاہر ہے اولی الامرجو کریں گے تابع بھی وہی کچھ کر کے
دیکھائیں گے۔ اگر حکمران و رہبر، اولی الامر دیانتدار و راست باز ہو ں گے
تو یقیناًعوام الناس بھی اس کی کچھ دیکھائی دے گی۔ اگر کسی فوج کا سپہ
سالار دلیر، بہادر اور دیانتدار ہو گا تو اس کا وصف پوری افواج میں دیکھنے
کو ملے گا۔ اگر اولی الامر عیار و مکار، دغا باز، بد عنوان اور کرپٹ ہو ں
گے تو عوام ان سے کوسوں آگے ہوں گے جیسا کہ آج کا منظر نامہ اس کی عکاسی
کرتا ہے۔
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں اسلامی افواج
ایک معرکہ سے فاتح و کامران واپس لوٹیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو مبارک
باد دی اور آپ کے سامنے مال غنیمت کے انبار لگا دئیے ۔ کسی سپاہی نے ایک
پائی خیانت نہیں کی تو سب دیکھ کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں
آنسو آ گئے ۔ حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے دریافت کیا حضور! یہ آنسو
کیسے ؟ آپ نے فرمایا اے علی!میں جو سب کچھ دیکھ رہا ہوں یہ اس پر خوشی کے
آنسو ہیں۔ تو وہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک ایسا تاریخی جملہ کہا جو
آج بھی سنہرے حروف میں جگمگا رہا ہے فرمایا ’’یہ سپاہیوں کی دیانت داری کا
کرشمہ نہیں بلکہ آپ کی دیانت داری کا کرشمہ ہے۔ آپ اگر دیانت دار نہ ہوتے
تو سپاہیوں میں کبھی یہ وصف پیدا نہیں ہو سکتا تھا‘‘۔
یہاں مجھے ایک انگریز مورخ ’’ نپولین‘‘ کی بات یاد آئی جس نے کہا تھا کہ’’
اگرسو کتے اکٹھے کر لیے جائیں اور ان کی قیادت ایک شیر کے ہاتھ دی جائے تو
سارے شیر کی طرح لڑیں گے، اس کے برعکس اگر سو شیر اکٹھے کر لیے جائیں اور
ان کی قیادت ایک کتے کے ہاتھ دے دی جائے تو سارے کتے کی موت مریں گے۔‘‘
یہ حقیقت ہے اگر سپہ سالار شیر اور بہادر نہیں ہو گا تو آپ کو افواج میں
بھی یہ وصف نظر نہیں آئے گا۔ اگر کسی حکمران میں یہ وصف نہیں ہو گا تو عوام
میں بھی نہیں ہوگا۔اگر حکمران اور وڈیرے کرپٹ ہو ں گے تو عوام میں بھی آپ
کوہر سو نظر آئیں۔ اگر حکمران اور وڈیرے بد عنوان، بد دیانت ہوں گے تو عوام
میں بھی نظر پڑھیں گے ۔ اگر حکمران سچے، دیانتدار اور راست باز نہیں ہوں گے
تو عوام میں بھی یہ وصف دیکھنے کو نہیں ملے گا جیسا کہ آج ہم اپنے معاشرہ
میں مجموعی طور پر دیکھ رہے ہیں۔آج ہماری قوم اور افواج کی مثال بعینہ اسی
طرح ہے کہ شیروں کی قیادت کئی کتے کر رہے ہیں، بہادر و باہمت قوم کی قیادت
بزدلوں کے ہاتھوں میں ہے اور نتیجتاً پوری قوم ، پوری ملت اسلامیہ کتوں کی
طرح مر رہی ہے اور در در کی جھرکیں سہ رہی ہے۔ ذلت و رسوائی، خواری و
ناداری اسے سبھی اطراف سے چمٹی ہوئی ہے۔
ان پر آشوب اور خطرناک حالات میں نوجوانوں سے ملتمس ہوں کہ خدارا! ہوس کے
ناخن لیں،خدارا! رسول اللہ ﷺ کی امت کا احساس کریں، دین و ملت کی فکرو سوچ
کو اپنے قلوب و اذہان میں جگہ دیں اور رسول اللہ ﷺ کے سچے جانثار اور مجاہد
بنیں، آپ رسول اللہ ﷺ کے چمن دین کے مالی اور گلشن ملت کے محافظ ہیں۔ آپ
رسول اللہ ﷺ کے گلشن دین و ملت کی رکھوالی و پاسبانی نہیں کریں گے اور کون
آ کر کرے گا؟ آپ گلشن کے مالی کی طرح چمن پر نظر نہیں رکھیں گے تو اور کون
رکھے گا؟ آپ گلشن چمنستان رسالت کے ننھے پھول ہیں اور گلشن ہمیشہ ننھے
پھولوں کے کھلنے سے ہی خوبصورت اور معطر ہو تا ہے، ننھے پھول ہی کھل کر چمن
میں حقیقی نکھار پیدا کرتے ہیں۔اگر آپ اپنے کردار و عمل سے کھل کر رسول
اللہ ﷺ کے چمن میں نکھار نہیں لائیں گے تو اور کون لائے گا؟ آپ پھول کی
پتیوں کی طرح اپنے پَر نہیں پھیلا ئیں گے اور کون پھیلائے گا؟کبھی کسی گلشن
میں جا کر ننھے پرندوں کو دیکھاکہ وہ سب سے زیادہ آوازیں لگاتے ہیں، خوب
چہچہاتے اور شورو غل کرتے ہیں، چمن میں ہر وقت اڑتے پھرتے ہیں، چمن کے گوشہ
گوشہ پر نظر رکھتے ہیں، جہاں کہیں کوئی غیر معمولی اور خلاف فطرت چیز
دیکھیں تو سارے اس کے گرد اکٹھے ہو کر خوب شور مچاتے ہیں تاکہ ان کے شور سے
اور پرندے بھی جاگ جائیں اور ہوشیار ہو جائیں یہاں کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا
ہے۔
میرے بھائیو!کچھ اس ہی سبق عبرت حاصل کرو۔ آپ گلشن رسالت مآب ﷺ کے ننھے
پرندے ہیں۔ آپ نے رسول اللہ ﷺ کے گلشن ملت میں کچھ برا ہوتے دیکھ کر خوب
آوازیں لگانی ہیں، آپ نے زیادہ شور مچا کر سب کو خبردار و ہوشیار کرنا ہے،
سب کو جگانا ہے۔ اگر آپ یہ سب نہیں کریں گے اور کون کرے گا؟ ہمیشہ چمن کے
ننھے پودے ہی بڑھ کر چمن پہ سایہ فگن ہوتے ہیں اور گھنے ہو کر سب کو دھوپ
کی تپش سے بچاؤ کیلئے سایہ فراہم کرتے ہیں۔ بڑے اور تن آور درخت خزاں رسید
ہو چکے ہیں، ان کا سایہ گھنا نہیں رہا ہے۔ ان بڑوں میں کچھ اپنے تن پر کھڑے
تو نظر آتے ہیں مگر ان میں وہ حرارت باقی نہیں رہی جو آپ کے سینہ و وجود
میں ہے ، جو آپ کے جوش و ولولہ میں ہے۔ ہرا بھرالہلاہاتہ چمن جب خزاں کی
نظر ہو جائے تو اسے پھرسے ہرا بھرا ہونے کیلئے مالی کی سخت محنت و جانفشانی
اور وافر مقدار میں پانی کی ضرورت پڑتی ہے اور گلشن ملت کو وہ پانی آپ نے
اپنے خون و پسینہ سے مہیا کرنا ہے۔ گلشن ملت میں پھر سے نکھار لانے کیلئے
آپ ملت کے نوجوانوں کی سخت محنت و جانفشانی درکار ہے۔
میں نے تاریخی پس منظر آپ کے سامنے رکھا کہ نوجوان نسل ہی کسی قوم و مذہب
کا سب سے قیمتی متاع اور گراں قدر سرمایہ ہوتی ہے جو قوموں کے حقیقی مشن کو
لے کر آگے بڑھتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے دین و مشن کا سب سے قیمتی متاع اور بیش
قیمت و گراں قدر سرمایہ آپ ہیں۔ آپ نے رسول اللہ ﷺ کے حقیقی مشن کو لے کر
آگے بڑھنا ہے اور دنیا میں سربلند کرنا ہے اورپوری ملت اسلامیہ کو عزت و
وقار عطا کرنا ہے تاکہ وہ دنیا میں چین و امن سے رہ سکیں اور سر اٹھا کر
اپنی زندگیاں بسر کریں اور یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ آؤ ! ہم ملت کے سب نوجواں
مل کر یہ عہد کریں کہ
خونِ دل دے کے نکھاریں گے رخ برگِ گلاب
ہم نے اس گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
|