پیپلز پارٹی نے حکومت کے خلاف ٹرین مارچ کا آغاز کر
دیا،یہ’’کاروانِ بھٹو‘‘بلاول بھٹو کی قیادت میں کراچی سے شروع کیا گیا
ہے۔ابھی یہ کارواں ہے مارچ نہیں ،یہ پیپلز پارٹی ہے،اس کے جیالوں کا انداز
ہی اور ہے ،یہ خون سے نہانے کو فخر محسوس کرتے ہیں۔اگر حکومت نے انہیں
دوسری سیاسی پارٹیوں کی طرح سمجھا ، تویہ ان کی بیوقوفی ہو گی ۔اس ٹرین
کارواں کی بہت سی وجوہات ہیں ۔یہ بلاول بھٹو کی قیادت میں پہلی بڑی مومنٹ
ہے ،جس میں وہ پہلے ہی آدھے کامیاب ہو چکے ہیں۔ابھی پیپلز پارٹی نے کارواں
کا عندیہ ہی دیا تھا ،تو وزراء اور خود وزیر اعظم پیپلز پارٹی اور بلاول
بھٹو کا نام لے کر بیانات دینا شروع ہو گئے تھے ۔جو اخبار کی شہ سرخیاں
بنائی گئی ۔حکومتی بوکھلاہٹ سمجھ میں آتی ہے ،کیونکہ جو حکومت اس طرح
متنازعہ انتخابات کے نتیجے میں قائم کی گئی ہو،اسے اپنے امپائر پر پورا
اعتماد ہوتا ہے ،جس کا اظہار عمران خان بار ہا کر چکے ہیں،مگر پھر بلاول کا
اس حکومت کے خلاف ٹرین کارواں شروع کر لینا،لاڈلے کے لئے پریشانی کا باعث
تو ہے،یہ تو ہونا تھا،مگر اتنی جلدی ہو گا کسی کو اندازہ نہ تھا۔خیر حکومت
کے شروع دنوں میں میاں نواز شریف نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مولانا
فضل الرحمٰن کو سمجھاتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو چلنے دو یہ
خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارے گی ۔کیونکہ پی ٹی آئی کی ترجیح عوامی
مسائل سے ہٹ کر سیاسی انتقام کی جانب ہو گئی،یہاں سے یہ غلط راستہ اختیار
کر گئے ۔اب وہ آٹھ ماہ میں ہی جو بویاتھا، اسے کاٹنے کے دھانے پر آ کھڑے
ہوئے ہیں ۔حکومت کے خلاف سیاست کا آغاز ہو چکا ہے ۔پی ٹی آئی کا مقابلہ
منجھے ہوئے سیاسی لوگوں سے پڑا ہے ۔پیپلز پارٹی کے پاس جیالے ہیں ،جو کسی
سیاسی پارٹی کے پاس نہیں ہیں ۔یہ کارواں شروع ہوا ہے ،یہ بڑھتے بڑھتے تحریک
کی شکل اختیار کر جائے گا۔اگر حکومت کی لائحہ عمل درست طرز کا ہوا تو تحریک
کمزور ہو سکتی ہے اور اگر حالات بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری کے پیشی
والے کئے گئے ،تو بہت جلد بڑی تحریک بنے گی ۔مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے تو
پی ٹی آئی کی تحریک کو برداشت کر لیا تھا ، مگر پی ٹی آئی کی صلاحیتوں سے
سب واقف ہیں ۔ان سے یہ سمبھالنا مشکل ہو جائے گا۔بلاول بھٹو کا کارواں ختم
ہوا،لیکن یہ پیپلز پارٹی کی کامیاب مومنت رہی ۔
بلاول بھٹو نے نیب کی کارکردگی اوردہشتگرد تنظیموں پر بات کی ۔کالعدم
تنظیموں کا موضوع اسٹیبلشمنٹ کے لئے بہت حساس معاملہ ہے ۔حالانکہ ہندوستان
کبھی ان تنظیموں کے خلاف کچھ ثابت نہیں کر سکا،مگر پاکستان نے عالمی دباؤ
میں کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کی ہے ،یہ حقیقت میں کارروائیاں تھی
یا دکھاوے کی یہ علیحدہ بحث ہے ۔لیکن ملک کے اندر بھی حکومت اس موضوع پر
یکسو نظر نہیں آتی ہے ۔کالعدم تنظیموں کے مسئلے پر بے یقینی اور الجھاؤکی
کیفیت نظر آتی ہے ۔بہت کچھ پوشیدہ رکھا جا رہا ہے۔پیپلز پارٹی نے اس موقع
پر حساس مسئلے کو چھیڑا ہے ۔جس کی جرأت کوئی نہیں کرسکتا ،اب اسے مودی کی
زبان کہیں یا بھارت کا اشارہ ،مگر حقیقت سامنے آنا تو عوام کا حق ہے ۔کون
ہے ،جو ریاست میں ریاست بنانے کے حق میں ہے ،بار بار ان تنظیموں کو اپنے
مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ،پھر یہی پاکستان کی بدنامی کا باعث بھی
بنتی ہیں ۔ان تنظیموں کی وجہ سے پاکستان کو بربادی کے اس دہانے پر کھڑا
ہونا پڑا ہے ،جہاں سے واپسی ممکن نظر نہیں آرہی۔حالانکہ پاکستان میں بہت سی
ایسی تنظیمیں ہیں جو فلاح انسانیت کے لئے بھر پور کردار ادا کرتیں ہیں ،کروڑوں
غریب بچوں کا سہارا ہیں ،جو ریاست کی ذمہ داری تھی وہ یہ تنظیمیں نبھانے کی
کوشش کر رہیں ہیں،مگر چند ایک تنظیموں کی وجہ سے بہت سے غریب بچوں کا برا
بھی ہو سکتا ہے ۔
انہیں خدشات کی بنیاد پر بلاول بھٹو نے اس ایشو کو اٹھاتے ہوئے ،ان تین
وزراء کا نام لیا ہے ،جن کے ان جہادیوں کے ساتھ واضح تعلقات ہیں ۔ان وزراء
کو وزارت سے نکالنے کی مانگ کوئی غلط نہیں ۔جمہوریت میں اظہار رائے پر
تنقید برائے تنقید کی روایت درست نہیں ،پی ٹی آئی دوسروں پر جھوٹ سچ تنقید
کرنا پسند کرتی ہے ،زیادہ تر انہیں جھوٹی تنقید پر شرمندگی کا سامنا کرنا
بھی پڑتا ہے،جیسے میاں شہباز شریف نے عمران خان پر ہتک عزت کا دعویٰ کر
رکھا ہے ،جس کا عمران خان کی جانب سے جواب نہیں آیا۔احسن اقبال نے مراد
سعید کو لیگل نوٹس بھی بھیج دیا ہے،انہوں نے ملتان موٹر وے کی تعمیر کے
دوران اقبال احسن پر رشوت لینے کا الزام لگایاتھا،مگر ان لیگل نوٹسسز کا
کسی کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔پاکستان کی سیاست میں بس یہی کچھ رہ گیا ہے ۔عوامی
مسائل کسی کی بھی ترجیح میں شامل نہیں اور لوگوں کے مسائل ہیں جو دن بدن
بڑھتے جا رہے ہیں۔
پاکستان میں مختلف ادوار میں سیاسی پارٹیوں نے غربت مٹاؤ نعرے کا اعلان بہت
بار لگایا،ایسا ہی دعویٰ عمران خان نے کنٹینر سے شروع کیا۔آج بھی ہر تقریر
میں غربت مٹانے کی بات کرتے ہیں ،لیکن عملی کام کوئی نہیں کرتے ۔اقوام متحد
کے طے کردہ پائیدار ترقیاتی اہداف میں پہلا ہدف دنیا بھر سے غربت کا خاتمہ
ہے ،تاہم اب تک یہ ہدف اپنی تکمیل سے کوسوں دور ہے ۔پاکستان میں آج بھی
غریب کی ساری زندگی روٹی،کپڑا اور مکان کی کوششوں میں گزر جاتی ہے ۔
پیپلز پارٹی نے پہلے بھی عوام کے ساتھ روٹی ،کپڑا اور مکان کا وعدہ کیا
تھا،جو پورا نہیں کیا گیا۔وہی نعرہ بلاول بھٹو لے کر چلے ہیں ، عوام ان پر
کیوں کر یقین کرے ؟عمران خان نے بھی ذولفقار علی بھٹو کی تقلید کرتے ہوئے
دوسرے انداز میں غربت مٹاؤ کا نعرہ لگایا،50لاکھ نوکریاں اور ایک کروڑ گھر
بنانے کا وعدہ کہیں نظر نہیں آ رہا،کنٹینر پر بلند و بانگ دعوے اور وعدے
،مگر اقتدار میں آتے ہی عوام سے ایسے دور ہوئے جیسے ان کا کبھی کوئی عوام
سے تعلق تھا اور نہ ہی کبھی بعد میں پڑنا ہے ۔
قوتوں کی غلط پالیسیوں نے ہم سے ہماری زبان اور تہذیب چھین لی ہے ،اگر کسی
قوم سے یہ دونوں چیزیں چھین لی جائیں تو وہ خود ہی دوسری قوموں کی غلام بن
جاتی ہے۔آج دیکھ لیں مغربی دنیا نے ہمیں غلام بنا رکھا ہے ،آئی ایم
ایف،مارکیٹ اکانومی،شیئر مارکیٹ اور بینکنگ وغیرہ اس جال میں ہم دہائیوں سے
پھنسے پڑے ہیں ۔مفادات اور خواہشات کے گرد طواف کرنے والا یہ عالمی نظام
اخلاقیات سے دوری ،مذہب سے بے زاری اور بہترین تہذیب و تمدن کا شیرازہ منشر
کرنے کا جس اندز میں سبب بن رہا ہے ،وہ کسی بھی حساس شخص کی نظر سے مخفی
نہیں ہے ۔ہم جو اپنا سب کچھ گروی رکھ کر خود کو با افتخار سمجھ رہے ہیں ۔
کچھ عرصے سے جو ہم پر نفرت،تنگ نظری اور تعصب کی جو آندھی چھائی ہے ،اسی نے
ہمارا برا حال کر رکھا ہے ،یہ وہ ’’نیا پاکستان ‘‘ہے جو سامانِ فکر بن گیا
ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ اس ماحول کے کہیں نہ کہیں ہم سب ذمہ دار ہیں ،ہم سے
مظالم کو سہنے اور گھروں یں بیٹھ کر اپنی قسمت پر آنسو بہانے کا جرم بار
بار ہوا ہے ،عوام طاقت کا معیار آہستہ آہستہ تحلیل ہو کر رہ گیا ہے ،کیا ہم
واقعی کیڑے مکوڑے ہیں یا ہم مر چکے ہیں،جو آئے روز ذلتوں کو خوشی سے سہ رہے
ہیں اور احتجاج تک نہیں کر سکتے ۔تبدیلی لانے کے لئے زیادہ نہیں چند روشن
دماغ ،اولوالعزم اور صاحب بصیرت افراد کی ضرورت ہوتی ہے ۔زندہ قوم وہ ہوتی
ہے جو اپنے حقوق لینے کے لئے جدوجہد کرتی ہے ،مگر یہاں جدوجہد کا عنصر ختم
ہو کر رہ گیا ہے ، ہم نے مان لیا ہے کہ عوام پر حکومت کرنے والوں کو عوام
کی نہیں کسی امپائر کی ضرورت ہوتی ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام کو ہمیشہ بیوقوف بنایا جاتا رہا ہے ، لیکن اس
میں سارا قصور بیوقوف بنانے والوں کا نہیں بلکہ خود عوام کا بھی ہے جو
بیوقوف بنتی ہے ۔میاں نواز شریف کوضمانت مل گئی ،میاں شہباز شریف بھی بیرون
ملک جانے کی اجازت بھی حاصل کر چکے ۔یہ وہ قد آور لیڈران ہے ،جن کی زندگی
میں بہت سے ایسے مواقع آئے ،جب لگتا تھا کہ یہ زندگی کی بازی ہار جائیں
گے،لیکن بار بار یہ بچ جاتے ہیں ۔بلاول بھٹو اور میاں نواز شریف کا جیل سے
نکلنا ملکی سیاست میں تبدیلی لے کر آنے کی نشان دہی کرتا ہے ۔لیکن عوام کو
یہ جان لینا چاہیے کہ اب من حیث القوم انہیں اپنی طاقت منوانے کی جدوجہد کا
آغاز کر لینا چاہیے،اس کے لئے انہیں متحد ہونا پڑے گا، ورنہ ’’کنگ
میکر‘‘عوام کا خون چوستے رہیں گے اور آپ ایک مردہ قوم کہلاؤ گے ۔ |