اس دور پرفتن میں جبکہ وزیراعظم اور انسانی وسائل کے وزیر
کی ڈگری تک جعلی نظر آتی ہے منوہر پریکر آئی آئی ٹی سے معدنیات کے شعبے
میں فارغ التحصیل ہونے والے پہلے رکن اسمبلی تھے۔ دس لاکھ کا کوٹ پہننے
والے وزیراعظم کے لیے یہ کہنا بہت آسان ہے کہ ’ہم تو فقیر آدمی ہیں ،
اپنا جھولا اٹھائیں گے اور چلے جائیں گے‘ لیکن وزیردفاع کا قلمدان سنبھالنے
کے بعد ہاف شرٹ اور چپل میں سرخ قالین پر فوج سے سلامی لیناواقعی مشکل کام
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے اپنے تعزیتی پیغام میں
لکھا کہ لوگ پریکر کو سادگی اور ایمانداری کے لیے جانتے تھے ۔ اس میں کوئی
شک نہیں کہ منوہر پریکر اپنی سادگی اور ایمانداری میں دیگر سیاسی رہنماوں
سے ممتاز تھے ۔ صدر مملکت رام ناتھ کووند نے ان کی موت پر افسوس جتاتے ہوئے
کہا کہ ’ وہ عوامی زندگی میں ایثار اورایمانداری کا نمونہ تھے‘۔ موجودہ
سیاسی ماحول میں دیانتداری و قربانی ناپید ہیں ۔ مودی جیسے لوگوں کی عیش و
طرب سے پُرطرز حیات نے قوم کے تئیں ایثارو قربانی کے الفاظ کو بے معنیٰ کر
کے رکھ دیا ہے ۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ منوہر پریکر نے اسی گوا میں وزیراعلیٰ کی حیثیت سے
آخری سانس لی جہاں سے نوٹ بندی کے بعد جھولا اٹھانے اور چوراہے پر پھانسی
دینے کا اعلان کیا گیاتھا۔ وزیراعظم نریندر مودی کو وزیراعظم کا امیدوار
بھی اسی صوبے میں نامزد کیا گیا تھا اور ان کا نام پیش کرنے کی سعادت بھی
منوہر پریکر کے حصے میں آئی تھی۔ پریکر کے انتقال پر اپنے تعزیتی پیغام
میں وزیراعظم نے لکھا وہ سچے محب وطن اور غیر معمولی منتظم تھے ۔ ان کی
قومی خدمات کو یاد کیا جائے گا۔ ہندوستان کے وزیردفاع کی حیثیت سے ان کی
مدت کار کے لیے ملک منوہر پریکر کا ہمیشہ شکر گزار رہے گا ۔ جب وہ وزیردفاع
تھے تو ہندوستان نے کئی فیصلوں کو دیکھا ، جس نے ہندوستان کی دفاعی صلاحیت
میں اضافہ کیا ، اندرون ملک دفاعی پیداوار کو بڑھایااور سبکدوش فوجیوں کی
زندگی کو بہتر بنایا ‘‘۔ اس پیغام میں رافیل سودے کی جانب خفیف اشارہ ہے
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پریکر سمیت وزارت دفاع کو اس سے الگ کردیا گیا تھا۔ ان
کے حق میں یہ اقدام بہتر ثابت ہوا ورنہ بلاوجہ کی بدنام ہاتھ آتی ۔
اکیسویں صدی میں سر زمین ہندپر اب تک کا سب سے بڑا گھپلا یعنی رافیل کا
سودہ اس وقت ہوا جب منوہر پریکر وزیر دفاع تھے اس کے باوجود کسی نے ان کی
جانب انگشت نمائی نہیں کی ۔ بجا طور پر اس بدعنوانی کا الزام وزیراعظم پر
لگا اور نام نہادچوکیدار چور کہلایا۔ ابھی حال میں یہ انکشاف ہوا کہ ۲۴
نومبر ۲۰۱۵ کو وزارت دفاع نے ایک نہایت واضح نوٹ میں وزیراعظم دفترکے خلاف
اپنا احتجاج درج کروایا تھا۔ انہوں لکھا تھا کہ اس سودے سے متعلق وزیراعظم
کے دفتر سے ہونے والی متوازی گفتگو نے وزارت دفاع اور ہندوستانی وفد کے مول
بھاو کی پیش رفت کو کمزور کردیا ہے۔ اس نوٹ میں وزیراعظم کے دفتر کو تاکید
کی گئی تھی کہ اس کا کوئی افسر جو ہندوستانی ٹیم کا رکن نہیں ہے حکومت
فرانس کے افسران سے متوازی گفت و شنید نہ کرے۔ وزارت دفاع کی اس اہم تاکید
کو نظر انداز کیا گیا کیونکہ سرکاری کمپنی ایچ اے ایل کو درکنار کرکے انل
امبانی کو اس سودے میں شامل کرنا تھا ۔ وہی انل امبانی جس کو جیل جانے سے
بچانے کے لیے اس کے بھائی مکیش امبانی کو اپنی قدیم مخاصمت بھلا کر آگے
آنا پڑا۔ سچ تو یہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کے دامن پر رافیل بدعنوانی
کا ایسا بدنما داغ لگا ہے کہ انہیں ایک ایماندار وزیراعظم کی حیثیت کوئی
نہیں یاد کرسکےگا۔
وزیراعظم نے منوہر پاریکر کو بے مثال منتظم قرار دیا لیکن پھرسوال یہ ہے ان
کی اس صلاحیت کو قومی سطح پر استعمال کرنے کے بجائے گوا جیسی ننھی ریاست کی
صوبائی حکومت کو بچانے کے لیے کیوں جھونک دیا گیا ۔ وہ پارٹی کے ایک وفادار
سپاہی تھے اس لیے بلا چوں و چرا جھولا اٹھا کر چلے گئے۔ ان کو وزیراعلیٰ کے
عہدے سے ترقی دے کر مرکز میں لاکروزارت دفاع کا اہم قلمدان سونپا گیا
تھالیکن گوا میں بی جے پی کی اقلیتی حکومت کوقائم کرنے کے لیے انہیں واپس
پنجی بھیج دیا گیا۔ کیا یہ پارٹی کے فائدے کو قومی مفاد پر فوقیت دینا نہیں
ہے؟ انہیں گوا روانہ کر کےمودی جی نے رافیل کے معاملے میں حفظ ماتقدم کے
طور پر ایک خطرہ ٹال دیا۔ رافیل تنازع میں وزیردفاع نرملا سیتا رمن کی طرح
کذب گوئی کم ازکم منوہر پاریکر کے بس کی بات نہیں تھی ۔ موجودہ سیاست میں
بدعنوانی کے علاوہ اقرباء پروری کا بول بالا ہے ۔ امیت شاہ اور اجیت دوبھال
جیسے لوگوں پر یہ دونوں داغ نمایاں ہیں لیکن منوہر پریکر کے دونوں بیٹے
سیاست سے دور ہی رہے۔ اس طرح سیاست کے تالاب میں تیرنے کے باوجود اس کی
معروف کثافتوں سے اپنا دامن بچا کر منوہر پاریکر جہان فانی سے کوچ کرگئے۔
اپنی موت سے ڈیڑھ ماہ قبل عالمی یوم کینسر کے موقع پر پریکر نے درست کہا
تھا کہ انسانی دماغ کسی بھی بیماری پر جیت حاصل کر سکتا ہےلیکن موت کوئی
بیماری نہیں ایک اٹل حقیقت ہے۔ ہر فرد بشر کو اس کا سامنا کرنا ہے بقول شوق
لکھنوی ؎
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج و ہ ،کل ہماری باری ہے
|