’’اﷲ تعالیٰ نے ہم سب کو مسلمان بنایا ہے،دین محنت سے آتا
ہے اور اسی محنت کے بارے میں نماز کے بعد بات ہوگی ،آپ بھی تشریف لائیے گا
ان شا اﷲ فائدہ ہوگا‘‘تبلیغی جماعت کو بنے کئی دہائیاں بیت گئیں لیکن آج
بھی ان کے الفاظ اور دعوت کا طریقہ وہی ہے،وہی رٹے رٹائے چند جملے جو وہ
کسی بھی شخص کو اپنی طرف لانے کیلئے بولتے ہیں لیکن یہ جماعت ایک علاقے سے
دوسرے،ایک شہر سے نکل کر پورے برصغیر میں پھیل گئی،تقسیم ہند کے بعد
پاکستان ،ہندوستان میں بٹ گئی لیکن مرکزبھی آج وہیں ہے جہاں سے شروع ہوئی
تھی،یہ جماعت پھیلتی ،پھیلتی کئی ملکوں تک پہنچ چکی ہے،اس جماعت میں شامل
ہونیوالے صرف غریب یا متوسط لوگ ہی نہیں شامل کئی امرا بھی حصہ بن چکے
ہیں،صرف دیندار ہی نہیں متعدد اداکار،اداکارائیں،گلوکار حتیٰ کہ خواجہ سرا
بھی اس کے قافلے میں شامل ہوچکے ہیں،اس کے نظریے،طریقہ کار سے اختلاف کیا
جاسکتا ہے لیکن اس کے پھیلاؤ ،تنظیمی ترقی سے انکار ممکن نہیں،اس کی بڑی
وجہ اس کا اپنی اساس سے کاربند رہنا اور اپنے نظریے سے کمٹمنٹ ہے ،سیاست سے
دوری اور بار بار پالیسیاں تبدیلیاں نہ کرنا ہے۔
جس دور میں تبلیغی جماعت نے جنم لیا اسی دور میں جمعیت علمائے اسلام اور
جماعت اسلامی نے بھی آنکھیں کھولیں،جمعیت علمائے اسلام بکھری تو س،ف اور ش
کے لاحقوں کے ساتھ نئی جماعتیں وجود میں آئیں،اسی طرح جماعت اسلامی نے جب
اقامت دین کے ساتھ سیاست میں قدم رکھا تو کچھ ارکان نے اپنی مدر پارٹی کو
چھوڑ کرتنظیم اسلامی اور تحریک اسلامی جیسی جماعتوں کی بنیاد رکھی،تبلیغی
جماعت پھیلتی ،پھلتی کہاں تک پہنچ گئی،جماعت اسلامی اور جے یو آئی کی گروتھ
رکی ہوئی ہے،جے یو آئی ف کی سیاست میں تو جیسا تھا ویسا استحکام ہے،جماعت
اسلامی کی سیاست’’یرقان زدہ‘‘کیوں ہوگئی؟اس کے علاج کیلئے جماعت اسلامی کی
قیادت نے بھی کئی اجلاس کیے ہونگے،کراچی سے گوادر تک پھیلے کارکنا ن نے بھی
مشورے دیے ہونگے،کچھ ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ آئینہ دکھائیں۔
2018کے الیکشن نتائج جماعت اسلامی کی آنکھیں کھولنے کے لیے کیا کافی نہیں
ہیں؟حالیہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ایم ایم اے کا کل حاصل کردہ ووٹ
50لاکھ 4 ہزار 259 جبکہ تحریک لبیک پاکستان کا کل ووٹ 46 لاکھ 25 ہزار 347
ہے۔ٹوٹل ووٹ کا فرق 3 لاکھ 78 ہزار ہے۔ قومی اسمبلی کے ووٹ ایم ایم اے کے
25 لاکھ 68 ہزار 421 ۔ قومی اسمبلی میں ایم ایم اے نے 191 جبکہ تحریک لبیک
نے 178 امیدوار میدان میں اتارے۔اگر پنجاب اسمبلی میں دیکھا جائے تو تحریک
لبیک پاکستان نے18لاکھ 87 ہزار 419 ووٹ لیکربزرگ ایم ایم اے کے 4 لاکھ 33
ہزار 969 ووٹوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا،اب یہاں جماعت اسلامی کو دیکھیں تو
یہ دور بین لگانے سے نظر آئیگی،جماعت اسلامی کی تمام کی تمام مرکزی قیادت
ہا رگئی،ہاری کیا یہ چند سو ووٹ لے سکے،اس وقت جماعت اسلامی کی قومی اسمبلی
میں ایک اور سندھ اسمبلی میں بھی ایک نشست ہے،گزشتہ دور میں خیبر پختونخوا
میں حکومت کرنیوالی جماعت کا صوبائی انتخابی سیاست سے مکمل صفایا
ہوگیا۔دھاندلی کے الزامات اپنی جگہ لیکن دھاندلی چند سو ووٹوں پر ہوتی ہے
چند سو ووٹ لینے پر نہیں۔
ووٹ کے معاملے میں جماعت اسلامی پر عوام کی بداعتمادی کی وجہ کیا ہے؟سب سے
بڑی وجہ جو سامنے آتی ہے وہ اس کی سیاسی پالیسیوں میں بار بار تبدیلی،وکٹ
کے دونوں جانب کھیلنے کی عادت اور بار بار اتحادی تبدیل کرنے کی روش
ہے،جماعت اسلامی کے بارے میں عام لوگوں کی سوچ عید قربان پر کھالیں اکٹھی
کرنے اور رمضان المبارک میں زکواۃ جمع کرنیوالی جماعت تک محدود ہے،صحافتی
اور سیاسی حلقوں میں تو رائے بہت بھیانک ہے،دوسری وجہ جماعت کے اپنے
کارکنوں کا اپنی مقامی قیادتوں پر عدم اعتماد ہے،یہ صالحین پابند تو اپنے
امیر کی اطاعت کے ہوتے ہیں لیکن پولنگ بوتھ پر ووٹ کی پرچی کسی اور کے نام
کی ڈال دیتے ہیں،یہ دور خی جہاں جماعت کے امیج کو خراب کررہی وہیں سیاسی
نقصان بھی سامنے آرہا ہے۔
جماعت اسلامی کے لوگ تعلیم،صحت اور خدمت تینوں شعبوں میں پیش پیش ہیں،اس
جماعت سے وابستہ لوگوں کے بڑے بڑے سکول نیٹ ورک ہیں،چھوٹے بڑے شہروں حتی ٰ
کے دیہات میں ہسپتال قائم ہیں،الخدمت فاؤنڈیشن کے فلاحی کام ایک پہچان
رکھتے ہیں،جماعت اسلامی کے اکابرین نے یہ ادارے ووٹ بینک بڑھانے کیلئے قائم
کئے تھے،جماعت اسلامی کے پھیلاؤ کیلئے وجود میں لائے تھے،ان اداروں کی
بہتات سے جماعت کا ووٹ بینک بڑھنے کے بجائے کیوں سکڑ گیا؟جماعتی
سکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے لاکھوں طلباء کا اعتماد کیوں
نہ حاصل کرپائے؟جماعت کے ووٹ بینک میں کمی ضرور آئی ہے لیکن ان اداروں کو
چلانے والوں کے گھروں ،بینک بیلنس ،جائیدادوں میں وسعت ضرور آئی ہے،لوگوں
کا خیال ہے کہ دوسری جماعتوں کے لوگ جو کام سرعام کرتے ہیں یہ خاموشی سے
کرلیتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ’’کرپشن فری پاکستان‘‘کا نعرہ سب سے پہلے جماعت اسلامی نے
لگایا،پانامہ پیپرز میں شامل سب کرپٹ لوگوں کے خلاف بھی سپریم کورٹ میں
سراج الحق گئے،پی ٹی آئی اور شیخ رشید نے پارلیمنٹ سے بات بنتی نہ دیکھ کر
چند قدم دور اسی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا،یہ الگ بحث ہے کہ اس وقت کے
وزیر اعظم اور شریف خاندان کے کیس کو اہم اور باقی چار سو سے زائد افراد کی
لوٹ مار کو الگ کرکے عدالت کی الماریوں میں سجا دیا گیا،قصہ مختصر نواز
شریف نااہل ہوئے، جیل میں گئے،سزا کاٹ رہے ہیں،نیب انکوائریاں جاری ہیں
پیشی پر پیشی ہورہی ہے،اپوزیشن جارحانہ کھیل کھیل رہی ہے تو حکومت دفاع
دفاع کرتے اس پوزیشن پر آگئی ہے کہ اب سانسیں اکھڑنا شروع ہوگئیں ہیں،ہر
بندہ گرتی ہوئی دیوار کو دھکا دینا چاہتا ہے لیکن سراج الحق پر کیوں الزام
آرہا ہے کہ وہ دیوار کے نیچے کھڑا ہونا چاہتے ہیں،انہوں نے ایک بار پھر
جماعت اسلامی کی ایم ایم اے سے’’طلاق‘‘کروادی ہے،مولانا فضل الرحمان کو
’’ان فرینڈ‘‘کردیا ہے۔جب ایم ایم اے کڑوی گولی نگلی جارہی تھی تو سب نے
جماعت اسلامی کو سمجھایا تھاکہ یہ فیصلہ آپ کیلئے مہنگا ثابت ہو گا لیکن
جماعتی قیادت نے ضدی بہو کی طرح اسے میٹھی سمجھ کرنگل لیا اور اس کا نتیجہ
بھی دیکھ لیا۔
اب جب سب نقصان ہوگیا تو جماعت اسلامی کو کیا سوجھی ہے کہ وہ ایم ایم اے کے
اتحاد سے نکل جائے،اس بڑی وجوہات خیبر پختونخوا میں ضم کیے جانیوالے اضلاع
میں انتخابات اور پھر چاروں صوبوں میں بلدیاتی الیکشن ہیں۔جماعت کی قیادت
چاہتی ہے کہ وہ ان انتخابات میں سولو فلائٹ کرے،کتاب نہیں ترازو کے نشان سے
میدان میں اترے،جس کے لیے سوشل میڈیا اور اخبارات میں جاری بیانات سے بھی
انداز ا ہوتا ہے۔جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکن سمجھتے ہیں کہ مولانا فضل
الرحمان سے اتحاد نے جماعت کو الیکشن میں نقصان پہنچایا،ان کے ووٹ بینک پر
قدغن لگی جماعت کے کارکنوں نے تو ان کے امیدواروں کو ووٹ دیا لیکن ان کے
لوگوں نے ووٹ نہیں ڈالے،اسی لیے جماعت اسلامی چاہ رہی ہے کہ فاٹا اور
بلدیاتی الیکشن میں مولانا فضل الرحمان کے سائے سے بچی رہی۔اس پر شک نہیں
کیا جاسکتا کہ جماعت اسلامی کی حکمت اور منصوبہ بندی خالص نہیں ہوگی لیکن
سب تدبیریں تب الٹی پڑ جاتی ہیں جب اپنوں کی نیتیں خراب ہوجاتی ہیں،جماعت
اسلامی جو سوچ رہی ہے وہ نہیں سوچنا چاہیے بلکہ تبلیغی جماعت کے کام پر
تحقیق کرنا چاہیے،پچاس کی دہائی میں الگ ہونے والے ارکان کی جماعتوں ،سوچ
پر غور کرنا چاہیے،جماعت کے کارکنوں کو یہ بھی غور کرنا چاہئے کہ سید منور
حسن کی موجودگی میں سراج الحق دو بار کیوں امیر منتخب ہوئے؟سینیٹر سراج
الحق صاحب کے دور امارت میں اور کوئی فائدہ یا نقصان ہوا ہو یا نہ ہوا ہو
لیکن انہوں نے کارکنوں کو نمکین آلوؤں جیسا بنادیا ہے جن کے حکومت کیلئے
ایفکٹس ہیں اور نہ ہی سائڈ ایفکٹس۔ |