کابل حکومت کا غیر ذمے دارنہ رویہ ۔۔۔!

وزیراعظم پاکستان کے افغان تنازع کے حل کے بیان پر کابل حکومت کی جانب سے سخت تنقید کی جارہی ہے۔ عمران خان نے باجوڑ جلسے میں افغان امن تنازع حل کے حوالے سے ایک مثبت پیغام دیا تھا۔ باجوڑ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ ’’17 برس پرانی لڑائی کو ختم کرنے کے لیے امریکا اورافغان طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں افغانستان میں ’’باہمی امن‘‘ پیدا ہوگا۔ افغانستان میں ایک بہتر حکومت آئے گی۔ میرا مطلب ہے، ایسی حکومت جس میں سب کی نمائندگی ہوگی۔ لڑائی ختم ہوگی، امن آئے گا۔‘‘ عمران خان کی اس مثبت پیش گوئی کو لے کر کابل حکومت نے واویلا شروع کردیا اور اسے افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا۔ کابل حکومت کاکہنا ہے کہ ’’افغانستان میں قیام امن کے لیے ایک بڑا موقع پیدا ہوا ہے، تاہم اس سلسلے میں اہم کردار صرف افغانستان کی منتخب حکومت ہی ادا کرے گی۔‘‘ کابل حکومت اس بات کو کیوں فراموش کررہی ہے کہ امن کے بڑے موقع کے لیے پاکستان نے ہی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اشرف غنی نے عمران خان کے اس بیان پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ ’’افغانستان میں ایک غیر جانبدار اور وسیع تر عبوری حکومت قائم ہونی چاہیے، تاکہ تمام فریقین کی شمولیت سے وہاں قیام امن کو یقینی بنایا جاسکے۔‘‘ یہاں بھی کابل حکومت خود فراموشی کررہی ہے، کیونکہ عبوری حکومت کے قیام کی مخالفت پاکستان نہیں بلکہ افغان طالبان کررہے ہیں۔ مستقبل کی حکومت کا معاملہ افغان طالبان اور ان سے براہ راست مذاکرات کرنے والے امریکا کے درمیان ہے۔

کابل حکومت کو کٹھ پتلی حکومت سمجھا جاتا ہے۔ خصوصاً اشرف غنی کی قریباً پوری زندگی افغانستان کی ثقافت و روایات سے دُور بسر ہوئی ہے۔ وہ کابل کی صدارت ملنے سے قبل بھی امریکا کے ملازم رہے ہیں۔ 1991 میں ورلڈ بینک کے ملازم تھے۔ 1995 میں جنوبی اور مشرقی ایشیا میں ورلڈ بینک کے پروجیکٹ کے نگراں رہے۔ روس، چین اور بھارت کے دیگر پروگراموں کے لیے ورلڈ بینک کے ملازم رہے۔ 2002 سے 2004 تک حامد کرزئی کے دور حکومت کے وزیر خزانہ رہے۔ اشرف غنی نے کرزئی کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد وزیر خزانہ بننے سے انکار کیا توکابل یونیورسٹی کے سربراہ بنادیے گئے۔ ان کے والد شاہی دور میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے اور ایک متنازع دھاندلی زدہ انتخابات کے بعد 2014 میں ان کی حکومت ڈاکٹر عبداﷲ عبداﷲ کی شراکت سے بنوائی گئی۔ اس کو دہری حکومت بھی کہا جاتا ہے۔

صدر اشرف غنی کی افغانستان میں سیاسی خدمات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان کے تجربے کا تعلق معاشیات سے رہا ہے۔ افغان سیاسی معاملات میں ان کا تجربہ قابل ذکر بھی نہیں۔ انہوں نے اپنی زیادہ تر زندگی بیرون ملک بسر کی۔ سوویت یونین کی افغانستان میں جارحیت کے بعد افغانستان سے خاندان سمیت جلاوطن ہوئے تھے۔ اسی طرح ان کی زندگی کا بیشتر حصہ امریکی ادارے کی ملازمت میں بسر ہوا۔ افغانستان میں بھی امریکی ایما پر انہیں وزارت دی گئی۔ عام صدارتی انتخابات میں بدترین دھاندلی کے الزامات کے باوجود ڈاکٹر عبداﷲ عبداﷲ کے تمام تحفظات کو امریکا نے نظرانداز کردیا۔ پاکستان 1988 سے افغان مہاجرین کی میزبانی کررہا ہے۔ سوویت یونین کی جنگ میں پاکستان، افغان عوام کے ساتھ شریک ہوا۔ اب افغانستان میں 18برس ناکام رہنے والے امریکا کو محفوظ راستہ دینے کے لیے کوشش کررہا ہے۔ پاکستان نے افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغان نمائندوں کا حق قرار دیا ہے۔ اس لیے دنیا بھر میں افغانستان کے ساتھ امن تنازع حل کے لیے افغان رہنما ہی ملاقات کررہے ہیں۔ اگر افغان طالبان اس مرحلے میں کابل حکومت کے کسی حکومتی رکن یا وفد سے مذاکرات نہیں کرنا چاہتے تو یہ اُن کا مینڈیٹ ہے، کیونکہ جب افغانستان سے حکومت گئی تو اُس وقت امارات اسلامیہ کی حکومت قائم تھی۔ ان کے سربراہ ملا عمر مجاہد تھے۔ افغانستان کی اُس حکومت کو پاکستان ہی نہیں بلکہ سعودی عرب نے بھی تسلیم کیا تھا، تاہم نائن الیون نے سب بدل دیا۔

امریکا کے ساتھ افغان طالبان کے 5 مذاکراتی دور مکمل ہوچکے ہیں۔ قطر مذاکرات آخری مراحل میں ہیں۔ موجودہ کابل حکومت عوام کی نمائندہ نہیں سمجھی جاتی، کیونکہ بار بار عام انتخابات میں توسیع لے کر وہ امریکی احکامات کی اطاعت کررہی ہے۔ دہری حکومت کے ایک معاہدے کے مطابق دور اقتدار کی نصف مدت ڈاکٹر عبداﷲ عبداﷲ کو دی جانی تھی لیکن امریکی حکم کے تحت اشرف غنی کو ہی باقی ماندہ حکومت کے لیے برقرار رکھا گیا۔ اس لیے آزاد و غیر جانب دار حلقے بھی موجودہ انتظامیہ کو عوامی منتخب حکومت نہیں سمجھتے۔ اشرف غنی کی عمل داری صرف کابل کے چند حصوں تک محدود ہے۔ آزاد عالمی ذرائع ابلاغ سمیت امریکا خود بھی اعتراف کرچکا ہے کہ افغانستان کا بڑا حصہ (65فیصد سے زائد) افغان طالبان کے مکمل قبضے میں ہے۔ ان حالات میں پاکستان جب افغانستان میں امن کے قیام کے لیے امریکا اور تمام افغان فریقوں کے درمیان پُل کا کام کررہا ہے تو اس کے باوجود کابل حکومت نے پاکستان میں ہونے والے کئی مذاکراتی دور کو مخصوص مفادات کے تحت سبوتاژ کیا۔ سفری پابندیوں کی آڑ لے کر افغان طالبان کو پاکستان آنے سے روکا اور اہم مذاکراتی دور کو بھی منعقد نہ ہونے دیا۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ کابل حکومت کے تحفظات کی وجہ سے افغان طالبان سے ملاقات نہیں کی، تاہم اصل معاملہ ماسکو کانفرنس میں اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے ساتھ افغان طالبان کی ملاقاتوں اور مذاکرات میں کابل حکومت کو شامل نہ کیا جانا تھا۔ اقوام متحدہ میں بلیک لسٹ رہنماؤں کو پاکستان میں آنے سے روکا گیا اور عین اُس وقت یہ عمل کیا گیا جب سعودی ولی عہد پاکستان کے دورے پر تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کابل حکومت رخنہ نہ ڈالتی تو سعودی ولی عہد سے غیر اعلانیہ ملاقات کے امکانات زیادہ تھے۔ شاید کابل حکومت نہیں چاہتی تھی کہ افغان طالبان کا وفد سعودی ولی عہد سے پاکستان میں ملاقات کرے۔

افغانستان میں ایک بار پھر صدارتی انتخابات کو ملتوی کردیا گیا ہے۔ آزاد الیکشن کمیشن افغانستان نے اس کی جو بھی وجوہ بیان کی ہیں، لیکن اس امر کو تسلیم کرنا چاہیے کہ افغانستان میں نئے سیکیورٹی معاہدے کے لیے نئے صدارتی سیٹ اپ پر امریکا کو اعتماد نہیں ہے۔ انتخابی مراحل کے بعد جو بھی حکومتی سیٹ اپ آتا ہے، اُس کے بعد امریکا کا سیاسی کردار افغانستان سے قریباً ختم ہوسکتا ہے۔ افغانستان کے بڑے اسٹیک ہولڈر افغان طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل اہم مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور دونوں فریقین کی ٹیمیں فوجی انخلا کے طریق کار کی منصوبہ بندی پر کام کررہی ہیں۔ ان حالات میں کابل سے پاکستان پر الزامات کی روش غیر مناسب ہے۔ افغانستان کی سرزمین پر قابض امریکی فوجی انخلا کے لیے اشتعال انگیز اور غلط فہمی پر مبنی بیان بازی سے گریز کرنا چاہیے۔ امریکی صدر کے خصوصی معاون زلمے خلیل زاد اپریل میں ایک حتمی دورے پر دوبارہ متعدد ممالک کا دورہ کریں گے، جس کے بعد قوی امید ہے کہ افغان طالبان سے نئے سیکیورٹی معاہدے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔
 

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 399 Articles with 262787 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.