امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر عالمِ اسلام کے
خلاف اپنی مکاّرانہ حکمت عملی کا اعادہ کیا ہے۔ شام کے مقبوضہ علاقہ گولان
پر اسرائیل کی خودمختاری کو تسلیم کرتے ہوئے عالمی سطح پر امریکہ نے دنیا
میں خصوصاً مشرق وسطی میں قیام امن کی مساعی کو مزید مشکلات سے دوچار کیا
ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق تجزیہ نگار یہ بتاتے ہیں کہ گولان کے بارے میں
امریکی صدر ٹرمپ کے اس فیصلے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ان کی انتظامیہ امریکی
پالیسی اسرائیل کے حق میں بدل رہی ہے۔ ٹرمپ نے پہلے ہی دسمبر 2017میں
یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے اسرائیل کو کافی تقویت دی اور
فلسطینی عوام کے ساتھ ناانصافی کی ہے، ٹرمپ نے فلسطینی پناہ گزینوں کے لئے
کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے کی فنڈنگ کم کردی اور فلسطینی اتھارٹی
کو ہر طرح کی امداد روک دی ہے۔ اس سلسلہ میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے
الزام عائد کیا جاتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی دہشت گردوں کی مالی مدد اور امن
کی کوششوں کو تباہ کررہی ہے۔ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے
کے بعد ٹرمپ فیصلے کے خلاف عالمی سطح پر تنقید اور مذمت کی گئی ۔ ترکی ،
مصر، فرانس اور کئی ممالک نے اس فیصلہ کو غیر ذمہ دارانہ فیصلہ کہہ کر مذمت
کی اور اسے بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف کہا،
لیکن افسوس کہ امریکی فیصلہ کے خلاف صرف بیان بازی علاوہ اور کچھ کر نا
پائے اسی اثناء امریکہ نے اپنا سفارت خانہ بھی یروشلم منتقل کردیا ۔ پھر
ایک بار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام کے مقبوضہ علاقوں گولان کی پہاڑیوں
کو جس پر اسرائیل 1967ء میں قبضہ کیا تھا اس پراسرائیل کی خود مختاری کو
تسلیم کر کے عالمی سطح پر کشیدگی میں اضافہ کیا ہے۔ امریکی صدر کے اس فیصلے
پر اقوام متحدہ نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے مشرقِ وسطیٰ میں قیام
امن کی مساعی کے لئے مشکلات بتائی ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ گولان کے
بارے میں امریکی صدر کے اعلان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔اقوام متحدہ کے
ترجمان اسٹیفن ڈوگریک نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو
گوٹیرس نے واضح کیا ہے کہ امریکی اعلان سے گولان چوٹیوں کی متنازعہ حیثیت
میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔اقوام متحدہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ وادی
گولان کے حوالے سے عالمی ادارے کی پالیسی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی
پابند ہے اور وادی گولان کے تنازع کے حل کے سلسلے میں اقوام متحدہ اپنی
کوششیں جاری رکھے گا۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کا مؤقف تبدیل نہیں ہوا
ہے۔اس کے باوجود اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو نے امریکی صدر کے اس
اعلان پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ صدر کے
فیصلہ کے خلاف شاید اقوام متحدہ بھی کچھ کرنے سے قاصر ہے ہاں صرف تشویش کا
اظہار کرکے امریکی اجارہ داری کو مزید تقویت پہنچا سکتا ہے۔
عرب ممالک نے بھی امریکی اعلان کو مسترد
کردیا
شام کی خانہ جنگی میں کچھ کمی دکھائی دے رہی ہے ،ذرائع ابلاغ کے مطابق
بتایا جارہا ہے کہ داعش کا تقریباً خاتمہ ہوچکا ہے اور اپوزیشن بھی پہلے کی
طرح اتنی طاقتور دکھائی نہیں دے رہی ہے ، اس کے باوجود کچھ کہا نہیں جاسکتا
کہ شام کے حالات اندرونی طور پر کس طرح کے ہیں۔شامی صدر بشارالاسد کو
اقتدار سے محروم کرنے کی کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں،بشارالاسد اپنے اقتدار پر
فائز ہیں ، شامی خانہ جنگی میں لاکھوں افراد ہلاک و زخمی اور بے گھر ہوئے
ہیں۔ تعلیم اور صحت پر بُرا اثر پڑا ہے ۔ سعودی عرب اور بعض ممالک کی جانب
سے امریکہ پر دباؤ ڈالا گیا تھا کہ بشارالاسد کو اقتدار سے محروم کیا جائے
لیکن روس اور ایران نے جس طرح بشارالاسد کو اقتدار پر براجمان رکھنے کیلئے
اس کا بھرپور ساتھ دیا اس سے امریکہ کی ناکامی ظاہر ہوتی ہے۔ یا پھر یہ بھی
دشمنانِ اسلام کی پالیسی کا ایک حصہ ہے کہ ایک طرف سعودی عرب اور دیگر
اسلامی و عرب ممالک کو امریکی تائید و حمایت حاصل ہے تو دوسری جانب شام کو
روس کی تائید و حمایت حاصل ہے جس کے ذریعہ مسلمانوں کے درمیان خونریز جنگ
کا ماحول پیدا کرکے مسلمانوں کو ہی آپس میں ایک دوسرے کا جانی دشمن بنادیا
گیا۔لاکھوں مسلمانوں کی ہلاکت اورکروڑہا ڈالرز کی معیشت کو تباہ و برباد
کردیا گیا جبکہ دوسری جانب دشمنانِ اسلام اپنی طاقت کے بل بوتے پر اپنے
فوجی ساز و سامان اور ہتھیاروں کی ترسیل کروڑہا ڈالرز کے عوض کرتے ہوئے
عالمِ اسلام کو لوٹتے رہے۔ آج سعودی عرب سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والے
ممالک میں سرفہرست ہے اگر یہی کروڑہا ڈالرز مسلمانوں کی تعلیم و تربیت،
فلاح و بہبوداور معاشی استحکام کیلئے لگائے جاتے تو مشرقِ وسطیٰ میں امن و
آمان اور ایک دوسرے کی قدرو منزلت میں اضافہ دیکھنے میں آتا۔ خیر سعودی عرب
نے بھی مقبوضہ گولان کے شامی علاقے پر اسرائیل کی خود مختاری کو تسلیم کرنے
سے متعلق امریکی اعلان کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی
ہے کیونکہ یہ معاملہ بشارالاسد سے نہیں بلکہ عالمِ اسلام سے جڑا ہوا ہے۔
سعودی عرب نے گولان کے پہاڑی علاقے کے حوالے سے اپنے اصولی مؤقف کو باور
کراتے ہوئے کہا ہے کہ متعلقہ بین الاقوامی قرار دادوں کے مطابق یہ شام کی
مقبوضہ اراضی ہے،حالیہ مسلط کردہ خود مختاری کے اعلان سے حقائق میں کوئی
تبدیلی نہیں آئے گی۔ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابو الغیط نے امریکی صدر
کے اعلان کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ شام کے مقبوضہ علاقے
پر اسرائیلی ریاست کی خودمختاری تسلیم کرنا بین اقوامی قوانین، اقوام متحدہ
کی قراردادوں اور عالمی برادری کے اصولی مؤقف کی توہین ہے۔انہوں نے کہا کہ
ٹرمپ کی طرف سے وادی گولان کے بارے میں اعلان سے مقبوضہ علاقے کی قانونی
حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ گولان چوٹیاں ہر اعتبار سے شام کا مقبوضہ
علاقہ ہے جس پر اسرائیلی ریاست کی اجارہ داری کا کوئی جواز نہیں۔ سنہ 1981
میں سلامتی کونسل نے قرارداد 497منظور کر کے وادی گولان کے بارے میں تمام
ابہام ختم کردیے تھے اور واضح کردیا تھا کہ وادی گولان اسرائیل کا حصہ نہیں
بنے گا۔ عرب لیگ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ مقبوضہ وادی گولان کے بارے میں
تمام عرب ممالک کا مؤقف ایک ہے۔ عرب پارلیمنٹ نے بھی مقبوضہ وادی گولان پر
اسرائیل کی خود مختاری کے امریکی اعلان کو غیرآئینی اور باطل قرار دیا۔ عرب
پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ وادی گولان کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنے سے خطے
میں بدامنی اور عدم استحکام کی ایک نئی لہر اٹھ سکتی ہے، جس کا ذمہ دار
امریکہ ہوگا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق عرب پارلیمنٹ کے سربراہ مشعل بن فھم
السلمی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ امریکی صدر نے مقبوضہ بیت المقدس کو
اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد ایک بار پھر جنرل اسمبلی کی اور
سلامتی کونسل کی قرارداد 242 اور 497 کو دیوار پر دے مارا ہے۔ عرب ممالک
امریکہ کے اس باطل اور ناجائز فیصلے کو قبول نہیں کرتے۔لبنان اور اردن کی
جانب سے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے گولان چوٹیوں کے بارے میں متنازع فیصلے کی شدید
مذمت کی گئی ہے۔ اردن کا کہنا ہے کہ وادی گولان پر اسرائیلی حاکمیت تسلیم
کرنے سے دیگر مقبوضہ عرب علاقوں پر بھی اسرائیل کے ناجائز تسلط کو جواز
فراہم کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔اس طرح عالم عرب کی جانب سے شام کے علاقے
گولان کی پہاڑیوں پر جہاں اسرائیل کا پہلے ہی سے قبضہ ہے اسے امریکہ کی
جانب سے اسرائیلی علاقہ تسلیم کئے جانے کے بعد عالمی سطح پر شدید ردعمل کا
اظہار کیا جارہا ہے اور اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے امریکہ نہیں چاہتا کہ
مشرقِ وسطیٰ میں قیام امن ممکن ہو۔ کیونکہ اگر مشرقِ وسطیٰ میں قیام امن
ہوگا تو پھر انکے کروڑہا ڈالرس کے ہتھیار سرد خانے میں پڑے رہینگے اور اسکے
خریدنے والے کوئی نہیں رہینگے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ کی اسرائیل
کے تئیں پالیسی میں تبدیلی کے بعد کیا عرب ممالک اور عالمِ اسلام کا جھکاؤ
روس ، چین اور دیگر سوپر پاور ممالک کی جانب ہوگا یا پھر امریکہ کے فیصلہ
کے خلاف ماضی کی طرح چند روز کہہ کر خاموشی اختیار کرلی جائینگی۔
سعودی عر ب میں اونٹ میلہ عرب ثقافت کا
احیاء
سعودی عرب میں جہاں مغربی ویوروپی تہذیب کو اجاگر کیا جارہا ہے وہیں شاہی
حکومت عرب ثقافت کو فروغ دینے کی کوشش بھی کررہی ہے ۔ اس کی ایک مثال سعودی
عرب میں ہونے والے تیسرے قومی شاہ عبدالعزیز اونٹ میلے کی آخری تقریب میں
خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز سمیت مملکت کی اعلی شخصیات
کی شرکت ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق تیسرا سالانہ شاہ عبدالعزیز اونٹ میلہ
جنوبی گورنری الدھنا کے علاقے الصیاھد میں منعقد کیاگیا۔ میلے میں شاہ
سلمان بن عبدالعزیز کی آمد پر سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان نے
استقبال کیا۔ اس موقع پرریاض کے گورنر شہزادہ محمد بن عبدالرحمان بن
عبدالعزیز، وزیر داخلہ شہزادہ عبدالعزیز بن سعود بن نایف بن عبدالعزیز اور
اونٹ کلب کے چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹرز فہد بن فلاح حثلین بھی موجود تھے۔اس
کے علاوہ اونٹ میلے کی آخری تقریب میں کویت کے ولی عہد الشیخ نواف الاحمد
الجابر المبارک الصباح، قرغیزستان کیوزیر اعظم ایلگازیف محمد، دبئی کے ولی
عہد الشیخ حمدان بن محمد بن جاثم آل مکتوم،شاہ بحرین کے خصوصی مندوب الشیخ
ناصر بن حمد آل خلیفہ،الشیخ سلطان بن سحیم آل ثانی، سلطنت اومان کے الشیخ
سعد محمد السعدی،موریتانیہ کے ترجمان سید محمد ولد محمداور دیگر رہنماؤں و
اعلیٰ عہدیداروں نے شرکت کی۔شاہ سلمان کی بن عبدالعزیز کی میلے میں آمد کے
بعد اونٹ کلب کے چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹرز فہد بن فلاح بن حثلین نے شاہ
سلمان اور دیگر معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ اونٹ میلہ
سعودی فرمانروا اور مملکت کی قیادت کی حکمت اور دانش مندی کا عکاس ہے۔ ان
کا کہنا تھا کہ اونٹ میلہ سعودی عرب کی قومی ثقافت کی علامت بن چکا ہے اور
اس میلے کے انعقاد سے ہم اپنی تاریخ عرب ثقافت کواجاگر کرکے نئی نسل کو
اپنی تاریخ اور ثقافت سے مربوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اونٹ کی تخلیق اﷲ کی
تخلیق کردہ مخلوقات میں ایک عجیب مخلوق ہے جس کے بارے میں خود باری تعالی
نے استفسار کے انداز میں فرمایا"افلا ینظرون الی الابل کیف خلقت"۔ یعنی کیا
وہ دیکھتے نہیں کہ اونٹ کو کیسے پیدا کیا گیا؟۔ اونٹ اﷲ کی عظیم نعمتوں میں
سے ایک بے پایاں نعمت خداوندی ہے۔اس کے بعد اونٹ میلے میں اونٹوں کی دوڑ کے
آخری دو مقابلے منعقد کیے گئے۔ مقابلے کے بعد شاہ سلمان نے کامیاب ہونے
والے اونٹوں کے مالکان کو ایوارڈ ، ٹرافیاں اور انعامات تقسیم کیے۔اس طرح
سعودی شاہی حکومت اونٹوں کے میلے کے ذریعہ اپنے تہذیبی و ثقافتی پروگراموں
کو مملکت ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک کے نمائندوں کو بتانا چاہتی ہے تاکہ عرب
ثقافت کو فروغ حاصل ہو۔
برطانیہ میں اسلام اور مسلمانو ں کے خلاف
دہشت گردی
نیوزی لینڈ کی مساجد میں فائرنگ کے بعد برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف دہشت
گردی میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ برطانیہ کے شہر نیوکاسل میں مذہبی
منافرت کا ثبوت دیتے ہوئے مشتعل افراد نے نیو کاسل اسلامک سینٹر پر حملہ کر
کے توڑ پھوڑمچائی ہے اور اسے نذرآتش کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ نیو کاسل
اسلامک سینٹر پر حملے کے الزام میں چھ مشبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے
لیکن حملہ آور کی گرفتاری ممکن نہیں بنائی جا سکی ہے۔نیوکاسل اسلامک سینٹر
پر دو ماہ میں دوسری مرتبہ حملہ کیا گیا ہے۔علاقہ کی پولیس پرامید ہے کہ
تفتیش کے نتیجے میں جلد حقائق سامنے آجائیں گے کیونکہ جن مشتبہ افراد کو
گرفتار کیا گیا ہے ان میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔ان دنوں برطانیہ، یورپی
ممالک اور امریکہ سمیت دیگر ممالک میں مسلمانوں کے خلاف اظہار نفرت کے کئی
واقعات سامنے آچکے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ اعداد و
شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ میں ایسے جرائم میں 600فیصد اضافہ دیکھنے
میں آیا ہے۔ نیو کاسل میں ہونے والے حملے میں توڑ پھوڑ کے واقعے کے بعد جن
چھ نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے ان کی عمریں 14 سے 18 سال کے درمیان
بتائی جاتی ہے۔پولیس کے مطابق اس نے 22؍مارچ کو برمنگھم کی پانچ مساجد کو
نقصان پہنچانے کے الزام میں ایک 34سالہ شخص کو گرفتار کیا ہے۔ اب دیکھنا ہے
کہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے خلاف کارروائی کرنے والوں کو دہشت گرد قرار
دیا جاتا ہے کہ یا انہیں دماغی اپاہج قرار دے کر چھوڑدیا جاتا ہے۔
|