کہتے ہیں تعلیم انسان کوبدل دیتی ہے اورجب کسی قوم پرظلم
ہورہاہوتوقلم کے مجاہدمحض نوحے،المیے یامرثیہ لکھ کر اپناغبارنکال لیتے ہیں
یااپناحصہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔افلاطون نے جب اپنی جمہوریہ تشکیل دی تو
اس نے کہاتھاکہ یہ شاعر،ادیب،لکھنے والے بڑے اچھے لوگ ہیں ۔ان پرخوشبوئیں
چھڑکو،پھولوں کے ہارپہناؤاورمیری سرحدسے باہرنکال دو،کیونکہ یہ اپنے
انقلابی خیالات سے میری ’’جمہوریہ‘‘کے لیے دردسرہیں لیکن کیاظلم کی کوئی
حدایسی بھی ہے ،جہاں ایک پڑھالکھااعلیٰ تعلیم یافتہ شخص علمی معرفت ایک طرف
چھوڑکراسلحہ اٹھالے یاسخت مزاحمت شروع کردے،بالکل ایساہی منظراب آپ
کومقبوضہ کشمیرمیں نظرآئے گا،ڈاکٹررفیع بٹ اس راستے کامسافربنااوربھارتی
مظالم کے خلاف نہ صرف اسلحہ اٹھایابلکہ اپنی جان بھی قربان کرگیا،کشمیریوں
کم وبیش تقریباً 70سال سے زائدعرصہ صرف سیاسی تحریک کے ذریعے آزادی
اورخودارادیت کاحق مانگامگردوسری طرف 7لاکھ سے زائدبھارتی فوجیوں
کاجنون،جارحیت،دہشت اورظلم ان کے سروں پرلاکربٹھادیاگیاتین نسلیں قربان
کرکے بھی کشمیری ثابت قدم رہے اوراسلحہ نہیں اٹھایا۔اب ظلم وستم کے طریقے
بھی بدلدیئے گئے،کوئی ماں،بہن،بیٹی اوربیوی محفوظ نہیں ہے،بیلٹ گن نے
توہزاروں کشمیریوں کومعذورکردیاہے،بھارتی افواج کے اہلکارنفسیاتی
طورپرانتہائی فرسٹریشن کاشکارہیں جووہ معصوم بچیوں،بچوں اورنوجوانوں
پرنکالتے ہیں،سیدعلی گیلانی جیسے بزرگ،جوپرامن جدوجہدکے حامی ہیں،یسین ملک
جواسلحہ کے ہی مخالف ہیں اورمیرواعظ جن کابندوق کے شعلوں سے دورکابھی تعلق
نہیں،بھارتی مظالم کاشکاررہتے ہیں توایک پڑھالکھانوجوان،ایک ڈگری
رکھناوالاپروفیسریاایک غیرت رکھنے والاکشمیری کہاں تک صبرکرے گا،انسانی
حقوق کی تنظیموں پرپابندی،آزادذرائع ابلاغ کوبھی اجازت نہیں،توکیاظلم سے حق
کی آوازرک گئی ،یورپین پارلیمنٹرین کی کمیٹی نے حال ہی میں بیلٹ گن کے
استعمال پرایک سخت خط بھی لکھا،اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی نے جب
داستان ظلم بیان کی۔پھریہ کس کی آشیربادسے ایساہورہاہے،پروفیسررفیع بٹ نے
جب مسلح گروپ میں شمولیت اختیارکی ہوگی تواس نے ضرورسوچاہوگا۔
دوسری طرف بھارتی انتہاپسندی اورانتہاپسندوں کی حکومت اسی ظلم کوطاقت
بناکرانتخابات جیتناچاہتی ہے۔واشنگٹن پوسٹ کاصحافی صرف سری نگرتک محدود
تھاپھربھی اس نے تعلیم یافتہ افرادکاعسکریت پسندی کی طرف مائل ہونے کاالمیہ
،اوروجوہات بتائیں۔کیاعالمی دنیاکے لیے بھارت اتناطاقتورہے کہ وہ اس
کاہرحربہ قبول کرلیتی ہے،امریکہ مودی کواورطاقت ورکرنے کے لیے
مولانامسعوداظہرکوبطورمہرہ استعمال کررہاہے ۔سلامتی کونسل میں ایک
قراردادکی ناکامی کے بعددوسری قراردادلاناکیااس چیز کی عکاسی نہیں
کرتاکہ’’مودی کوہرصورت الیکشن جتواناہے‘‘کیازمین پربھارتی فوج کی ناکامی
اورپلوامہ کے سانحہ کااستعمال کرنے میں بدنامی کے بعدمودی اب خلامیں برتری
ثابت کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔اگرچہ ٹیکنالوجی میں اس نے کافی ترقی کی
ہے۔مگرکیایہ ٹیکنالوجی اجارہ داری اورانسانیت کے لیے ہے ؟دنیاکوامن
ڈاکٹرائن بھی ہضم نہیں ہورہا۔ان مسائل کے پیچھے صرف بھارتی انتہاپسندی
اورمسئلہ کشمیرہے۔اس کے حل کی طرف پیش رفت ہونی چاہیے ۔سکول میں اب وہ
کشمیری بچے ہیں ،جن میں سے کسی کاباپ نہیں،کوئی بہن کی عزت کاسوال کرتاہے ،کسی
نے بھائی کالاشہ دیکھاہے وہ کس طرح اپنے حق سے پیچھے ہٹ سکتاہے؟ وہ اتنے
مظالم کے خلاف اسلحہ ،باروداورخودکش حملوں تک سفرکرے گاتوقصورکس
کاہوگا؟ہمارے بعض نادان دوست یہاں بیٹھ کر جس جمہوریت،ریاستی حقوق اورفرض
کادرس دیتے رہتے ہیں وہ پروفیسررفیع بٹ سے پوچھتے کہ اس نے آخرکیوں عسکریت
پسندی کوترجیح دی؟کس کتاب نے اسے یہ سبق پڑھایاتھا؟ اگروہ یہ سوال کرسکتے
ہیں توآگے بڑھیں اترجائیں ان وادیوں میں جہاں بہارمیں بھی خزاں کارقص
چلتارہتاہے،فوجی وردی میں ملبوس بھارتی سینا،یہ رقص خزاں اب گھرگھرمیں کرتی
ہے۔داغدارکردیااس نے اس فطرت کے حسین فن پارے کو،سکول بچے اب بستہ لے
کرگھرنہیں بلکہ سڑکوں پرآتے ہیں،کوئی ہمارے عزیزوں کوواپس لادے،کوئی وہ
دوسانس دے جہاں ہم آزادی سے جی سکیں !
کیاڈگری اوربندوق کاغیرفطری ملاپ دنیاکے لیے سوچنے کامقام نہیں لاسکا! آپ
الیکشن جیتیں یاکوئی اورکشمیری اپنے حق سے پیچھے ہٹنے کااخلاقی جوازہمیشہ
کے لیے کھوچکے ہیں۔اس لیے اہل علم بھی کہتے ہیں ڈگریوں کاکیافائدہ جب ہماری
بیٹیوں کی عزت محفوظ نہیں!
|