کشمیر ایک سادہ سامعاملہ ہے اور وہ یہ کہ یہ مذہبی لحاظ
سے ایک مسلمان ریاست ہے اور جغرافیائی لحاظ سے بھی پاکستان سے جڑا ہوا ہے
ثقافتی لحاظ سے بھی اس کا ہندوثقافت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ایک مکمل
اسلامی ثقافت ہے ا ورسب سے بڑھ کر یہ کشمیری ذہنی طور پر کسی بھی طرح بھارت
کا باشندہ ہ نہیں،اُس نے اس بات کو تسلیم ہی نہیں کیا کہ وہ بھارت کا حصہ
ہے ۔ آج بھی ڈوگرہ راجہ ہری سنگھ اُس کا مجرم ہے جس نے بھارت کے ساتھ الحاق
کا اعلان کیا تھا۔ تقسیم ہند کے ابتدائی منصوبے میں ایسا کوئی نکتہ نہیں ہے
کہ کشمیر کو بھارت کے حوالے کیا جائیگا لیکن اسکے باوجود بھارت کشمیر کے
اوپر قابض ہے اور اس قبضے کو قائم رکھنے کے لئے اُس نے آٹھ لاکھ فوج تعینات
کر رکھی ہے۔ 101387 مربع کلومیٹر کے اس علاقے میں دنیا کے کئی ممالک سے
زیادہ فوج کو رکھاگیاہے جسے ہر قسم کے اختیارات حاصل ہیں بلکہ اسے قانونی
طور پر بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی سزاؤں سے استثناء دیا گیا ہے
اور وقتاً فوقتاً ان قوانین کو کشمیریوں کے لئے سخت اور قابض فوج کے لئے
وسیع کیا جا رہا ہے یہ اور بات ہے کہ جوں جوں یہ سختی بڑھتی جاتی ہے توں
توں کشمیریوں کا جذبہء آزادی بڑھتا جاتا ہے۔ انتہاتو یہ ہوئی کہ بھارتی
قابض فوج نے ظلم کی انتہا کرتے ہوئے کیمیائی اسلحے کا کھلم کھلا استعمال
بھی کیا اور کئی نہتے کشمیریوں کی آنکھوں کی بینائی چھین لی۔پیلٹ گنوں کے
استعمال سے بے شمار کشمیریوں کو اندھا کردیاگیا،یاد رہے ان میں بچے بھی
شامل تھے۔ان کے جسموں پر نکلے ہوئے سرخ چھالے بھارت کے بے انتہامظالم کے
گواہ تھے۔ یہ کوئی ایک طریقہ واردات نہیں جو بھارت نے اختیار کیاکئی ملنے
والی اجتمائی قبروں میں دفن کشمیری کس طریقے سے مارے گئے ان کی کہانیاں بھی
سامنے آتی رہتی ہیں اور تاریخ نا معلوم اور کتنے مظالم کو طشت ازبام کرے گی۔
لیکن ساتھ ہی کشمیریوں کی جدوجہدآزادی میں اتنے ہی ہیرو شامل ہوتے جائیں گے
اور کشمیریوں کا احتجاج بڑھتا جائے گا لیکن اس فہرست کو آخر کتنا طویل کیا
جائے گا،کشمیر کو کتنی بار بیچا اور خون میں نہلایاجائے گا، اقوام متحدہ کب
تک سوتا رہے گااور دکھ کے ساتھ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ مسلم اُمہ کو کب ہوش
آئے گا بلکہ مزید دکھ یہ ہے کہ بہت سارے اسلامی ممالک بھی کشمیر کے بارے
میں پاکستان کے موقف کی تائید نہیں کرتے یا کرنے سے ہچکچاتے ہیں اور کئی تو
بھارت کی دوستی میں پاکستان کے خلاف اس کے ساتھ کھلم کھلا جا کھڑے ہوتے ہیں۔
آجکل ہمارے مسلمان پڑوسی ممالک اسی رویے کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور یوں
محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان اور کشمیر تن تنہا بھارت کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں
اور کشمیریوں کے جسم ہیں کہ بھارت کے آٹھ لاکھ درندہ صفت فوجیوں کے گولوں
کے سامنے جمے اور تنے کھڑے ہیں اوران پر ہر قسم کے اسلحے کا کھلم کھلا
استعمال ہو رہاہے نشانہ جو بھی بنے چاہے بچہ ہو یا بڑا عور ت ہو یا مرد اور
اب تو یہ سب کچھ کیمرے کی آنکھ سے دنیا کی آنکھوں کے سامنے آہی جاتاہے۔
بھارت نے پیلٹ گنوں کا جو بے دریغ استعمال کیا اور جس طرح کشمیرکو اندھا
کرنے کی کوشش کی گئی اس نے عالمی ضمیر کو بھی ہلاکر رکھ دیا اور کشمیریوں
کے اس درد کی گونج اس باریورپی یونین کی پارلیمنٹ تک پہنچی جہاں کی پالیمنٹ
کے تقریباََ پچاس ارکان نے مغربی انگلینڈ سے تعلق رکھنے والے لیبر پارٹی کے
ممبر واجد خان کے لکھے ہوئے خط پر دستخط کیے جس میں انہوں نے کشمیرمیں
بھارتی مظالم پر احتجاج کیا ہے اور خاص کر پیلٹ گن کے استعمال کو بین
الاقوامی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس پر فوری
پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے استعمال نے کشمیر میں
سینکڑوں لوگوں کو نہ صرف شہید کیا بلکہ ان کی بینائی چھین لی اور انہیں
شدیدصدمے سے بھی دوچار کیا۔ خط میں خاص طور پر 19 ماہ کے ایک بچے کا ذکر
کیا گیاہے جو بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پیلٹ گن کے استعمال سے شدید زخمی
ہوا۔ اس خط میں بھارتی فوج کو حاصل استثناء پر بھی احتجاج کیا گیا اور آرمڈ
فورسز سپیشل پاور ایکٹ(1990 AFPSA)اور جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ 1978پر
شدید تحفظات کا بھی اظہار کیا ہے اور انہیں فی الفور ختم کرنے کا مطالبہ
کیا گیاہے۔ یا د رہے کہ اس خط پر تمام پارٹیوں کے ارکان نے دستخط کئے ہیں۔
خط لکھنے والے مسٹر واجد خان نے اس خط پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں
خوشی ہے کہ مختلف ممالک اور مختلف سیاسی خیالات رکھنے والے ان کے ساتھ
بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف اکٹھے ہوئے اور اس کی مخالفت کی۔
انہوں نے کہا کہ پیلٹ گنوں کا استعمال مکمل طور پر ایک وحشیانہ عمل ہے لیکن
بین الاقوامی برادری طویل عرصے سے اس پر خاموش ہے ۔انہوں نے امید ظاہر کی
کہ کشمیر میں ایک نئی صبح طلوع ہورہی ہے جہاں سب لوگ ایک آزاد اور خوشحال
کشمیر کے لیے مل کر کام کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ مسٹر مودی پہلے قدم
کے طور پر پیلٹ گنوں کا استعمال بند کروا دیں۔ جناب واجد خان کی کشمیر کے
لیے نیک خوہشات اور کشمیریوں کے حق خوداردیت کیلئے کوشش ایک احسن قدم ہے
اور امید کی جا سکتی ہے کہ جس طرح بین الاقوامی برادری نے کشمیر کے بارے
میں ان کا ساتھ دیا وہ بھی اس سلسلے کو آگے بڑھا سکیں گے اوردوسرے لوگ بھی
اس جدو جہد میں ان کے ساتھ شامل ہوتے جائیں گے۔ کشمیر کے مسئلے پر بھارت کا
ضمیر جاگنے کی تو فی الحال کوئی امید نہیں لیکن عالمی ضمیر بھی جاگ جائے
اور بھارت پر دباؤ بڑھا دیا جائے تو کچھ امیدپیدا ہو سکتی ہے ورنہ تو اگر
اسے بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تو یہاں مظالم کی داستان لمبی ہی
ہوتی جائے گی۔ لہٰذا واجد خان جیسے بین الاقوامی سطح پرمتحرک لوگوں کو
زیادہ پُر زور انداز میں آگے بڑھنا ہوگا اور دنیا کو بتانا ہوگا کہ اس وقت
بھی دنیا میں غلام قومیں موجود ہیں جن میں سے ایک کشمیر ہے جس کے مسئلے کو
سنجیدگی سے کبھی حل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی اور یہی مسئلہ تین پاک بھارت
جنگوں کا باعث بنا ہے اور اسی کی وجہ سے خطے کے وسائل جنگی اسلحے پر خرچ ہو
رہے اور اسی وجہ سے دو ایٹمی قوتوں کے درمیان ہر وقت جنگ کا خطرہ موجود
رہتا ہے لہٰذا اب عالمی قوتوں کو آگے بڑھ کر کشمیر کی آزادی اور کشمیریوں
کی خواہش کے مطابق پاکستان سے الحاق کے لیے اپنا کردار ادا کرناچاہیے۔
|