زہے قسمت --- شرف ہمراہی متکلم
اسلام کا دورہ کراچی رفیق سفر مولانا عابد جمشید رانا
13 جنوری9 صفر المظفر: بروز جمعرات سرد اور دھند میں لپٹی صبح کو لاہور
احناف میڈیا سروس کے زیر تعمیر سٹوڈیو میں ناشتہ کے بعد تمام ساتھی مشورہ
کے لیے جمع تھے۔ متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ تعالیٰ امیر
مشورہ تھے۔ کام کی ترتیب اور اس میں مزید بہتری لانے کے لیے تفصیلی مشورہ
جات کے بعد مولانا نے مشن کی تکمیل کے سلسلہ میں قیمتی نصائح اور ہدایات
ارشاد فرمائیں اور دعا کے ساتھ مجلس مشورہ برخاست ہوگئی ۔ سورج دھیرے دھیرے
بلند ہورہا تھا دس بجے کے قریب ہم لوگ ائرپورٹ کے لیے روانہ ہوئے۔ ائر پورٹ
پر خوب رش، موسم انتہائی سرد اور خنک، گیارہ بجنے کو تھے لیکن ہنوز رخ
آفتاب بادلوں کی اوٹ میں تھا۔ مولانا محمد کلیم اللہ اور دیگر ساتھیوں نے
ہمیں الوداع کیا اور ہم بوڈنگ پاس لینے کے بعد جہاز میں جاسوار ہوئے ۔
پی۔ آئی۔ اے کی پرواز حسب معمول ایک گھنٹے کی تاخیر سے روانہ ہوئی۔فلائٹ
نمبر پی۔ کے 303 نے ساڑھے بارہ بجے علامہ اقبال انٹر نیشنل ائر پورٹ لاہور
سے اڑان بھری اور دوپہر ایک بج کر پچاس منٹ پر قائد اعظم انٹرنیشنل ائر
پورٹ کراچی پر لینڈ کیا۔ مقامی ساتھی استقبال کے لیے موجود تھے، ائر پورٹ
سے سیدھے ملک کی مشہور دینی درسگاہ جامعہ فاروقیہ پہنچے، یہاں کے اساتذہ
اور طلباء کے چہرے مولانا محمد الیاس گھمن کی تشریف آوری پر دمک رہے تھے ۔
جامعہ کے تخصص فی الحدیث کے مسﺅل مفتی محمد ساجد صاحب مدظلہم نے میزبانی کی
اور ضیافت کا اہتمام فرمایا۔
نماز عصر کی ادائیگی کے بعد طلبہ مصافحہ کے لیے دیوانہ وار ٹوٹ پڑے ۔ نماز
مغرب سے تھوڑی دیر قبل ہم لوگ ”ماہنامہ وفاق المدارس“ کے مدیر معروف عالم
دین اور صاحب قلم مولانا ابن الحسن عباسی دامت برکاتہم کی دعوت پر ان کے
مدرسہ جامعہ تراث الاسلام، شاہ فیصل کالونی پہنچے۔ یہاں ایک عظیم الشان
علماء طلباء کنونشن کا انعقاد کیا گیا تھا، نماز مغرب کے فوراً بعد متکلم
اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ تعالیٰ کا خطاب شروع ہوگیا۔ اہل
السنت والجماعت سے غیر مقلدین کا اصل اختلاف کیا ہے؟ اس موضوع پر مولانا نے
تفصیلی گفتگو فرمائی۔
صحابہ و خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور خیر القرون کے ائمہ فقہاءاور سلف
صالحین سے لے کر موجودہ دور کے اہل السنت کے اصولی موقف سے غیرمقلدین کے
اختلاف کو سمجھنے کے لیے اس لاجواب، تحقیقی اور مدلل خطاب کو سننے کے بعد
ہر ذی شعور کے لیے یہ فیصلہ کرنا آسان ہو جاتا ہے کہ اختلاف کی بنیاد ڈالنے
والے اور امت مسلمہ کے شیرازے کو بکھیرنے والے کن بوسیدہ اور گھسے پٹے
نظریات کو لے کر اٹھے ہیں اور ان کا اصل مشن کیا ہے؟ اس سے عوام الناس کو
کیسے بچنا چاہیے اور علما اس میدان میں اپنی ذمہ داریاں کیسے پوری کرسکتے
ہیں ۔
یہ ویڈیو الحمد للہ اپ لوڈ کردی گئی ہے، یوٹیوب پر اس کا عنوان ہے:
Difference between Ahle Sunnat and gher muqalideen
بیان کے بعد مولانا ابن الحسن عباسی کے دولت کدہ پر کھانا تناول کیا اور
آرام کرنے کے لیے گلشن اقبال کا رخ کیا۔
14 جنوری: مولانا محمد الیاس گھمن مدظلہم نے جمعة المبارک کا خطبہ ”الکبریا
مسجد“ دھوراجی میں دیا۔ جمعہ کے بعد مقامی احباب سے ملاقاتیں طے تھیں ان سے
فراغت کے بعد ہم اشرف المدارس کے شیخ الحدیث مولانا عبد الرشید دامت
برکاتہم کے مکان پر گئے اور کافی دیر تک مختلف امور پر مشاورت رہی۔ نماز
عصر کے بعد بڑے حضرت عارف باللہ حضرت اقدس مولانا الشاہ حکیم محمد اختر
دامت برکاتہم کی خانقاہ میں حاضری ہوئی۔یہاں میں یہ بات بتاتا چلوں کہ
مولانا محمد الیاس گھمن حضرت والا کے خلیفہ مجاز ہیں۔ عصر سے مغرب تک
صاحبزادہ مولانا حکیم محمد مظہر دامت برکاتہم سے کمرہ خاص میں ملاقات رہی ۔
نماز مغرب کے بعد حضرت والا کی خدمت میں حاضر ی ہوئی ۔ مولانا محمد الیاس
گھمن نے حضرت والا کو مسلکی کام کی کارگزاری سنائی ۔ حضرت والا اس دوران
بڑی محبت سے مولانا کو دیکھ دیکھ کر مسکراتے رہے۔ مولانا نے کارگزاری مکمل
کی تو حضرت والا نے خوب دعاﺅں سے نوازا ۔ بعد میں مولانا نے حضرت کو راقم
الحروف کا تعارف کرایا اور دعاﺅں کی درخواست کی ۔ حضرت والا کے خلیفہ مجاز
ڈاکٹر عبد المقیم صاحب دامت فیوضہم وہ بھی لاہور سے تشریف لائے ہوئے تھے
اور وہاں موجود تھے ۔ حضرت والا کی خدمت میں حاضری کے وقت حضرت والا کے
خلیفہ خاص سید عشرت جمیل صاحب سے ملاقات ہوئی جو” میر صاحب “کے لقب سے
مشہور ہیں۔ نماز عشاء گول میمن مسجد میں ادا کی بعد ازاں ساتھیوں سے تفصیلی
گفتگو اور سوال و جواب کی نشست ہوئی ۔
15 جنوری: صبح 8 بجے گلستان جوہر میں مولانا عزیز الرحمن ہزاروی دامت
برکاتہم کی زیر سرپرستی زیر تعمیر خانقانہ عزیزیہ میں مقامی ساتھیوں سے
ملاقات ہوئی ۔ 9 بجے مدرسہ ابن عباس میں فضیلة الشیخ محمدموسی عراقی سے
ملاقات کی عجوہ کجھوروں اور عربی قہوے کا دور چلا۔ بعد ازاں شیخ موسی کی
دعوت پر متکلم اسلام مولانا محمد الیا س گھمن نے طلباءنہایت پرمغز خطاب
فرمایا ۔
پورے ملک میں مدرسہ ابن عباس عربی تعلیم و تعلم کے حوالے سے جانی پہچانی
اور مشہور درس گاہ ہے۔تقریباً 12 بجے قیوم آباد میں مولانا محمد جعفر صاحب
کے مدرسہ اور اقراء سکول میں ملاقات اور ساتھیوں سے مختصر گفتگو رہی۔ ساڑھے
12 بجے دار العلوم کورنگی میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی
دامت برکاتہم سے ملاقات ہوئی حضرت نے کام کے حوالے سے کافی مفید مشوروں سے
نوازا۔ نماز ظہر مدنی مسجد ناگن چورنگی مولانا سعد اللہ شاہ کے ہاں جاکر
ادا کی ۔ مولانا سعد اللہ شاہ صاحب شہید ناموس صحابہ جرنیل اہل السنت
مولانا محمد اعظم طارق شہید کے بھانجے ہیں اور مسلکی حوالے سے کام کے بارے
میں بہت متفکر رہتے ہیں ۔ نماز عصر مرکز درخواستی میں ادا کی ۔نماز مغرب کے
بعد نور مسجد گلشن اقبال کراچی کے احباب سے نشست ہوئی اور مولانا نے علمی
فکری اور تربیتی گفتگو فرمائی ۔ نماز عشاء سہراب گوٹھ میں مولانا عبد
الوحید صاحب کے مدرسہ معارف القرآن میں ادا کی اور وہیں پر ہی طعام کا
انتظام بھی تھا ۔ رات 11 بجے ملک کی معروف دینی یونیورسٹی جامعة الرشید
پہنچے جہاں پہلے سے ہر دلعزیز،نوجوانوں کی آئیڈیل شخصیت جابر وقت کی آنکھوں
میں آنکھ ڈالنے والے اور مجاہد ہند مولانا عزیر گل رحمہ اللہ کے جانشین سید
محمد عدنان کاکا خیل اور دنیائے صحافت میں اسلامی کلچر اور شعار کے فروغ کے
داعی برادرم مولانا عبد المنعم فائز نے مولانا کا پرتپاک استقبال کیا اور
مولانا کو شعبہ تخصصات کے جمیع طلبہ میں بیان کے لئے لے گئے ۔
تمام طلباء ایک بڑے ہال میں جمع تھے مولانا نے 2 گھنٹے کا نہایت عالمانہ
بیان فرمایا ۔ بیان کے بعد سوال و جواب کی نشست ہوئی جس میں حضرت نے طلباء
کے سوالات کے مدلل اور مبرہن جوابات ارشاد فرمائے اس سے ابھی فراغت ہوئی ہی
تھی کہ خانوادہ علامہ انور شاہ کشمیری کے چشم وچراغ رئیس شعبہ تخصصات مفتی
ابو لبابہ شاہ منصور دامت برکاتہم تشریف لائے۔مفتی صاحب کی خواہش پر مولانا
نے مزید آدھ گھنٹہ گفتگو فرمائی ۔ اس گفتگو میں مولانا نے ممات کی حقیقت کو
واضح کیا اور سماع موتی کے مسئلہ کی تنقیح کی ۔ عام اموات اور انبیاء علیہم
السلام کی حیات بعد الممات میں فرق کا جو اصولی موقف اہل السنت و الجماعت
کے ہاں مسلم ہے مولانا نے اس کو دلائل سے واضح فرمایا ۔ بعد ازاں جامعہ کے
دارالضیوف میں مفتی ابو لبابہ شاہ مدظلہ سے طویل نشست ہوئی رات 2 بجے
روزنامہ اسلام کی ٹیم نے مولانا الیاس گھمن حفظہ اللہ کا انٹرویو لیا۔
انٹرویو پینل میں مولانا محمد معاویہ اور مولانا محمد ساجد شریک شعبہ صحافت
کورس شامل تھے ۔
16 جنوری: صبح 8 بجے جامعة الرشید میں جانشین حضرت والا مفتی رشید احمد
لدھیانوی حضرت مفتی عبد الرحیم المعروف بہ استاد صاحب دامت برکاتہم کے ہاں
ناشتہ کا اہتمام تھا ۔ دوران ناشتہ دور حاضر کے فتنہ پروروں کے افکار خصوصاً
جاوید احمد غامدی کے بارے میں گفتگو ہوتی رہی ۔
دن میں چند اہم مصروفیات کو نمٹایا اور بعد نماز عشاءپی۔ اے۔ ایف کالونی
میں درس قرآن دیا۔ مولانا کا یہ درس قرآن بھی انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کر دیا گیا
ہے ۔ سورة فاتحہ کے اسرار و رموز اور علوم و معارف کو متکلم اسلام کے
انتہائی تفہیمانہ انداز میں سننے کے لئے اس کو ضرور سماعت فرمائیں ۔یہ
ہماری سائٹ کے مین پیچ پر آپ کو نظر آجائے گا ۔
17 جنوری : دن 11 بجے ادارہ علوم القرآن منظور کالونی میں علماءاور طلباء
سے خطاب کے بعد دن ساڑھے 12 بجے دارالعلوم کراچی میں شیخ الاسلام مفتی محمد
تقی عثمانی دامت برکاتہم سے ملاقات ہوئی جس میں مفتی صاحب سے ”احناف میڈیا
سروس “کے حوالے سے تفصیلی مشاورت ہوئی ۔ دن 3 بجے مہران کالونی کورنگی میں
جامعہ انوارالعلوم میں علماءاور طلباء سے مختصر خطاب کے بعد تین تلوار میں
ائیر کام کے ساتھیوں سے ملاقا ت ہوئی اور سٹوڈیو چینل کے بارے میں مشاورت
ہوئی ۔ نماز عصر ختم نبوت کے دفتر میں ادا کی اور وہاں عملے سے ملاقات کی ۔
بعد نماز عشاء ڈیفنس فیز 6 میں واقع مسجد عمیر میں درس قرآن دینے کے بعد
آرام کے لئے کارساز میں مولانا شمس الرحمن متخصص مرکز اہل السنة والجماعة
کے گھر کا رخ کیا۔
18 جنوری:دن 10 بجے محدث العصر علامہ محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کی عظیم
دینی درسگاہ جامعة العلوم اسلامیہ بنوری ٹاﺅن میں ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر
دامت برکاتہم سے ملاقات کی ۔ مولانا نے حضرت ڈاکٹر صاحب کو مسلکی کام کی
کارگزاری سنائی ۔ بعد ازاں جون میں اسلام آبا دمیں ہونے والے امام اعظم ابو
حنیفہ سیمینار کی تیاریوں کی تفصیل سے بھی آگاہ کیا ۔ حضرت ڈاکٹر صاحب نے
بہت بہت دعاﺅں سے نوازا اور مفید مشورے عنایت فرمائے ۔ بوقت رخصت حضرت نے
کتابوں کا تحفہ عنایت فرمایا۔
نماز ظہر کے وقت ہم مفتی محمد نعیم صاحب دامت برکاتہم کے معروف دینی ادارے
جامعہ بنوریہ العالمیہ سائیٹ میں پہنچے یہ مدرسہ متکلم اسلام مولانا محمد
الیاس گھمن کی مادر علمی ہے ۔ مولانا نے درجہ اولی ، ثانیہ اور ثالثہ جامعہ
بنوریہ میں پڑھے ہیں ۔ جامعہ بنوریہ میں مولانا ساجد صاحب ، مفتی نعمان
صاحب ، مولانا عبد الحمید صاحب اور مولانا باقی صاحب سے ملاقات ہوئی ۔ موخر
الذکر دونوں حضرات مولانا گھمن صاحب کے اساتذہ ہیں۔ مفتی نعیم صاحب اپنی
مصروفیات کے باعث جامعہ سے دور تھے جس کے باعث ملاقات نہ ہوسکی اور صرف فون
پر ضروری ضروری باتیں سن سنا لی گئیں ۔ دن کے بقیہ حصے میں مختلف ساتھیوں
سے ملاقاتیں ہوئیں ۔بوجوہ ہماری سیٹیں کنفرم نہیں ہوئی اس لئے راقم الحروف
نماز عصر کے وقت سے ائیر پورٹ پر موجود تھا ۔ 8 بجے سیٹیں کنفرم کرا کر
حضرت کو اطلاع کی تو وہ 9 بجے ائیر پورٹ پر تشریف لے آئے ۔ کسٹم اور بورڈنگ
کے مراحل سے فارغ ہونے میں ایک گھنٹہ لگ گیا۔ 10 بجے ہم بورڈنگ کارڈ لے کر
لاﺅنج میں داخل ہوئے اور نماز عشاء ادا کی ۔ پونے 11 بجے پی۔ آئی۔ اے کی
فلائٹ پی ۔کے 213 پر پہنچے رات گیارہ بجے جہاز نے کراچی ائیر پورٹ سے ٹیک
آف کیا اور رات بارہ بج کر 20 منٹ پر دبئی انٹر نیشنل ائیر پورٹ پر لینڈ
کیا۔ ائیر پورٹ سے باہر آنے میں دو گھنٹے لگ گئے ۔ مقامی ساتھی پہلے ہی سے
منتظر تھے ملاقات کے بعد گھر پہنچے مولانا فرمانے لگے کہ وقت کافی ہو چکا
ہے فجر پڑھ کر ہی آرام کریں گے ۔ دن 10 بجے ہم بیدار ہوئے اور ”راس الخیمہ“
کا رخ کیا۔ دبئی میں ہمارا قیام صرف 4 دن کا تھا ان چار دنوں میں ہم نے ”ام
القوین “کے علاوہ بقیہ چھ ریاستوں کا دورہ کیا۔ یہاں ساتھیوں سے ملاقاتیں ،
بیانات ، کام کی ترتیب کے بارے میں مشورے انڈیا سے تشریف لائے ہوئے مہمانوں
سے تفصیلی مشاورت وغیرہ مصروفیات میں پتہ ہی نہ چلا کہ چار دن کیسے گزر گئے
۔
شارجہ کے تبلیغی مرکز میں وہاں کے احباب کی خصوصی دعوت پر متکلم اسلام
مولانا محمد الیاس گھمن شب جمعہ پر تشریف لے گئے ۔ اہل حق کے اس عظیم مرکز
میں عوام الناس کا ایک جم غفیر جمع تھا۔ مرکز کے ذمہ داران نے مولانا کو
مرکز کا دورہ کرایا اور دعوتی کام کی تفصیل سے آگاہ کیا۔ اللہ تعالی اس
مرکز کو اور پورے دنیا میں تمام مراکز کو اپنی خاص حفاظت میں رکھے ۔اور ان
کے بد خواہوں کو راہ ہدایت نصیب فرمائے ۔ چار دن کے مختصر قیام کے بعد
مولانا الیاس گھمن دامت برکاتہم نے 23 جنوری کی صبح کو دبئی سے واپس لاہور
کے لئے روانہ ہوئے ۔ راقم الحروف بعض ناگزیر مصروفیات کی وجہ سے مولانا کے
حکم پر وہیں ٹھہرا رہا۔ اور اس سے اگلے دن 24 جنوری کو پی آئی اے کی فلائٹ
204 سے ساڑھے بارہ بجے دبئی ائیر پورٹ سے روانہ ہوا۔ اور شام ساڑھے 4 بجے
وطن عزیز واپس پہنچے ۔ |