قصہ یوں ہے کہ نائن الیون کے بعدبھارت نے امریکاکی گودمیں
بیٹھ کرافغانستان کوٹارگٹ بناکرجوسرمایہ کاری کی تھی،اس کاایک مقصدبھارتی
ہندوؤں کی مکاری کی علامت چانکیہ سیاست کے اصول کے مطابق دشمن کے پڑوسیوں
کو بھی دشمن بنانا ،پھراس کونیست ونابودکرنا ہے۔ جنرل محمدضیاء الحق نے روس
کی افغانستان میں جارحیت کے مرحلہ میں یہ پلان ترتیب دیاتھاکہ روس کی جو
شکست یقینی تھی کے بعدافغانستان اورپاکستان مسلم رشتہ سے جڑے ہونے کے ناطے
یک قلب دوجان ہوں گے اورایساہوتابھی مگرمحمدخان جونیجو نے جلد بازی میں
ضیاء الحق کی بات نہ مان کر افغانستان کوبھی ہاتھوں سے نکال دیا اوراپنی
وزارتِ عظمیٰ سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے اورپھرکچھ ہی عرصے بعد فضائی تخریب کاری
نے جنرل ضیاء الحق کی شہادت کے ساتھ اس منصوبے کوبھی ختم کردیا۔
راقم 1989ء میں جب تورابوراافغانستان کے ایک مقامی اہم کمانڈرسے تبادلہ
خیال کررہاتھاتواس مقامی کمانڈرنے بتایاکہ روس کوماربھگانے کے بعد ہم ان
شاء اللہ پاکستان کے ساتھ مل کرمقبوضہ کشمیرکوبھی آزادکروانے کے پابندہیں ۔
ضیاء الحق کی شہادت کے بعدکشمیرکی آزادی کا خواب بھی شرمندۂ تعبیرنہ
ہوسکا۔ضیاء الحق نے کشمیرکے رہنماؤں سے حرم پاک میں بیٹھ کر''جہاد
کشمیر''کی منصوبہ بندی کی تھی اوراس میں مقبوضہ کشمیرکے رہنماء بھی شریک
تھے اوراس پلان کے تحت سکھوں سے بھی رابطہ کیاگیااورمذہبی وسیاسی جماعت کے
ایک رہنماء نے بیک ڈورپالیسی کے ساتھ رابطہ کاکام سرانجام دیااورننکانہ میں
آنے والوں سے نشستیں بھی ہوئی تھیں ۔پھرسانحہ ضیاء الحق کاخوب فائدہ بھارت
نے سمیٹااورافغانستان کی خانہ جنگی کافائدہ اٹھاتے ہوئے قدم جمانے شروع کیے
جب امریکانے اپنے حواریوں کے ساتھ افغانستان میں داخل ہواتو بھارت کے مزے
آگئے اور امریکا کے لاڈلے بھارت نے افغانستان میں جس سے اس کی نہ سرحدیں
ملتی ہیں نہ کوئی مذہبی رشتہ وناطہ ہے،اس ملک میں بھاری سرمایہ کاری ہی
نہیں کی بلکہ تخریب کاری کے اڈّے قائم کرکے پاکستان میں تخریب کاری کوپروان
چڑھایااورپاکستان میں بم دہماکوں ،فوجی تنصیبات پرحملے،قاتلانہ خودکش حملوں
کی ایسی لہراٹھائی کہ پاکستان کی معیشت لرزکررہ گئی۔
افسوس اوردکھ کامقام تویہ ہے کہ اس مرحلہ میں ایران نے بھی بھارت کاخوب
ساتھ دیا۔بھارت کا حاضرسروس فوجی افسرکلبھوشن ایران میں بیٹھا پاکستان میں
تخریب کاری کراتارہا اور بھارتی سرمایہ تخریب کاری کے ذریعے پاکستان
کودوپاٹوں میں پیس کررکھ دینے کے مذموم منصوبہ پر سرگرم رہا ۔1988ء میں
شہادت ضیاء الحق سے 2018ء یعنی 30سال تک بھارت افغانستان میں اپنا کھیل
کھیلتا رہااورپاکستاان کے سیاسی حکمرانوں کوتجارتی لولی پاپ سے
بہلاتارہا،اس نے انہیں یہاں تک رام کرلیا کہ نوازشریف نے بھارتی جاسوس
کلبھوشن کی گرفتاری پربھی ایک لفظ بھی اس کی مذمت میں نہ کہا۔تف ہواس سیاست
کی سیاہ کاری پرجوکاروکاری جیسی رہی۔اب 2018ء میں پاکستان میں جب سی پیک کے
ساتھ سعودی عرب ،قطر اور عرب امارات کی سرمایہ کاری کاسلسلہ ہائے درازہے
توبھارت کے پیٹ میں مروڑاورایران کے قلب میں حسدنے سرابھاراہے۔دونوں نے
پاکستان کواس ترقی سے روکنے کیلئے جنگی ماحول اور جھوٹی جنگ کاوہی طریقہ
اپنانے کافیصلہ کیاجو1965ء کی جنگ کی صورت بھارت نے کیاتھا۔
اس زمانے میں پاکستان کی صنعتی ترقی جواپنے ایسے عروج پرتھی جس پرنہ صرف
کئی ایشیائی ممالک بلکہ چین جیسا ہمسایہ ملک بھی رشک کرتاتھامگر 1965ء کی
جنگ نے ہماری معاشی ترقی کورول بیک کرناشروع کردیااوراس جنگ کے ساتھ ہی
پاکستان کے اندرجمہوری جنگ کابیج بھی عالمی منصوبہ سازوں نے بودیاکہ
پھرجمہوری حکمرانوں نے پاکستان کوبری طرح نوچ ڈالالیکن اب ایک عرصے کے
بعدپاکستان کی معاشی صورت حال بہتری کی طرف گامزن ہورہی ہے اور سی پیک
کامنصوبہ بھی نہ صرف خطے میں بلکہ عالمی طورپرایک بڑی تبدیلی کی نویدہے ،پاکستان
کواس منصوبے کوختم کرنے کیلئے شدید دباؤ میں لانے کیلئے امریکا،اسرائیل
اپنے لے پالک بھارت کو استعمال کر رہاہے لیکن افغانستان میں امریکا کی
پسپائی کے بعدانخلاء کیلئے امن کی بھیک کے نام پرجاری مذاکرات نے موجودہ
صورتحال کا نقشہ ہی تبدیل کردیاہے ۔
امریکاافغانستان سے پاکستان کی مددسے راہِ فراراختیارکی تیاریوں میں مصروف
ہے جس نے جہاں بھارت کی راتوں کی نیندحرام کردی ہے وہاں ایران بھی پریشان
ہے کیونکہ ان کی 30سالہ محنت دریابردہونے جارہی ہے اوریوں یہ جنگ کاماحول
بھارت کاپیداکردہ ،اس ہی خوف کاکانتیجہ ہے ۔ چاہ بہارمنصوبہ بھی کسی خزاں
رسیدہ پتوں کی مانندلرزناشروع ہوگیاہے جس پرایران اور بھارت نے حال ہی میں
کافی سرمایہ کاری کاآغازبھی کیاہے۔ افغانستان میں توبھارتی خزانہ لٹنا ٹھہر
ہی گیاتھالیکن اب چاہ بہارکی سرمایہ کاری کوڈوبنے سے کوئی نہیں
بچاسکتا۔دیوارپرلکھابھارت کو نظرآرہاہے۔ جنگ تھمی ہے رکی نہیں ،معرکہ
ہندتوہوناہی ہے جس میں بھارت اوراسرائیل کی تباہی لکھی ہوئی ہے مگرپڑوسی
ایران کیوں بھارتی ''چتا ''جلتادیکھنا چاہتاہے۔سوال یہ ہے کہ بھارت ،
اسرائیل اورامریکاتواسلام کے دشمن ہیں اورحال ہی میں قصرسفیدکے فرعون ٹرمپ
نے امریکاکے مشہورٹی وی اینکر کو اپنے ایک انٹرویومیں مسلمانوں سے اپنی
شدیدنفرت کابرملااظہارکیاہے لیکن ایران پھربھی اس کاساتھی کیوں؟پاسدارانِ
انقلاب کے ایرانی سپہ سالارکیوں زہراگل رہے ہیں؟کیا انہیں بھی خطرہ ہے کہ
پاکستان ،ایران سے وہ علاقہ مانگ لے گاجوقیام پاکستان کے بعدایران میں شامل
کرلیا گیاتھااورجہاں کے تیل نے ایران کوخوشحال کیا،بات بڑھی توپھر شاید
ایسابھی ہوگا۔ ایرانی انقلاب کاجواں ہمت اوروفادارسپاہی ایرانی وزیرخارجہ
محمد جوادظریف جس نے 2015ء میں ایران کے جوہری پروگرام کے مذاکرات میں اپنی
بہترین سفارت کاری سے کامیابی حاصل کرکے ایک تاریخ رقم کی تھی ،اس نے
بالآخر25فروری 2018ء کواپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ میں اپنے استعفے کااعلان
کردیا،باخبرذرائع کے مطابق انہوں نے اپنی حکومت کوخطے میں موجودہ پالیسیوں
سے یکسرعلیحدگی کامشورہ دیاتھا۔
|