حکومت نے صدا بلند کر دی ہے کہ ”کالے دھن کو سفید کرا
لو“۔اگر یہی صدا لگانا تھی تو احتساب کا ڈرامہ اور اتنی انارگی پھیلانے کی
کیا ضرورت تھی ۔این آر او کو ملک سے غداری کہنے والے ،اب خود غداری کے
مرتکب نہیں ہو رہے ؟پاکستان میں کوئی بچہ بھی کرپشن سے خوف ذدہ نہیں
ہے۔کیونکہ اسے اندازہ ہے کہ ہر دو تین سال بعد حکومت کی جانب سے کوئی
ایمنسٹی اسکیم آئے گی اور وہ اپنی کرپشن اور غلط طریقے سے کمائے ہوئے کالے
دھن کو سفید کر کے سکون کرے گا۔یعنی بہت ہی کم شرح سود پر کالے دھن کو صاف
کر دیا جاتا ہے ۔مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو تحریک انصاف کرپٹ لوگوں کا دوست
کہتی رہی ہے۔انہوں نے بھی ٹیکس ایمنسٹی سکیم متعارف کروائی تھی ،جس پر
عمران خان اور اسد عمر جو اب وزیر اعظم اور وزیر خزانہ ہیں،سیخ پا ہو گئے
تھے ۔انہوں نے بیانات دیئے تھے کہ اس سکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کی دوبارہ
تحقیقات کرائی جائیں گی اور ان پر ٹیکس عائد کیا جائے گا۔اس وقت کیونکہ
پارلیمنٹ نے اس سکیم کو منظور کیا اور سپریم کورٹ نے اسکیم کو کلیئر کیا ۔اس
ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے قومی خزانے میں 297ارب روپے کے قریب ریونیو حاصل ہوا
تھا ،کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو نیم کامیابی حاصل رہی تھی۔
تحریک انصاف یو ٹرن (جھوٹ بولنے)کی ماسٹر سمجھی جاتی ہے ،انہیں یوٹرن لیتے
ہوئے کوئی شرم وحیا نہیں آتی ۔اس میں جتنے بھی بڑے عہدے دار ہیں ،ان کی
سپیشلائزیشن جھوٹ بولنا ہے ۔ان کی نوکری اس بات پر ٹکی ہوتی ہے کہ انہیں
اتنے پختہ انداز میں جھوٹ بولنا ہے کہ سچ کا گمان ہو ۔
دنیا کے کسی خطے میں اتنی کم شرح پر اتنی زیادہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیمیں نہیں
دی گئی،جتنی پاکستان میں دی گئی ہیں ۔یعنی جتنا تعاون کالے دھن والوں کے
ساتھ پاکستان میں ہوتا ہے پوری دنیا میں نہیں ہو سکتا ۔پاکستان میں ہر
حکومت ٹیکس ایمنسٹی اسکیم دینا اپنا فرض منصبی تصور کرتی ہے ،حالانکہ وزارت
خزانہ کو باخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اسلیم ناکام ہونی ہے ،کیونکہ ماضی
میں جتنی بھی ٹیکس ایمنسٹی اسکیمیں لائی گئیں وہ بری طرح ناکام ہوئی۔لیکن
مسلم لیگ (ن) نے اسے کسی حد تک کامیاب کیا تھا۔کیونکہ انہوں نے اسکیم سے
فائدہ لینے والوں کو تمام معاملات کو مکمل سیغا رازمیں رکھنے کا یقین
دلوایا اور انہیں بھر پور قانونی تحفظ بھی دیا گیا ۔لیکن موجودہ حکومت ٹیکس
ایمنسٹی اسکیم کا نفاذ بنیادی شرائط کو پورا کرنے کے بغیر کر رہی ہے۔اس لئے
کوئی شک شبہ کی بات نہیں کہ اس اسکیم کے نتائج ناکامی کی صورت میںہوں گے۔
اب زرا بات ہو جائے کہ کرپشن کے خلاف کسی قسم کا این آر او نہیں کرنے والے
وزیر اعظم نے خود اس اسکیم کی منظوری دی ہے،یہ وہ عمران خان ہیں جو کسی طرح
کے این آر او کو ملک سے غداری کے زمرے میں لیتے ہیں ۔لیکن اب انہوں نے اس
اسکیم کے تحت بے نامی اثاثوں پر 10فیصد اور دیگر اثاثہ جات کی مالیت پر
7.5فیصد کی وصولی پر کرپشن ختم کرنے کے این آر او کی منظوری دی ہے ۔اب
عمران خان اور اسد عمر جیسے ذہین ترین شخصیات کے پاس یہی آخری کلیہ رہ گیا
ہے جس سے ملک کی معیشت کو مستحکم کیا جا سکتا ہے ۔اسد عمر نے معیشت کو پاﺅں
پر کھڑا کرنے کے لئے دوبارہ ڈیڑھ سال کا وقت مانگ لیا ہے۔حالانکہ عام معیشت
کے طالب علم کو بھی معلوم ہے کہ معیشت کو جس ڈگرپر اسد عمر لے کر چل رہے
ہیں ،وہاں معیشت مزید تباہی سے دوچار ہو گی ، مہنگائی بڑھنے کے باوجود
معیشت کو استحکام نہیں ملے گا۔
عمران خان اور اسد عمر یہ دونوں بڑی شخصیات اقتدار سنبھالنے سے پہلے ٹیکس
ایمنسٹی اسکیم کو کرپشن اور جرائم سے حاصل شدہ رقوم کو صاف شفاف کرنے کا
آسان طریقہ کہتے رہے ہیں اور اس کی سخت مخالفت بھی کرتے تھے ۔ اسکیم کو
حکمرانوں کو اپنے کرپٹ اور جرائم پیشہ دوستوں کی فیور کا نام دیتے رہے
ہیں،آج وہی کام یہ خود کر رہے ہیں ۔
قوم کو بہت امید ہے کہ اسد عمر ملکی معیشت کو سنبھالا دیں گے ،لیکن اگر
بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکاتو عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ٰایم ایف) سمیت
مختلف ممالک سے جو قرضہ لیا گیا ہے اور جو قرضے لے رہے ہیں وہ قرضوں کی
ادائیگی کے لئے نہیں بلکہ قرضوں پر سود کی مد میں دیئے جا رہے ہیں ، یہ ایک
حقیقت ہے کہ پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے ،پاکستان قرضوں کی
ادائیگی تو دور کی بات ہے بلکہ قرضوں کی سود کی ادئیگی کے قابل نہیں رہا ہے
۔سود کی ادائیگی کے لئے قرضے تشویشناک صورت حال اختیار کر گئے ہیں ۔اسی لئے
لگتا یہی ہے کہ اسد عمر کا ڈیڑھ سال کا وقت لینا بھی عوام کو بیوقوف بنانے
کا طریقہ ہے ۔افسوس ہے کہ تحریک انصاف کے اعلیٰ عہدیدارآج بھی یہ سمجھ رہے
ہیں کہ جس طرح 2018ءکے انتخابات سے پہلے جھوٹ کے سہارے اقتدار تک پہنچ گئے
ہیں ،اسی فارمولے سے حکومت کے پانچ سال بھی گزار جائیں گے اور کوئی پوچھنے
والا نہیں ہو گا۔کیونکہ پاکستان میں پوچھنے کا رواج تو نہیں رہا ہے
۔الزامات ہر کسی پر لگائے گئے ،مگر اسے ثابت نہیں کیا جا سکا ۔مفادات کی
بھینٹ چڑھتے ہوئے ملکی معیشت خطرناک حد تک تشویش میں مبتلا ہے ، مگر
حکمرانوں کو ابھی بھی اس سنجیدہ صورت حال کا ادراک نہیں ہے،وہ اپنی پرانی
روش پر چل رہے ہیں ۔ملک کی بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ ایک جانب مہنگائی بڑھ رہی
ہے تو دوسری جانب معیشت کو استحکام نصیب نہیں ہو رہا ہے ۔حکمرانوں کی
انتقامی پالیسیوں نے ملکی معاشی صورت حال میں اور بیگاڑ پیدا کیا ہے ۔ایف
آئی اے ،ایف بی آر کی ناقص اور ظالمانہ پالیسیوں سے معیشت بہتری کی بجائے
ابتری کی جانب رواں دواں ہے ۔سرمایہ کار اور دولت مند پریشانی سے دوچار
ہیں۔کاروباری حضرات سرمایہ کاری کرنے سے کتراتے ہیں ،نیب کی ناقص پالیسیوں
نے ملکی معیشت کو دیوالیہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔
ملک میں سازگار ماحول پیدا کرنا ہو گا۔غیر یقینی صورت حال سرمایہ کاری کے
لئے سب سے بڑا نقصان ہے ۔حکومت کو اس بات کا احساس کرنا ہو گا کہ ملک کن
حالات سے گزر رہا ہے ، یہاں اتحاد ،اتفاق اور استحکام کی اشد ضرورت ہے
۔حکومت کو پہلے جھوٹ اور ڈرامے بازی کو چھوڑ کر سچائی کی جانب آنا ہو
گا،عوام کو بیوقوف بنانے کی بجائے اپنے آپ کو حقیقت پسند بنانے کی ضرورت ہے
۔جب تک حکومت سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لئے ساز گار ماحول پیدا نہیں کرے
گی ،اس وقت تک تمام اقتدامات کا نتائج ”صفر “ ہوں گے ۔یہ نوشتہ دیوار ہے
عمران خان، اسد عمر اور دوسرے پڑھنے والے جتنی جلدی پڑھ لیں اتنا اچھا
ہے،وگرنہ تاریخ انہیں میر جعفر اور میر صادق کے نام سے یاد کرے گی اور یہ
باقائدہ ملک سے غداری کے زمرے میں آئے گا۔عدالتیں انہیں ارٹیکل 6کے تحت سزا
دیں یا نہ دیں ،عوام ضرور انہیں سزا دے گی ۔ |