اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لیکر۔۔۔شیخ عبدالغنی مرحوم

کچھ کردار اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ الفاظ،جملے اور دیوان کے دیوان ان کی عظمت کا ایک حصہ بھی بیان کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ آج تحریک آزادی کشمیر کی ایک ایسی ہی عظیم شخصیت کے متعلق ہم کچھ حرف،لفظ اور جملے لکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

شیخ عبدالغنی مرحوم کا خاندان مظفرآباد کے نواحی علاقے پٹہکہ میں آباد تھا اور لکڑی کی تجارت کے سلسلہ میں آپ سرینگر کے نواح میں موجود سوپور کی مضافاتی آبادی ''ہندواڑہ'' میں منتقل ہوئے۔ دیانتداری،راست گوئی،معاملہ فہمی اور مخلوقِ خدا کے ساتھ محبت وشفقت کی پاکیزہ عادتوں کی بدولت اﷲ پاک نے آپ کے رزق میں برکت عطا فرمائی اور کچھ ہی عرصے میں علاقے میں آپ نے چار مکان تعمیر کر لئے۔ ان مکانات کی تعمیر کی جگہ آپ کچھ اور بھی کر سکتے تھے،سونا چاندی،ہیرے جواہر اور دیگر شاہانہ مصارف بھی موجود تھے لیکن قدرت شیخ عبدالغنی مرحوم کے سرمائے،صلاحیت اور ان مکانات کو ان کی نیک نیتی کی وجہ سے بڑے مقاصد کیلئے قبول کر چکی تھی اور وہ ''تحریک آزادی کشمیر'' کا مقدس مشن تھا
بقول میر تقی میر
جن کے لیے اپنے تو یوں جان نکلتے ہیں
اس راہ میں وے جیسے انجان نکلتے ہیں
کیا تیر ستم اس کے سینے میں بھی ٹوٹے تھے
جس زخم کو چیروں ہوں پیکان نکلتے ہیں
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
کس کا ہے قماش ایسا گودڑ بھرے ہیں سارے
دیکھو نہ جو لوگوں کے دیوان نکلتے ہیں
گہ لوہو ٹپکتا ہے گہ لخت دل آنکھوں سے
یا ٹکڑے جگر ہی کے ہر آن نکلتے ہیں
کریے تو گلہ کس سے جیسی تھی ہمیں خواہش
اب ویسے ہی یہ اپنے ارمان نکلتے ہیں
جاگہ سے بھی جاتے ہو منہ سے بھی خشن ہو کر
وے حرف نہیں ہیں جو شایان نکلتے ہیں
سو کاہے کو اپنی تو جوگی کی سی پھیری ہے
برسوں میں کبھو ایدھر ہم آن نکلتے ہیں
ان آئینہ رویوں کے کیا میرؔ بھی عاشق ہیں
جب گھر سے نکلتے ہیں حیران نکلتے ہیں

شیخ عبد الغنی مرحوم نے مظفر آباد پٹہکہ سے سرینگر کے نواحی علاقے ہندواڑہ نزد سو پور منتقل ہونے کے بعد نہ صرف کاروباری لحاظ سے بہت ترقی کی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے اپنے اعلی کردار اور حسن خلق سے اپنے ملنے جلنے والوں اور ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر گہرے نقوش مرتب کئے۔

یہاں یہ بتاتے چلیں کہ دو اور دو چار کرنے والے مادہ پرست لوگوں کے برعکس شیخ عبد الغنی مرحوم برے بھلے وقتوں میں ہر انسان کے کام آنے کو اپنے ایمان کا حصہ جانتے تھے۔قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کا تصور پاکستان جہاں ہندوستان کے ہر مسلمان کے دل میں گھر کر چکا تھا وہیں پر ریاست جموں و کشمیر کے طول و عرض میں بھی ایک مسلم ریاست کا خواب ہر کشمیری کی طرح شیخ عبد الغنی مرحوم کی زندگی کا مرکز و محور بن چکا تھا۔ سر سید احمد خان کی علمی تحریک اور علی گڑھ کالج سے بھی آپ عقیدت رکھتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ آپ اپنے تمام بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ مرکوز کئے ہوئے تھے۔

عموماً ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ روپے پیسے کی فراوانی اپنے ساتھ بعض برائیوں کو بھی لے آتی ہے لیکن اﷲ پاک کے فضل و کرم سے آپ تمام اخلاقی بیماریوں سے کوسوں دور رہے۔طبیعت میں خوبصورت اور مہنگے گھوڑے پالنے کا شوق تھا اور شہسواری کی طرف رغبت تھی۔ آپ کے پاس انتہائی اعلی نسل کے گھوڑے موجود تھے جو موسم گرما میں دنیاوی جنت کی اعلی ترین جگہ ''ولر جھیل کی چراہگاہوں'' میں آپ کی سواری ہوتے تھے۔ گھڑ سواری کے اسی شوق کی برکت سے آپکے چاروں بیٹے اکبر،اصغر،ابرار اور عطاء اﷲ بھی لڑکپن میں داخل ہونے سے پہلے ہی بہترین شہسوار بن چکے تھے۔

شیخ عبد الغنی مرحوم کا یہ گھراناعلامہ محمد اقبال کے اس شعر کی مصداق دکھائی دے رہا تھا
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کہستانی
مرد حق چوں اشتراں بارے برد
مرد حق بارے برد خارے خورد

شیخ عبد الغنی مرحوم کا مہمان خانہ صبح و شام کشمیری رہنماؤں سے بھرا رہتا تھامسلم کانفرنس کی لیڈر شپ کی بڑی بڑی میٹنگز یہاں منعقد ہوتی اور وطن کی آزادی کے خواب کی تصویر میں رنگ بھرے جاتے تھے۔ اسوقت کسی کشمیری کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ان پر کونسی قیامت ٹوٹنے والی ہے
قارئین ہندوستانی کانگریسی لیڈر شپ نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور دیگر با اثر فیصلہ سازوں سے گٹھ جوڑ کر کے پنجاب کے اکثریتی مسلم آبادیوں والے علاقوں بشمول گرداس پور کو پاکستان سے کاٹ کر ہندوستان کے حوالے کر دیا اور مہاراجہ ریاست و کشمیر پر دباؤ ڈال کر اسی گرداس پور کے راستے ہندوستانی فوج کو زمینی راستے سے کشمیر میں داخل ہونے کی راہ ہموار کر دی،جموں میں پوری منصوبہ بندی کے ساتھ دنیا کی تاریخ کے بدترین اجتماعی قتل و آبرو ریزی کی گھناؤنی داستان رقم کر کے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔

اس دوران پاکستان کے قبائلی علاقوں کے ہزاروں بہادر مجاہد کشمیری مجاہدین کی مدد کے لئے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔ شیخ عبد الغنی مرحوم کی رہائشی تحصیل ہندواڑہ ریاست جموں و کشمیر کی سب سے بڑی تحصیل تھی۔ آپ نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ لی اوراپنے نو عمر بچوں اکبر،اصغر،ابرار اور عطاء اﷲ کے ہمراہ مجاہدین کی رہائش اور خوراک کا انتظام کرتے رہے۔ ایک طرف ابلیس کے پیروکار تھے اور دوسری طرف رحمان کے بندے،ڈوگرہ فوج،نہرو اور شیخ عبد اﷲ گٹھ جوڑ کا مقابلہ شیخ عبد الغنی مرحوم اور ان کے ساتھی صرف ایمانی قوت کے ساتھ کر رہے تھے۔ 13 ہزار فٹ کے برفپوش پہاڑوں سے آ کر مجاہدین ہندواڑہ پہنچے اور دو ماہ کے قلیل عرصے میں فروری کے سرد موسم میں کشمیر کی سب سے بڑی تحصیل مسلمانوں کے قبضے میں آ گئی اور دشمن فوج اپنا جنگی ساز و سامان چھوڑ کر دم دبا کر فرار ہو گئی۔ اس تمام جنگ کے دوران شیخ عبد الغنی مرحوم اور ان کے بچے تمام وقت مجاہدین کے شانہ بشانہ رہ کر ان کی ہر محاز پر بھرپور مدد کرتے رہے۔

مجاہدین کی فوج کے سیکنڈ کمانڈر خالد بعد میں بریگیڈیر شیر خان شیخ عبد الغنی مرحوم کے بنگلے میں رہائش پذیر رہے اور دشمن اسی وجہ سے شیخ صاحب اور ان کے بچوں کی گرفتاری کے درپے رہا۔ جب ہندواڑہ فتح ہو گیا تو شیخ عبد الغنی مرحوم نے مقامی نظم و نسق کو بحال کرنے کیلئے زمہ دار اور معتبر شخصیات کو اکٹھا کر کے ''مقامی پنچایت نظام'' قائم کر دیا اور مقامی آبادیوں کے جان ومال کے تحفظ کے ساتھ ساتھ لشکری مجاہدین کے نظام پیغام رسانی اور دیگر سہولتوں کا اعلی انتظام کر دیا۔

اسی دوران ایک انتہائی ناخوشگوار صورتحال اس وقت پیدا ہو گئی کہ جب شیخ عبد الغنی مرحوم کے گاؤں ڈالی پورہ کے نواحی علاقے کی دو نوجوان خوبصورت پنڈت گھرانے کی لڑکیوں کو پکڑ لیا اور شیخ عبد الغنی مرحوم سے ان لڑکیوں سے شادی کروانے کا کہا۔ شیخ عبد الغنی مرحوم انتہائی بصیرت والے مسلمان تھے۔ انہوں نے لشکری مجاہدین کے کمانڈر کو بلا کر گرج کر کہا کہ
''یہ غیر اخلاقی حرکت کرنے والے لوگ مجاہدین کے نام پر بد نما داغ ہیں اور میں یہ گری ہوئی حرکت نہیں ہونے دوں گا''

شیخ عبد الغنی مرحوم کے اس مضبوط مؤقف پر ان بد تہذیبی قبائلی لشکریوں سے پنڈت خواتین کو واگذار کرواکر گندی مچھلیوں کو علاقہ بدر کر دیا گیا۔ اس واقعے سے دیگر مذاھب سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوئے اور عوام میں شیخ عبد الغنی مرحوم کی تکریم عروج پر پہنچ گئی۔
شیخ عبد الغنی مرحوم اپنے قول و فعل سے حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمۃ اﷲ علیہ کے ان اشعار کی عملی تصویر دکھائی دے رہے تھے
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن
گفتار میں، کردار میں اﷲ کی برہان!
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہمسایہء جبریلِ امیں، بندہء خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن!
قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان
جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں، وہ طوفان
فطرت کا سرودِ ازلی اس کے شب و روز
آہنگ میں یکتا، صفتِ سورہء رحمٰن
بنتے ہیں مری کارگہِ فکر میں انجم
لے اپنے مقدّر کے ستارے کو تو پہچان!

شیخ عبد الغنی مرحوم جس انداز میں اپنے بچوں اور رفقاء کار کی تربیت کر رہے تھے وہ حیران کن تھی۔ اخلاقی برتری ان کی تربیت کا جزو لازم تھا۔ آپ سب سے پہلے انسان کو اہمیت دینے کے قائل تھے اور زات،پات،برادری،کنبہ،قبیلہ سمیت دیگر تعصبات سے بہت بالاتر تھے۔ اخلاق کی اسی بلندی کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر مذاھب کے لوگ آپ سے بے انتہا عقیدت رکھتے تھے۔ یہاں ایک واقعہ بیان کر دیں تو آپ دوستوں کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ چونکہ شیخ عبد الغنی مرحوم کا گھر تحریک آزادء کشمیر کے لیڈرز اور مجاہدین کا ہندواڑہ میں ہیڈکوارٹر تھا اس لئے آئے روز مجاہدین آزاد کشمیر سے آپ کے پاس عارضی قیام کیلئے آتے تھے۔ایک دفعہ آپ کے گھر کچھ مجاہدین پہنچے تو ان کی مخبری پولیس کو کر دی گئی۔ پولیس نے شیخ عبد الغنی مرحوم کی رہائشگاہ کو گھیرے میں لے لیا۔ آپ نے مجاہدین کو گھر کے عقب میں بھینسوں کے باڑے میں منتقل کیا اور پولیس افسر کو عملے سمیت مہمان خانے میں بٹھا کر قہوہ پلایا۔ سکھ انسپکٹر نے سرسری سا جائزہ لیا اور آپ سے مصافحہ کر کے چلا گیا۔ مجاہدین جن کا تعلق مسلم کانفرنس سے تھا وہ سو پور سے ڈولی پورہ آپ کے بنگلے پر پہنچے تھے اور بہت تھکے ہوئے تھے۔ شیخ عبد اﷲ کی حکومت شیخ عبد الغنی مرحوم سے شدید نالاں تھی اور کسی نہ کسی بہانے آپ کو پابند سلاسل کرنا چاہتی تھی۔ مسلم کانفرنس کے ان مجاہدین نے کھانا کھا کر رات وہیں بسر کی اور اگلی صبح شیخ عبد الغنی مرحوم کے ساتھیوں کی رہنمائی میں پاکستان چلے گئے۔ سکھ تھانیدار اور پولیس عملے کے عقیدت مندانہ رویے سے شیخ عبد الغنی کے اخلاق کی طاقت کی فتح واضح ہوتی ہے جو غیر مذاہب کے لوگوں کے دلوں کو بھی تسخیر کر چکی تھی۔
بقول حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اﷲ علیہ
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

شیخ عبد الغنی مرحوم کے چاروں بیٹے بھی اپنے عظیم والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی تعلیم پر بھی بھرپور توجہ مرکوز کئے ہوئے تھے اور ساتھ ساتھ تحریک آذادی کشمیر کیلئے ہمہ وقت سرگرم عمل رہتے تھے
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
ہری شاخ ملت ترے نم سے ہے
نفس اس بدن میں ترے دم سے ہے
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دل مرتضی سوز صدیق دے
جگر سے وہی تیر پھر پار کر
تمنا کو سینوں میں بیدار کر
ترے آسمانوں کے تاروں کی خیر
زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر
جوانوں کو سوز جگر بخش دے
مرا عشق میری نظر بخش دے

قارئین شیخ عبد الغنی مرحوم اس وقت چو مکھی جنگ لڑ رہے تھے۔ ایک طرف شیخ عبداﷲ کی کٹھ پتلی حکومت،گاندھی،نہرو اور ڈوگرہ فوج کا گٹھ جوڑ،دوسری جانب مجاہدین اور مسلم کانفرنس کی لیڈر شپ کو موزوں ماحول فراہم کرنا،تیسری سمت میں اپنے کاروبار کو بحال رکھنا اور چوتھی ذمہ داری اپنے اہل وعیال کی دیکھ بھال اور بچوں کو اعلی تعلیم وترتیب فراہم کرنا۔ اﷲ پاک کے فضل و کرم سے آپ کی نیک نیتی کی وجہ سے چاروں محازوں پر آپ کو کامیابیاں مل رہی تھیں۔

یہاں ایک انتہائی دلچسپ واقعہ قارئین کے سامنے رکھتے چلیں جس سے شیخ عبد الغنی مرحوم کی نظریاتی و اخلاقی تربیت مزید واضح ہوتی ہے آپ کے بیٹے شیخ ابرار اس وقت آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے جب مہاتما گاندھی نے کوہالہ مظفرآباد کے راستے سرینگر جانے کیلئے رخت سفر باندھا۔ شیخ ابرار اس وقت سوپور کے سکول میں زیر تعلیم تھے اور ادارے میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن ہندوستان بھر کی طرح قائم تھی۔ ان طلباء نے میٹنگ میں ایک دلچسپ فیصلہ کیا۔ وہ فیصلہ کچھ اس انداز میں عملی شکل میں سامنے آیا۔ کوہالہ سے سرینگر کے راستے میں سنگرام نام کی ایک جگہ سوپور کے بالکل قریب تھی۔اس کراسنگ پوائنٹ سے گاندھی جی نے گزرنا تھا۔مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے طلباء شیخ ابرار سمیت سنگرام پہنچ گئے۔جب گاندھی جی اپنی گاڑی پر اس جگہ پہنچے تو شیخ ابرار اور ان کے طلباء ساتھیوں نے پاکستان کے حق میں فلک شگاف نعرے بازی شروع کر دی اور گاندھی جی کی گاڑی کے سامنے آ گئے۔ گاندھی جی اپنی گاڑی سے اترے تو طے شدہ منصوبے کے مطابق شیخ ابرار آگے بڑھے۔ ان کا قد چھوٹا تھا اس لئے غلام نبی پنڈت اور دیگر ایم ایس ایف کے کارکنوں نے انہیں کندھے پر اٹھا لیا اور شیخ ابرار نے قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر والا بیج گاندھی جی کے سینے پر لگا دیا۔ گاندھی جی نے فوراً کہا ''ہم نے پاکستان کی منجوری دے دی ہے''۔ پرجوش مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنوں نے شیخ ابرار کے ساتھ ایسی زبردست نعرے بازی کی کہ سارا علاقہ آزادی کی آوازوں سے گونج اٹھا۔
ہے کس کي ي ہ جرات کہ مسلمان کو ٹوکے
حري ت افکار کي نعمت ہے خدا داد
چاہے تو کرے کعبے کو آتش کدہ پارس
چاہے تو کرے اس میں فرنگي صنم آباد
قرآن کو بازیچہ تاویل بنا کر
چاہے تو خود اک تازہ شریعت کرے ایجاد
ہے مملکت ہندمیں اک طرفہ تماشا
اسلام ہے محبوس، مسلمان ہے آزاد
اگرچہ بعض تاریخ دان لکھتے ہیں کہ گاندھی جی ہندو قیادت میں وہ واحد لیڈر تھے جنھوں نے دل سے پاکستان کو زندہ حقیقت کے طور پر قبول کر لیا تھا لیکن سازشی تھیوری کام کر رہی تھی اور ہندوستان کے دیگر علاقوں کی طرح ریاست جموں و کشمیر کو بھی مسلمانوں کے لہو سے رنگین کرنے کا زہریلا منصوبہ آگے بڑھ رہا تھا۔

شیخ عبد الغنی مرحوم کے دیگر بیٹے بھی نوعمری کے باوجود تحریک آزادی میں کارہائے نمایاں انجام دینے میں پیش پیش رہے۔شیخ اکبر ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ خوراک, شیخ اصغرتمغہء جرائت پاکستان ایئر فورس،شیخ عطاء اﷲ ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت اور میجر ریٹائرڈ ڈاکٹر شیخ ابرار نے اپنے عظیم والد کے ہمراہ شجاعت کی داستانیں رقم کیں۔بھارتی افواج کے سرینگر میں اترنے کے بعد شیخ عبد الغنی مرحوم اور ان کے گھرانے کو اپنی حفاظت میں مظفر آباد پہنچایا۔بعد میں مجاہدین کے کمانڈر بریگیڈیئر شیر محمد راولاکوٹ سیکٹر میں قائد ملت چوہدری غلام عباس اور پروفیسر ایم اے عزیز سے بات چیت کر رہے تھے تو شیخ عبد الغنی مرحوم کا زکر چھڑ گیا اور بریگیڈیئر شیر محمد آبدیدہ ہو کر دیر تک شیخ عبد الغنی مرحوم کی وفات پر دعا کرنے کے بعد ان کے کارنامے بیان کرتے رہے۔پاک فوج نے شیخ عبد الغنی مرحوم کی اعلیٰ خدمات پر تعریفی سرٹیفکیٹ بھی جاری کیا جو ان کے بڑے فرزند شیخ اکبر نے وصول کیا۔

انشاء اﷲ وہ دن دور نہیں کہ جب آزادی کشمیریوں کے قدم چومے گی اور بلاشبہ شیخ عبد الغنی مرحوم جیسے عظیم گھرانے کشمیری قوم کیلئے سرمایہء افتخار ہیں۔مملکت پاکستان اور حکومت آزاد جموں وکشمیر کا فرض بنتا ہے کہ شیخ عبدالغنی مرحوم کی اعلیٰ خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے اس گھرانے کو ایوارڈز سے نوازا جائے آج بھی شیخ عبدالغنی مرحوم کے عظیم بیٹے میجر ڈاکٹر شیخ ابرار طبی خدمات کے ساتھ ساتھ قومی خدمات انجام دے رہے ہیں ان کا دل آج بھی سرینگر سوپور، ہندواڑہ اور کشمیر کو یاد کرتا ہے اﷲ مقبوضہ کشمیر کے بہن بھائیوں کے مشکل کے دن آسان کرے اور انھیں آزادی کی دولت نصیب کرے ۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ صدر مملکت و وزرائے اعظم پاکستان وآزاد کشمیر ایسے گمنام ہیروز کی خدمات کو قومی سطح پر اجاگر کرنے کا اہتمام کریں گے ۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت ، نہ کشور کشائی
دو عالم سے بیگانہ کرتی ہے دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی

Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374058 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More