مرکزیت جوریاست کی اصل قوت ہوتی ہے دھیرے دھیرے ہمارے ہاں
ناپید ہوتی چلی جارہی ہے۔ریاستی معاملات کسی مرکز سے کنٹرول ہونا چاہییں
۔سبھی اداروں،محکموں کواسی مرکز کے تابع ہونے چاہیں۔ان کی توانائیاں ایک
ہی محورمیں صرف ہوں۔ایسا ہونا امور ہائے ریاست باانداز احسن چلانے کے لیے
لازم ہے۔ مرکز ریاست کے مفادات کا تعین کرتاہے ۔ان کی بجا آوری کے لیے
لائحہ عمل تیار کرتاہے۔یہ لائحہ عمل سبھی کو فالو کرنا چاہیے۔کوئی ادارہ
بھی اپنی عقل ودانش کے نام پراس لائحہ عمل کو حقیر یا غیر ضروری قرار دے تو
معاملات بگڑ جاتے ہیں۔یہ لائحہ عمل عموماآئین اور قوانین کی صورت میں سامنے
آتاہے۔ان پر عملدرامدی ازحد ضروری ہے۔اس میں کیڑے نکالنے والے کبھی بھی
ریاست کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔ان پر بلاچوں چرا عمل پیراہونا ہی ریاست سے
وفاداری کا ثبوت ہے۔بدقسمتی سے ادارے مرکز کے تابع ہونے کی بجائے من مانیاں
کرنے کی طرف مائل ہیں۔اپنی عقل ودانش کو مقدم رکھنے کا غلط رجحان بڑھ
رہاہے۔یہ بڑا تباہ کن رجحان ہے۔ ایک دوسرے کا ساجھی اور مدد گار بننے کی
بجائے ادارے کھینچا تانی کا شکارہیں۔یہ رجحان بدگمانیاں اور احساس محرومی
بڑھانے کا سبب بن رہاہے۔اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
سپریم کورٹ نے نجی سکولوں میں فیسوں کے اضافے سے متعلق کیس میں وفاق اور
صوبائی حکومتوں کو نوٹس جاری کردیے ہیں۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے
کہ ریاست تعلیم کی فراہمی میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔وہ خود لوگوں کو نجی
سکولوں میں داخلوں پر مجبور کرتی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھاکہ ریاست
کی ناکامی سے پیدا ہونے والا خلا نجی سکولز پور ا کررہے ہیں مگر انہیں مادر
پدر آزادی بھی نہیں دی جاسکتی۔چیف جسٹس نے متنبہ کیاکہ اگلی سماعت پر
حکومتیں تیار ہو کر آئیں ۔آئندہ ہفتے سے روزانہ کی بنیا دپر سماعت ہوگی۔
سپریم کورٹ کی ابزرویشن بالکل درست ہے۔پرائیویٹ سکول بلا شبہ حکومتی عدم
توجہ کے سبب نمو پا رہے ہیں۔سرکار وسائل پر قادر ہونے کے باوجود اپنی
نالائقی سے نظام تعلیم کو بہتر بنانے میں ناکام رہی ہے۔پرائیویٹ سکولز کا
تصور سرکاری سکولوں کی اسی ناقص کارکردگی کے سبب پیدا ہوا۔ان سکولوں میں
ایک تو وقت کے ساتھ ساتھ اتنی وسعت نہیں آسکی کہ وہ بڑھتی آبادی کو کور
کرسکیں۔دوجے سرکاری سکولوں میں پائے جانے والے لاابالی رویے نے بھی تعلیم
کا معیار خراب کرنے میں بڑا رول پلے کیا۔۔اساتذہ اور دیگر سٹاف کے غیر پیشہ
ورانہ رویے نے سرکاری سکولوں میں تعلیم کی توقیربڑی حد تک کم کر دی۔جب
ماحول حد سے زیادہ بگڑ تا محسوس ہوا تو والدین کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ
نہ بچا کہ وہ بچوں کو سرکاری سکولوں سے اٹھوا کر نجی سکولوں میں لے
جائیں۔سرکاری سکولوں کی نالائقی اس سے بڑھ کرکیا ہوگی کہ والدین نجی سکولوں
میں دونے چونے اخرجات کرنے پر بھی آمادہ ہوگئے۔ نجی سکولوں میں دی جانے
والی تنخواہیں۔اور مراعات عشر عشیر بھی نہیں ہیں۔مگر پھر بھی سرکاری سکول
کا سٹاف اور انتظامیہ اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں کوتاہی کے مرتکب ہورہے
ہیں۔ایک مذید کوتاہی یہ ہوئی کہ بجائے سرکاری سکولوں میں بہتر ی لانے پر
توجہ دینے کے نجی شعبے کے لیے آسانیاں پیدا کی گئیں۔اس کی خرابیوں پر
آنکھیں بند رکھی گئی۔ان کے اوٹ پٹانگ قواعدو ضوابط پر چشم پوشی کی جاتی رہی
۔اس رویے نے بھی نجی سکولوں کو من مانیاں کرنے کی راہ دکھائی۔
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اگلے ہفتے سے روزانہ کی بنیا د پر سماعت ہوگی۔بے
شک ہوتی رہے۔تاہم اتنی احتیا ط لازم ہے کہ اس معاملے کے صرف متنازعہ حصے تک
ہی توجہ رہے۔اس کے انتظامی پہلوؤں کو انتظامیہ کے سپرد کردیا جائے۔انتظامی
امور کو عدالتی طور پر نبٹانے سے گزیز کیا جائے۔ہماری تاریخ کا ایک لمبا
چوڑا باب انتظامیہ کی پاور دوسرے اداروں کی طرف سے استعمال کرنے سے بھر
اپڑا ہے۔یہ رجحان درست نہیں۔سابقہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور ثاقب
نثار کے دور میں ایسی مداخلت بے جا متعدد بار دیکھی گئی۔۔جس شعبے کو دیکھو
عدلیہ اس سے متعلق گائیڈ لائن دے رہی ہے۔اس کو نکال دو ۔اس طرح کردو ۔ادھر
دیکھو۔ادھر نہ دیکھووغیر ہ وغیرہ۔چیف جسٹس ثاقب نثا ردور میں یہ رویہ مذید
نمایاں رہا۔ پانی ۔بجلی۔گیس ۔ہسپتال اورتو اور ڈیم تک کے معاملات کو عدلیہ
نے اپنے ہاتھ میں لینے کا تاثر دیا۔بات یہ نہیں کہ حکومت نالائق نہیں
۔قابلیت کا فقدان بلا شبہ ہے۔مگر ایک کوتاہی دور کرنے کے لیے بھلا کوئی ننی
کوتاہی کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ ایک غلطی تو حکومت کے ایک دو بندوں کی
نالائقی کے سبب ہوئی۔مگر آپ انتظامی امور سے متعلق گائیڈ لائن دے کر ایک
دوسری غلطی کیوں کرنے لگے ہیں۔ انتظامی امور کو کلی طور پر انتظامیہ کے
سپرد ہی ہونا چاہیے۔اندازہ ہے کہ آج نہیں تو کل ۔دیر سویر انتظامیہ کی
نالائقیاں اور کوتاہیاں دور ہوتی چلی جائیں گی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ
نکھار آتا چلا جائے گا۔انہیں موقع دیا جانا چاہیے مگر جانے کیوں ہرکوئی
انتظامیہ کے اختیارات سلب کرنے میں دلچسپی لے رہاہے؟آئے دن کسی نہ کسی
انتظامی معاملے کو کوئی دوسرا غیر متعلقہ شعبہ ہینڈل کرتا نظر آتاہے۔ہرکوئی
ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کا متمنی ہے؟ یہ بڑا غلط رجحان ہے۔یہ ریاست کی
مرکزیت کے لیے سوالیہ نشان بنا رہاہے۔ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنا ہرپاکستانی کا
حق تو ہے مگر اس کے لیے بھی تو ایک طے شدہ طریقہ رکھا گیا ہے۔اسے اپنانا
ہوگا۔ اگر کوئی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنا چاہتاہے تو میدان میں اترے عوامی
مینڈیٹ لے آئے ۔جب آپ وزیر اعظم بن جاؤتو پھر انتظامیہ سے متعلق جو چاہے
فیصلے کرتے رہو۔تعلیم میں بہتر ی لاؤ یا ہسپتالوں پر کام کروکسی کو کیا
اعتراض ہوسکتاہے؟ڈیم بناؤ یا سڑکیں اور پل وغیرہ آپ کو سب اختیار ہوگا۔آپ
کا ہر کام جائز اور آئین ،قانون کے مطابق ہوگا۔مگر جب آپ کے پاس یہ مینڈیٹ
نہیں تو آپ کا حدیں پھلانگتا کسی طو ربھی جائز نہیں قرار دیا جاسکتا۔آپ کا
یہ رویہ ریاست کے امن اور سکون کو لرزانے کا سبب بن رہاہے۔ریاست کمزوری
ہورہی ہے۔آ پ کو ریاست کے وسیع تر مفاد میں متحرک ہونا ہے نا کہ اپنی اپنی
ناک کے مسئلے کے لیے۔ ادارے مرکز سے ملی ہدایت کی بجائے اپنی عقل ودانش پر
چلنے کی کوشش کریں گے تو بگاڑ پیدا ہوگا۔عدلیہ کو افراد یا ادارو ں کے
درمیان منصفی کا حق حاصل ہے مگر ہسپتالوں ۔سکولوں اور فیکٹریوں کے معاملات
وہ انتظامیہ پر چھوڑ رکھے۔ریاستیں مضبوط مرکز سے مضبوط ہوتی ہیں۔ اپنی ڈیڑھ
اینٹ کی الگ الگ مسجد قائم کرلینے کا خبط اداروں کی ساکھ بھی خراب کرتاہے
اور ریاست کے لیے نت نئے مسائل کا موجب بن رہاہے۔
|