سیاسی قیادت کی کوتاہی ہے کہ عوام پر وہ لوگ مسلط ہوچکے
جو اس کے بالکل حقدار نہ تھے۔وہ کمی کمین ٹائپ لوگ جو ریاست میں خدمت اور
نگہبانی کے لیے نوکری پر رکھے گئے تھے۔اس کوتاہی کے سبب طاقت کے ایوانوں پر
قابض ہوتے چلے گئے۔اصل میں بدنیتی غالب آگئی اپنے فریضہ ہائے منصبی بھولتے
چلے گئے ۔خادم سے آقا بنتے کا یہ سفر کوئی ایک دو سالوں کا نہیں سترسالہ
سیاسی کوتاہی کا ثمر ہے۔سیاسی قیاد ت اس قدر احمق نکلی کہ وسائل پر کلی
ملکیت کا حق ہونے کے باوجود آدھ ادھورے پر مانتی چلی گئی۔اس امانت میں
خیانت کی قصور وار ہوئی جو اسے سونپی گئی تھی۔اس امانت کو لٹیروں کے حوالے
کرکے انتہاکی نالائقی کی۔اس نالائقی کا سبب کام چور ی اور ہڈ حرامی کی عادت
تھی جو امانت اسے سونپی گئی اس کی حفاظت بڑا صبر آزما کام تھا۔اسے سنبھالے
رکھنا اور حق داروں کو متنقل کرنا ایک دشوار کام تھا۔راستے میں بیٹھے گھات
لگائے راہزنوں کا قدم قدم کا سامنا تھا۔ان سے نبٹنے کے لیے ذہنی او رجسمانی
مشقت درکارتھی۔یہ جان جوکھم کا کام نہ ہوسکا ۔شارٹ کٹ ڈھونڈے جانے
لگے۔سیاسی قیادت نے حق دار تک حق پہنچانے کا راستہ مشکل دیکھا تو رہزنوں کو
کچھ دے دلا کر کام نکالنے کا راستہ اپنایا۔یہ راہزن جگا ٹیکس وصولنے
لگے۔پہلے ایک چھوتائی وسائل کم ہوئے پھر دوچوتھائی مال گیا ۔پھر تین
چوتھائی۔اب یہ کٹوتیاں اتنی زیادہ ہوچکیں کہ حق داروں تک پہنچنے والا حصہ
نہ ہونے کے برابر رہ چکا۔یہ حصہ مذید کم ہوتانظر آرہا ہے مگر سیاسی قیادت
اب بھی کٹھ پتلیاں بننے اور کم سے کم قیمت پر زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے کے
مقابلہ میں لگی ہوئی ہے۔
وزیر اعظم رمشاء اغواء کیس میں پولیس کی طرف سے جھوٹ بولنے پر خفاہیں۔وہ
ناراض ہیں کہ معاملہ حل نہ ہونے کے باوجود انہیں اوکے کی رپورٹ بھجوائی
گئی۔وزیر اعظم کی ناراضگی سمجھ سے بالاتر ہے۔وہ رمشاء اغوا کیس پر متفکر
ہیں۔یہاں ہزار وں ایسے دیگر معاملے ہیں۔ان کی فکر اس لیے نہیں کہ یہ ان کے
علم میں نہیں آسکے۔یہاں پولیس سمیت قریبا تما م ادارے اپنے رائض امنصبی سے
اسی طرح روگردانی کررہے ہیں۔اعلیٰ عہدوں پر الو باٹے بیٹھے ہونے کے سبب یہ
روگردانیاں کرنا ممکن ہوا۔ادارے قائم تو اس لیے کیے گئے کہ کمزوروں اور بے
بسوں کو طاقتوروں سے بچائیں۔غریب اور کمزور وں کے حقوق کا تحفظ کریں۔طاقت
ور کو احساس دلائیں کے کمزور اور غریب لوگوں پر ظلم وجبر کرنا آسان
نہیں۔ایسا کرنے پر انجام سے دوچارہونا ہوگا۔عملا اداروں کا رول بالکل برعکس
ہوچکا ہے۔یہ طاقتو ر کے ہرکارے بن گئے۔۔امراء اور بڑوں کے دفاع کی ذمہ داری
سنبھال لی۔انہیں تنخواہ تو سرکار دیتی ہے کہ وہ کسی سے مرعوب نہ ہوں ۔چھوٹے
بڑے کا فرق نہ رکھیں۔مظلوم کی مدد کریں ۔ظالم پر سختی کریں۔یہ تنخواہ کہیں
سے لیتے ہیں اور وفاداریاں کسی کی نبھاتی ہیں۔عمران خاں پولیس رویے سے تنگ
ہیں۔مگر اس کا فائدہ کیا؟ان کے پاس اس کا اختیار نہیں کہ وہ کچھ تبدیلی
لاسکیں۔کہنے والے کہتے ہیں کہ وہ تو لائے ہی اس اوٹ پٹانگ سسٹم کے دفاع کے
لیے ہیں۔انہیں چور دروازے سے لائے جانے کا الزام ہے۔ وہ کیوں خواہ مخواہ
ٹینشن لے کر اپنے اقتدارکے مزے کرکرے نہ کریں۔انہیں کب تک رہنا ہے ۔ان سمیت
کسی کو بھی پتہ نہیں۔
نوازشریف کے شرسے بچنے کے لیے تابعداران کا یہ سیٹ اپ تیار کیا گیا
ہے۔نوازشریف کی ووٹ کو عزت دو کی تحریک ایک بڑے انقلاب کا راستہ کھولتی نظر
آرہی تھی۔وہ ستر سالہ اس بے ایمان کھیل کے خلاف بغاوت پر اتر آئے تھے۔جو
ملکی وسائل پر دھکے شاہی سے قابض ہونے سے متعلق ہے۔ ۔قوم کا باشعور طبقہ ان
سے صد فی صد متفق ہورہاتھا۔وہ قانون اور آئین کی حکمرانی کی بات کررہے ہیں۔
اداروں کی دھکے شاہی کے خلاف عوام کو ہمنوا بنارہے تھے۔ایسے ہی حالات تھے
جب سسٹم کو یہ پتلی تماشہ تیار کرناپڑا ۔ایک بڑامیدان لگایا گیاتھا۔جس میں
شہسوار اپنے اپنے کرتب دکھانے اترتے رہے۔علامہ طاہرالقادری ۔آصف علی زرداری
۔عمران خان اور علامہ خادم رضوی سمیت بیسیوں لوگ اپنی اپنی ہنر مندیاں
دکھاتے رہے۔اسی دنگل کے بعد عمران خاں کو بڑے کم فرق کے ساتھ سبقت ملی
تھی۔آج وہ پولیس کے رویے سے خفاہیں توعجب لگتاہے۔ان کی خفگی دل کو تسلی کے
لیے غالب کے کسی خیال سے زیادہ کچھ قراردیا جاسکتا۔نوازشریف کی جتنی سمجھ
تھی وہ اس کے مطابق معاملات چلارہے ہیں۔سسٹم سے بغاوت کا یہ تاریخ میں پہلا
موقع ہے اس لیے سپیڈ کم لگ رہی ہے۔ آج تک کسی نے ادھر توجہ ہی نہیں دی۔سبھی
اس بے ایمانی کا حصہ ہی بنے رہے۔سابقہ تجربہ نہ ہونے کے سبب نوازشریف قدم
قدم پر سوچ بچارپر مجبورہیں۔ان کے ہم عصر چپ سادھے ہوئے ہیں۔شاید نوازشریف
کی طاقت کا اندازہ لگارہے ہیں۔یہ بیماربھی ہیں۔جیل میں بھی ڈالے ہوئے
ہیں۔روزانہ کی بنیاد رپر نت نئے ڈراوے بھی جاری ہیں۔بڑی مشکل صورت حال ہے
سپیڈ کم ہونا ایسی صورت حال میں عجب نہیں۔ان کو ہم عصروں کی جانب سے ابھی
تک ایک طرف سے بھی آسرا نہیں مل پایا البتہ مریم نوازکی شکل میں ایک غیر
متوقع ساجھی ضرور میسر آگیا۔حیرت انگیز طور پر مریم کی سوچ وہی ہے ۔جو
نوازشریف کی۔ان کا انداز بھی والد جیسا ہے۔حیران کن طورپر انہیں پارٹی کے
اندر بھی ٹاپ سیٹ پر بھی تسلیم کرلیا گیا ہے۔وہ ایک عرصہ سے پارٹی کے
معاملات خفیہ خفیہ چلا رہی تھیں۔اب دھڑلے سے جلسے اور بیانات جاری ہیں۔اب
ان کے خلاف پارٹی کے اندر سے مخالفت نہ ہونے کے برابر رہ چکی۔۔نوازشریف
انقلاب کے واحد علمبردار دکھائی دیتے تھے۔اب مریم کی شکل میں ایک دوسرا
نوازشریف بھی سامنے آچکا۔پردہ نشین ایک انقلابی کو مٹانہ پائے تھے کہ ایک
زیادہ تازہ دم اور زیادہ پرجوش انقلابی سامنے آگیا۔مریم نوازبلاشبہ قوم کے
لیے نوازشریف کا ایک بیش قیمت تحفہ ثابت ہوئی ہیں۔ |