صدارتی جمہوریت یا صدارتی طرزِ حکومت ایک ایسا طورِ
حکمرانی ہے جس میں تمام تر انتظامی اختیارات صدر مملکت کے پاس ہوتے ہیں۔
پارلیمانی نظام کے برعکس اس میں مقننہ اور عاملہ کا دائرہ کار جداگانہ ہوتے
ہیں اور مانٹیسکو کے نظریہ تقسیم اختیارات پر عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ عدلیہ
کے پاس عدالتی نظر ثانی کے وسیع اختیارات ہوتے ہیں ۔ صدر کابینہ کی تشکیل
اس میں تبدیلی اور کسی وزیر کو اس کے عہدے سے بر طرف کرنے کا کلی اختیار
حاصل ہوتا ہے۔ عموماََ صدر کی مدت یا معیاد پانچ برس ہوتی ہے۔ ریاست ہائے
متحدہ امریکہ اس طرز جمہوریت کی بہترین مثال ہے۔ پاکستان کی ستر سالہ عمر
میں دونوں نظاموں کو پریکٹس کیا گیا ہے۔ لیکن پاکستان کو بنانے والے اور اس
کا خواب دیکھنے والے پاکستان میں اسلامی صدارتی نظام کے حامی تھے ، اسی لئے
پاکستان کے پہلے گورنر جنرل اور بانی پاکستان محمد علی جناحؒ نے سب سے پہلے
1935 ایکٹ کے خلاف قلم چلاتے ہوئے پاکستان میں اسلامی صدارتی نظام کے نفاذ
کو چنا تھا۔ مصور پاکستان علامہ محمد اقبال بھی موجودہ جمہوریت کے خلاف تھے
، لیکن وہ خلافت کی بھی اس صورت میں حمایت نہیں کرتے تھے کہ ایک شخص پورے
ملک پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دے۔ اگر ہم اسلامی ممالک میں ترقی یافتہ
ممالک کو دیکھیں تو وہاں صدارتی نظام ہے، لیبیا میں معمر قذافی نے صدارتی
نظام قائم کیا، لیبیا کی عوام ساری خوشحال تھی، یہاں تک کہ ہر شخص کو
سالانہ پیٹرول کا منافع بھی پہنچا کرتا تھا۔ وہاں کے لوگ کبھی دوسرے ملک
میں کام کو ترجیح نہیں دیتے تھے ، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اپنی ملک کی خدمت
کرنے سے جو کچھ حاصل ہو رہا ہے اس کا ایک فیصد بھی دوسرے ممالک میں وہ حاصل
نہیں کر سکتے،لیکن صدارتی جمہوری نظام کے بعد اب وہاں کے حالات کسی سے ڈھکے
چھپے نہیں۔ امریکہ جیسے سپر پاور ملک میں بھی صدارتی نظام رائج ہے حالانکہ
امریکہ ہی ہے جو تمام اسلامی ممالک جہاں صدارتی نظام قائم ہے ان پر جنگ
مسلط کئے ہوئے ہے۔ یہ دوہرا معیار ہے اور تمام اسلامی ممالک کو یہ بات
سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جمہوریت کی کارستانیاں ہم نے اچھی طرح دیکھ اور آزما
لی ہیں ، سوائے رسوائی و ذلت کے کچھ ہاتھ نہیں آیا۔
پاکستانی کی حالیہ صورتحال کا مؤجب سیاسی لوگ ان فوجی آمروں کو سمجھتے ہیں
جو اس ملک پر مارشل لاء لگا کر مقتدر رہے، لیکن عوام الناس کے حلقوں میں سے
ایک بڑا حلقہ مانتا ہے کہ پاکستان میں صرف صدر ایوب خان کا دس سالہ دور
عوامی اقتدار کہلاتا ہے۔ایوب خان کے بعد چال بازیوں سے ملک میں شخصیت پرستی
کو جنم دیا گیا،جو ناسور آج تک ، ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف اور ہمارے
ملک کے چوہدریوں، شاہوں،شیخوں، نوابوں اور خانوں کی صورت میں موجود ہے۔
ایوب خان کا دور واحد تھا جس میں دو مرتبہ پانچ سالہ منصوبے پورے کئے گئے،
پاکستان میں صنعتیں لگائیں گئیں ، پٹ سن، اور چمڑے کی جگہ ان کی مصنوعات
برآمد کی گئیں ، ملکی معیشت مستحکم ہوئی اسی بدولت ہم پینسٹھ کی جنگ میں
کامیاب ہوئے۔ دوسرا دور پرویز مشرف کا تھا جس نے پاکستان کو قرضوں سے
نکالا، اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم و تربیت عام کی، پاکستان میں
موبائل اور کمپیوٹر تک رسائی عام بنائی ، ملک کو ترقی کی جانب گامزن کیا۔
ان ادوار میں ڈالر کی قیمت کافی کم رہی اور عوام خوشحال ہوئی۔
پاکستانی میڈیا اور سیاسی لوگوں کی طرف سے صدارتی نظام کو آمریت مانا جاتا
ہے اور ایک فقرہ بارہا دوہرایا جاتا ہے کہ جمہوریت کی ادنیٰ ترین صورتحال
آمریت کے بہترین دور سے کئی گنا بہتر ہے۔یہ باور کروانے کی کوشش کی جا رہی
ہے کہ 1973 کا آئین ختم کرنے سے کوئی آفت آجائے گی۔ انہیں کا ساتھ ایسے
جمہوری قلم کار، اور سیاسی بھی دیتے ہیں جو جانتے ہیں کہ ہم صدارتی نظام
میں اس قدر بلا جواز بد خوہیاں اور ملک دشمن لابی کی حمایت نہیں کر سکتے جس
قدر وہ پارلیمانی نظام میں کرتے ہیں۔ عوام الناس ایسے لوگوں کو منتخب کر
بیٹھتی ہے جو صرف ذاتی مفاد و اقرباء پروری کیلئے قانون بناتے اور قوانین
توڑتے ہیں ، لیکن صدارتی نظام میں صدر با اختیار ہوتا ہے اور وہ کسی بھی
پالیسی کو مسترد یا من و عن تسلیم کرنے کی پاور رکھتا ہے۔ یہی میڈیا اس وقت
پاکستان میں معاشرتی تنزلی کا سبب ہے ، جو عوام کے دماغوں کے ساتھ کھیل رہا
ہے۔ر انہیں حقیقت سے بہت دور خیالی دنیا میں گھماتا رہتا ہے جس سے ان کی
روزی روٹی چلتی ہے، اسی طرح کئی جمہوریت کے دعوے دار سیاسی لوگ بھی اپنے
کارباری شیلٹر کیلئے صدارتی نظام کو برا مانتے ہیں۔ یہاں ایک سوال پیدا
ہوتا ہے کہ عمران خان اگر ملک میں اسلامی صدارتی نظام لانا ہی چاہتا ہے تو
اس میں برا کیا ہے؟ کیوں کہ اسلام کی کوئی ایک بھی تعلیم انسانی اقدار کے
خلاف نہیں ہے اور پاکستان جیسی ریاست میں سب ہی چاہتے ہیں کہ اسلامی نظام
رائج ہو، تو پھر یہ پراپیگنڈے کیوں؟
اس وقت ایک طرح سے پاکستان میں معاشی ایمر جنسی نافذ ہے۔ پاکستان کے ادارے
اور خود حکومتی کابینہ کے لوگ در پردہ عمران خان کی مخالفت کر رہے ہیں اور
ان کیلئے رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ تمام تر پالیسیاں ناکام ہوتی جا رہی ہیں،
عمران خان جو عوام کے دلوں پر راج کرنے لگے تھے اب ان کے دلوں سے اتر کر
بخار کی صورت جسموں سے نکل رہے ہیں، وہ اپنی مقبولیت اپنے انہیں الیکٹ
ایبلز کی وجہ سے کھو رہے ہیں جنہیں انہوں نے اپنے مخلص ساتھیوں پر ترجیح دی
تھی۔دوسری طرف ایرانی اسمبلی نے امریکی فوج اور امریکہ نے ایرانی پاسداران
انقلاب کو دہشتگرد قرار دے دیا ہے ، جس کے بعد دونوں ملکوں کے مابین جنگ کی
فضا قائم ہوتی دکھائی دے رہی ہے، اس میں ہر صورت پاکستان کو نقصان ہونے کا
خدشہ ہے۔ اگر ہم ایران کا ساتھ دیں تو امریکہ کے ساتھ دشمنی کمانا پاکستان
کے بس کا کام نہیں اور اگر چپ رہیں تو پاکستان میں موجود منی ایران بد امنی
پھیلائے گا، اسی طرح احتساب کی وجہ سے جو ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش
کی جا رہی ہے اسے سنبھالنابھی پارلیمانی نظام کے بس میں نہیں ۔پولیس میں
اصطلاحات لا کر اس نے چالیس ڈی ایس پیز معطل کئے تو لاہور ہائی کورٹ نے
بحال کر دئیے ، اسی طرح نواز و زرداری تو چاہتے ہی یہی ہیں کہ ایسا جج آئے
جو ملک قیوم کی طرح ان کا تابعدار ہو اور ان کے مرضی کے فیصلے کرے۔صحافتی ،
سیاسی اور بیوروکریسی بدمعاشیہ صدارتی نظام کی ہر صورت مخالفت کریں گے ،
کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ صدارتی نظام میں کس حد تک انہیں بیک سے آنے والی
حرام روزی بند ہو سکتی ہے۔ میری ذاتی رائے میں چاہے آمریت ہو، صدارتی نظام
ہو یا پارلیمانی نظام ، ہر صورت اسلامی جمہوریت کا نفاذ ہونا چاہئے، ہر
کوئی چاہتا ہے کہ ملک بحرانوں سے نکلے لیکن سبھی اس کی ترقی کیلئے رکاوٹ
بنے ہوئے ہیں۔ عمران خان کیلئے ریفرنڈم ان کے اور پاکستان کے مستقبل کا
فیصلہ کرے گا۔پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان بنانے سے ہی تمام داخلی و
خارجی بحرانوں کا حل ممکن ہے۔
|