وطن عزیز میں موسم سرما سے موسم گرما کے آتے ہی جہاں موسم
کی گرمی اپنی شدت کی طرف بڑھ رہی ہے وہیں گزشتہ 8 ماہ سے منجمند سیاسی موسم
بھی پگھلتا دکھائی دے رہا۔ نئی حکومت کو قائم ہوئے 8 ماہ کا دورانیہ ہوچکا
ہے۔ ان 8 مہینوں میں حکومت خوش قسمت رہی کہ حکومت کو کسی بھی طرح سے عوامی
سطح پر کسی قسم کے احتجاج کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ
کی اپوزیشن جماعتیں تو نیب اور عدالتی کیسوں میں خود کو بچانے میں الجھی
ہوئی ہیں عوامی مسائل پر کیا بات کریں۔ قوم بھی عمران خان کو وقت دے کر چپ
سادھے ہوئے ہے اور اس وقت کا انتظار کر رہی کہ جب عمران خان کے قوم سے کیے
گئے سب وعدے ایسے وفا ہوں گے کہ ہر طرف خوشحالی کا دور دورہ ہوگا۔ دودھ اور
شہد کی نہریں بہہ رہی ہوں گی، عمران خان قوم کو بیدار کر کے یہ اعلان کریں
گے کہ شریفوں اور زرداریوں سے احتساب مکمل کر کے اربوں روپے کی لوٹی رقم
قومی خزانے میں جمع ہو چکی۔ ڈیم بن گئے، لاکھوں گھر تعمیر ہو چکے، باہر سے
لوگ پاکستان نوکریوں کے لیے پہنچ چکے۔ پاکستانی گرین پاسپورٹ کو دنیا میں
عزت مل چکی، کروڑوں نوکریاں آپ کی منتظر ہیں پاکستانیو۔
مگر حقیقت اس کے برعکس ہے کہ ناچتی جھومتی تبدیلی سرکار اپوزیشن میں کنٹینر
پر کھڑے ہو کر جو بڑھکیں مارتی رہی حکومت میں آتے ہی لگ سمجھ گئی کہ جو کہا
تھا وہ کر کے دکھانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں۔ حکومت کی 8 ماہ کی کارکردگی
کا جائزہ لیں تو پتاچلتا ہے کہ اسٹاک ایکسچینج تیزی سے گرتی جا رہی اور
گذشتہ 3 سالوں میں سب سے کم سطح پر آ پہنچی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں
انتہائی کمی، روپے کی گرتی قدر، مہنگائی کا جن بے قابو ہوکر بوتل سے باہر
آچکا۔ بجلی، گیس، پیٹرول تو مہنگا ہوا ہی ہوا ادویات کی قیمتیں بھی مریضوں
کی پہنچ سے دور کر دی گئیں۔ روزمرہ کی اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے
باتیں کر رہی ہیں۔ دودھ مہنگا ہو گیا اور رہی سہی کسر ٹرین کے کرایوں میں
اضافہ کر کے پوری کر دی گئی ہے۔
ایک طرف جب ملک میں عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہی اور ملکی معیشت روز
بروز گراوٹ کا شکار ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود
قریشی کا ہندوستان کی طرف سے پاکستان پر حملوں کی نویدیں سنا کر ملکی
کاروباری حضرات کے ساتھ ساتھ بیرونی دنیا کو بھی پیغام دے رہے ہیں کہ
پاکستان میں انویسٹ کرنے کے لیے ابھی ماحول سازگار نہیں ہے جس کا اسٹاک
ایکسچینج پر منفی اثر پڑ کر اسٹاک ایکسچینج تیزی سے گرنے کی طرف گامزن ہے۔
سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک طرف وزیر خزانہ اسد عمر انویسٹرز کو مارکیٹ میں
پیسہ لگانے کی ترغیب دے رہے ہیں کہ ملکی معیشت کے مریض کو آئی سی یو سے
وارڈ میں لے آئے ہیں، اب اس مریض کی حالت خطرے سے باہر ہے اور آئندہ ڈیڑھ
سال میں ملکی معیشت مستحکم ہو جائے گی۔ دوسری طرف وزیر خارجہ شاہ محمود
قریشی ہندوستان کی طرف سے پاکستان پر جنگ کے ممکنہ خطرات سے دنیا کو آگاہ
کر رہے تو کس طرح دنیا سے سرمایہ کار ایسے حالات میں سرمایہ کاری کے لیے
تیار ہوں گے؟ آئی ایم ایف کی رپورٹ بتا رہی ہے کہ پاکستان میں مہنگائی اور
بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہوگا جب کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی جاری کردہ
رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معاشی ترقی 2020 تک خطے میں سب سے کم رہے گی۔
مگر حکومتی وزیر موصوف فیصل واوڈا دبنگ اعلان کرتے نظر آرہے کہ کم سے کم
ایک ہفتے اور زیادہ سے زیادہ چند ہفتوں میں ملکی حالات اس قدر خوشحال
ہوجائیں گے کہ ملک میں نوکریوں کی اتنی بھرمار ہوگی کہ نوکریوں کے لیے
ڈھونڈنے سے بھی بندے کم پڑ جائیں گے۔ فیصل واوڈا کے اس بیان سے پتا چلتا ہے
کہ حکومت کتنی غیرسنجیدہ ہے۔
مہنگائی کے حالیہ اس طوفان سے عوام بلبلا اٹھی ہے۔ عوام جو کہ پچھلے 8 ماہ
سے اس حکومت کو صرف اس بات پر وقت دیتی آئی ہے کہ عمران خان کو قوم نے اپنا
مسیحا سمجھا، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے سابقہ حکومتی ادوار کو قوم بھگت چکی
اور قوم اب پیپلز پارٹی اور ن لیگ پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں جنہوں نے
ملک اور قوم کا پیسہ لوٹ کر اپنے ذاتی اکاونٹ بھرے۔ عمران خان ہی اس قوم کی
آخری امید تھے جسے قوم وقت دے رہی مگر عمران خان کو بھی اقتدار ملے اب 8
ماہ گزر گئے پر انہوں نے عوام کو ابھی تک کوئی ریلیف نہیں دیا جس پر اب
عوام کے اندر سے ایک لاوا ابلتا ہوا نظر آنے لگا ہے۔
عوام بڑھتی ہوئی مہنگائی پر شاید اب زیادہ عرصے کے لیے خاموش نہیں بیٹھے گی
اور اپوزیشن اسی تاک میں ہے کہ عوام کے حکومت پر غم و غصے کو احتجاج کی شکل
میں اپنے لیے کیش کروا سکے۔ اپوزیشن خاموشی سے اپنا کام کر رہی ہے اور وقت
آنے پر حکومت کی نااہلی کے خلاف اسی عوام کو استعمال کرے گی۔ اگرچے عوام کے
سامنے اب کافی حد تک پیپلز پارٹی اور ن لیگ اپنی حکومتوں سے ایکسپوز ہو چکی
ہیں اور عوام پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے لیے استعمال ہونے کو تیار نہیں ہے
مگر عمران خان جیسے مسیحا کی صورت میں بھی اگر یہ حکومت عوام کے لیے کچھ نہ
کر سکی تو عوام مجبورا پھر سے زرادریوں اور شریفوں کے رحم و کرم پرہوگی۔
مولانا فضل الرحمان عید کے بعد حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کے لیے
مکمل طور پرمتحرک ہو چکے ہیں اور اس سلسلے میں نواز شریف اور آصف زرداری سے
ملاقات کے بعد آصف زرداری اور نواز شریف کو ایک ساتھ بٹھا کر حکومت کے خلاف
مل کر تحریک چلانے کے لیے سرگرم ہیں۔ عمران خان نے ایک بار پھر اپنے وزارا
کی ٹیم کو شریف خاندان کے خلاف مزید نئے کیسز ڈھونڈ لانے کی ہدایات جاری کر
دی ہیں۔ عمران خان نے جس طرح سے عوام کو کوئی ریلیف دینے پر کام کرنے کی
بجائے صرف اور صرف شریف خاندان کو ٹارگٹ بنایا ہوا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے
کہ عمران خان کا مقصد صرف شریف خاندان کو رلانے تک ہی محدود ہے اور عوام کو
ریلیف دینے میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں۔ انسانوں پر خرچ کرنے پر یقین رکھنے
والے عمران خان نے حکومت میں آکر مہنگائی کے سونامی سے پاکستان کے انسانوں
کا بھرکس نکال کر رکھ دیا ہے۔
عمران خان نے چند ہفتوں میں ملک سے تیل و گیس کے بڑے ذخائر دریافت ہونے کی
جو خوشخبری قوم کو سنانی تھی وہ مہنگائی میں دوگنا اضافہ کرکے قوم سے ہی
تیل نکالنے کی شکل میں سنا دی ہے۔ عمران خان کو چاہیے کہ اپنی حکومت میں
موجود نااہل لوگوں سے چھٹکارہ حاصل کریں اور اپنی حکومتی ٹیم میں ان لوگوں
کو شامل کریں جو واقعی میں اس قابل ہوں کہ عمران خان کے وژن کو لیکر چلیں
اور ملک و قوم کو خوشحالی کے راستے پر گامزن کردیں۔ وزیراعظم عمران خان
موجودہ وقت میں آپ اس قوم کی امید ہیں۔ قوم نے آپ پر اعتماد کرکے اپنا فرض
ادا کر دیا ہے اب آپ اقتدار کے منصب پر ہیں قوم اور خصوصا قوم کے نوجوانوں
کو مایوس مت کریں۔ نوجوان نسل ہی مستقبل کے پاکستان کی آمین ہے جن کی
آنکھوں میں نئے پاکستان کی خواب پروئے ہیں آپ نے خدارا ان کے خوابوں کو
چکنا چور مت کریں۔
|