ہر ملک میں انتخابات ہوتے رہتے ہیں ۔ حکومتیں بنتی
اور بدلتی رہتی ہیں ۔ لیکن اس بارہمارے ملک بھارت میں جو عام انتخاب ہو رہا
ہے۔ یہ انتخاب معمولی نہیں ، بلکہ کئی لحاظ سے غیر معمولی ہے۔ غیر معمولی
ان معنوں میں ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں ملک کا ہر طبقہ جس طرح بھوک ،پیاس
،بے روزگار ی کے ساتھ ساتھ خوف ،دہشت ،عدم تحفظ، عدم رواداری،نا انصافی، نا
برابری اور منافرت کا شکار رہا ۔ ان سب ناگفتہ بہ حالات نے ایک طرف جہاں
ملک کی ترقی ،خوشحالی نیز آپسی دوستی، بھائی چارگی اور صدیوں سے چلی آ رہی
گنگا جمنی تہذیب کو شدت سے متاثر کیا ہے، وہیں بیرون ممالک میں اس ملک کے
اندرمسلسل ہونے والے غیر انسانی، غیر آئینی، غیر جمہوری ،شدت پسندی اور
انتہا پسندی کے سانحات اورواقعات نے ملک کے امیج کو مسخ کیا ہے۔ اس لئے اس
بار کا یہ عام انتخاب ملک کی سا لمیت، سیکولرزم، معاشرتی ، جمہوری اقدارو
آئین کی بحالی کے لئے زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ یہی وجہ رہی کہ اس انتخاب
کا لوگوں کو شدّت سے انتظار تھا کہ وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے ان حالات کے
ذمّہ دار عناصر کو اکھاڑ پھینکیں اور ملک میں ایک نئی صبح لائیں جو داغ داغ
اجالا کی بجائے سنہری دھوپ کا بھرپور اجالا لے کر آئے ۔
گزشتہ پانچ برسوں میں ایک طرف جہاں بہت سارے لوگ اپنا متعصب ، منافرت اور
شدت پسند چہرہ لے کر سامنے آئے ، وہیں دوسری جانب کچھ ا فراد ملک کی
رواداری، یکجہتی،دوستی ، محبت کے امین بن کر سامنے آئے اور ملک کے آئین اور
جمہوری اقدار کو پوری طرح برقرار رکھنے کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کو
تیار نظر آئے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے لوگ مستقل خوف زدہ اور عدم
تحفظ کے شکار رہے ۔ لیکن اپنی زبان سے مسلسل ایسی حکومت کے خلاف باغیانہ
رویہ کا اظہار کرتے رہے ۔ ایسے کچھ لوگوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی
ڈالا گیا ، دابھولکر، پنسارے، کلبرگی اور گوری لنکیش وغیرہ جیسی سیکولر
شخصیات کو ان کے سیکولرزم نظریہ رکھنے کے جرم پر قتل بھی کیا گیا۔ اس کے
باوجو د آئین اور انسانیت پر یقین رکھنے والے خاموش ہوئے ، نہ ہی ظالم
حکمران کے سامنے سرنگوں ہوئے اور نہ ہی سپر ڈالی۔ بلکہ جیسے ہی عام
انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہوا ، ملک کے چھہ سو سے زائد فلم اور تھیٔٹر
کی دنیا سے تعلق رکھنے والے نصیر الدین شاہ، امول پالیکر، گریش کرناڈ، ایم
کے رینا،اوشا گانگولی ، شانتا گوکھلے، مہیش دتانی، ابھیشیک مجومدار، رتنا
پاٹھک اور انوراگ کیشیپ وغیرہ جیسے مشہور و معروف فلم سازاور فلمی فنکار
پوری طرح کھل کر فرقہ پرستوں کے خلاف میدان میں آ گئے اور بہت ہی واضح
لفظوں میں کہا کہ موجودہ حکومت کے ہاتھوں ملک اور ملک کا آئین خطرے میں ہے
، اس لئے کسی قیمت پر بھی بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں کی حمایت میں
ووٹ نہ دیں،بلکہ انھیں کامیاب بنائیں، جو آئین ہند کا احترام کرے اور اظہار
آزادی پر قد غن نہ لگائے نیز ہر طرح کی سنسرشپ پر یقین نہیں رکھتی ہو ۔ یہ
گزارش ملک کی بارہ زبانوں میں ترجمعہ کر آرٹسٹ یونائٹڈ انڈیا کی ویب سائٹ
پر ڈالا گیا ہے ۔ جس کی گونج ہر طرف سنائی دے رہی ہے ۔ اس بازگشت سے قبل
ملک کے کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ ، ٹرانس نیشنل ہیلتھ سائنس
ٹیکنالوجی انسٹی ٹیوٹ ، اور بی ایچ یو کے سائنسی وتحقیقی شعبوں سے تعلق
رکھنے والے ایک سو پچاس سے زیادہ نامور سائنسدانوں نے ملک کے اندر ہونے
والے غیر انسانی، غیر آئینی اور غیر جمہوری سانحات و واقعات سے متاثر ہوکر
عین انتخاب کے وقت اپنے ضمیر پر بڑھتے بوجھ کو اتارنے کے لئے اپنے دستخط سے
ملک کے لوگوں سے اپیل جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنے ووٹ کی طاقت سے ایسے
لوگوں کو اور ایسی ذہنیت کے لوگوں کو کامیاب نہ ہونے دیں جو ملک کے لوگوں
کے درمیان فرقہ واریت کو فروغ دیتے ہیں اور آپسی اتحاد و اتفاق کو ختم کر
دینے کے درپئے ہیں ۔ ان سائنسدانوں خیال میں ایسے لوگوں کو بھی ووٹ کے
ذریعہ پوری طرح مسترد کرنے کی ضرورت ہے جو معصوم اور بے گناہوں کو ہجومی
تشدد میں درندگی کے ساتھ قتل کرتے ہیں حکومت کے ذمّہ داران خاموش تماشائی
بن کر ایسے مظالم کی تائید کرتے ہیں ۔ سترہویں لوک سبھا کے عام انتخابات کا
اعلان ہوتے ہی ایسا لگا کہ ہروہ شخص جو ملک کے اندر ہورہے مسلسل ظلم و
زیادتی، نا انصافی،استحصال، لاقانونیت،منافرت اور عدم رواداری سے بے چین ،
بے قراراور پریشان تھا ۔انھیں اس وقت کا بے صبری سے انتظار تھا اور ایسے
لوگ کھل اپنے ضمیر اور غم و غصہ کے اظہار خیال کے لئے تنہا نہیں بلکہ اپنے
ہم خیال افراد کے ساتھ کھل کر سامنے آ گئے اور لوگوں کو یہ بتانے لگے کہ یہ
موقع اب ہمیں مل گیاہے کہ اب ہم منافرت پھیلانے والی طاقتوں کو اپنے ووٹوں
کے ذریعہ مُنھ توڑ جوب دیں ،جو پورے پانچ سال تک اقتدار کے نشہ میں غیر
انسانی، غیر آئینی اور غیر جمہوری عمل میں ملوث رہے ۔موقع کی نذاکت سے
فائدہ اٹھاتے ہوئے اور مسلسل رسوائیوں کو سہتے ہوئے بی جے پی کے سب سے
سینئر لیڈر ایل کے اڈوان بھی اپنی زبان کھولنے پر مجبور ہوئے اور بہت ہی
واضح انداز میں اقتدار کے سربراہوں کو آئینہ دکھاتے ہوئے اپنے ایک بلاگ میں،
ملک اور پارٹی سے بھی خود کو اعلیٰ سمجھنے والے نریندر مودی کو ہدف بناتے
ہوئے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ’ملک پہلے ہے،اس کے بعد
پارٹی اور سب سے اخیر میں اپنے آپ کو رکھنا چاہئے ‘ ۔ اڈوانی نے اپنے خون
پسینہ سے سینچی ہوئی بی جے پی پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کی
پارٹی غلط راستے پر چل رہی ہے ۔ ملک کی ایسی کئی اہم شخصیتوں کو ان کے
ذریعہ حکومت سے سوال کئے جانے پر انھیں ملک کا غدار کہے جانے پر اڈوانی نے
یہ بھی کہا کہ الگ رائے رکھنے والے غدار وطن نہیں ہیں۔ یہ بھی عجیب بات ہے
کہ بھاجپا کے ایسے کئی لیڈران ہیں جو مودی اور شاہ کی کارکردگیوں سے اندر
ہی اندر ناراض چل رہے ہیں ، لیکن چند لیڈران کے سوا یہ لوگ اپنے اندر اتنی
ہمّت نہیں جٹا پا رہے ہیں کی وہ کھل کر اپنی شکایت اور ناراضگی کا اظہار کر
سکیں۔ پھر بھی کبھی کبھی کوئی نہ کوئی اشاروں اشاروں میں ایسی بات کہہ جاتا
ہے، جو براہ راست نہیں تو بالواسطہ طور پر مودی اور شاہ کی ملک کے اندر ،منافرت
پھیلانے کی کوششوں کو ہدف ملامت بناتے ہیں۔اس سلسلے میں ناگپور سے بی جے پی
کے امیدوار اور مرکزی وزیر نتن گڈکری نے طنزیہ لہجہ میں کہا ہے کہ میں نے
بہت کام کیا ہے ، اس لئے مجھے جیتنے کے لئے’ ہندو راشٹر واد‘ کی ضرورت نہیں
۔بی جے پی کے ایک اور سینئر لیڈر مرلی منو ہر جوشی نے ایک سوال پر کہ وہ بی
جے پی کی حکومت کی کارکردگی پر دس میں کتنا نمبر دینگے ؟ اس سوال کے جواب
میں انھوں نے کہا تھا کہ میں ایک ٹیچر ہوں اور کاپی میں کچھ لکھا ہی نہ ہو
تو نمبر دینے کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے ۔ چند دنوں قبل معروف مؤرخ
اورسماجی کارکن پروفیسر رام پنیانی کی کتاب ’ فرقہ پرستی کے شکنجہ میں
ہندوستان ‘ کا’ انہد ‘کے زیر اہتمام رسم اجرا ٔ کے موقع پر بھی ڈاکٹر جان
دیال،ہرش مندر،ارونا رائے،سیدہ حمید،اور شبنم ہاشمی وغیرہ نے بہت ہی جرأت
کے ساتھ برسر اقتدار لوگوں کی غیر آئینی اور غیر انسانی رویۂ پر اپنے
اعتراضات جتاتے ہوئے یہ انتباہ کیا ہے کہ یہ انتخاب اس لئے بہت زیادہ اہمیت
کا حامل ہے کہ اس میں ملک کے ووٹروں کو یہ طئے کرنا ہے کہ ہمارا ملک سیکولر
رہے گا یا کمیونلزم کی راہ پر چلتے ہوئے ہندو راشٹر بن جائے گا ۔ اس لئے کہ
موجودہ حکومت کو ملک کے سیکولر آئین پر یقین و اعتماد ہی نہیں ، یہی وجہ ہے
کہ یہ لوگ آئے دن ملک کے آئین کو پامال کرتے رہتے ہیں ۔ شبنم ہاشمی نے ملک
کے ناگفتہ بہ حالات پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس موقع پر کہا کہ
ملک کے حالات ایمرجنسی کے دور سے بھی زیادہ خراب ہیں اور جس طرح معاشرے میں
فرقہ واریت کا زہر گھولا جا رہا ہے ، وہ ملک کی سا لمیت کے لئے خطرہ ہے ۔اس
سے قبل ملک کے اندر بڑھتے خوف و ہراس اور تشدد سے متاثر ہو کرنین تارا سہگل،
اشوک واجپئی، سارہ جوزف، گُر بچن سنگھ بھلر، اجمیر سنگھ اولکھ، منگلیش
ڈبرال اور راجیش جوشی وغیرہ جیسی ادب کی با وقار شخصیات، اپنے اپنے سرکاری
ایوارڈ واپس کر احتجاج درج کر چکے ہیں۔ وزیراعظم اور ان کے رفقأکے ذریعہ
لگاتار انتخابی مہم میں مثالی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کئے جانے پر الیکشن
کمیشن کی جانب سے برتی جا رہی دانستہ طور بے پرواہی پر،این بالا
بھاسکر،گوپالن بالا گوپال، باپلا بالاچندرن، راہل ٹھکر،جولیوریبرو،جواہر
سرکار،راجیو کھلر،شیو شنکر مینن،نجیب جنگ وغیرہ سمیت ملک کے 66 اعلیٰ
سبکدوش افسران نے صدر جمہوریہ ہند سے شکایت درج کراتے ہوئے ان سے گزارش کی
ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کو ہو رہے عام انتخاب میں شفافّیت برتنے کی ہدایت
دیں ۔انتخابی مہم کے دورا ن مستقل طو پر طرح طرح سے پلوامہ حملہ اور
باراکوٹ کی اپنی فتحیابی(؟) کے نام پر بی جے پی کے لیڈران اور خاص طور پر
وزیر اعظم اور امت شاہ کے ذریعہ ووٹ مانگے جانے پر ہندوستانی بحریہ کے سابق
سربراہ ایل رام داس نے الیکشن کمیشن کو لکھے اپنے ایک خط میں اعتراض و
احتجاج درج کرا چکے ہیں ۔اس کے باوجود مسلسل ہو رہے فوج کے سیاسی استعمال
پر ملک کے تینوں افواج کے آٹھ سربراہوں اور 156 ؍ سابق فوجیوں کے افسران نے
صدر ہند اور ملک کے فوج کے سربراہ اعلیٰ رام کووند کو احتجاج اور شکایت
بھرا خط انھیں لکھا ہے اور ان سے گزارش کی ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کی اس
جانب توجہ مبذول کرائیں ۔ اس سلسلے میں سابق جنرل شنکر سنگھ چودھری نے اپنے
ایک بیان میں بتایا ہے کہ ہماری فوج ہندوستانی فوج ہے ، وہ کسی پارٹی کی
فوج نہیں ہے ۔ اس لئے اس کا سیاسی استعمال کر اسے بدنام نہیں کیا جانا
چاہئے۔ بر سر اقتدار لوگوں نے بے شرمی کی انتہا تو اس وقت کر دی تھی ، جب
ان لوگوں نے اپنے انتخابی ریلیوں میں پلوامہ میں شہید کئے گئے فوجیوں کی
تصاویر اسٹیج پر لگا کر لوگوں سے وو ٹوں کی اپیل کر رہے تھے ۔ لیکن شہیدوں
کے اہل خانہ کی ناراضگی اور الیکشن کمیشن کی ہدایت پر ایسی شہیدوں کی
تصاویر کا مظاہرہ بند کیا گیا ۔
حیرت،تعجب اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اتنے احتجاج اور اظہار تشویش کے
باوجود ملک کے برسر اقتدار سربراہوں پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا ہے اور وہ وہی
کر رہے ہیں ، جو ان کی مرضی میں آ رہا ہے ۔اس کی بہت ہی واضح وجہ یہ ہے کہ
یہ لوگ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ایسے تمام ادارے اور شعبے ،جو باز پرس
کر سکتے ہیں ، انھیں سونے کے پنجرے میں قید کر دیا گیا ہے۔ ٭٭٭٭٭ |