ایک شکاری نے سمندر سے مچھلی پکڑی مچھلی کی خوبصورتی سے
متاثر ہو کر اُس نے مچھلی کو زندہ رکھنے کا فیصلہ کیا زندہ رکھنے کے لیے
اُس نے مچھلی کو گھر میں موجود کنوئیں میں ڈال دیاکنوئیں میں موجود مینڈکوں
نے پہلے تو مچھلی کو حیرانگی سے دیکھا پھر ایک مینڈک نے پوچھا کہ آپ کہاں
سے آئی ہیں مچھلی بولی سمندر سے مینڈک نے پوچھا سمندر کیا ہوتا ہے مچھلی نے
جواب دیا سمندر بہت بڑا ہوتا ہے اور اُور سمندر میں بہت زیادہ پانی ہوتا ہے
مینڈک نے پھرتی دکھاتے ہوئے کنوئیں میں ایک چھوٹا سا چکر لگایا اور پوچھا
اتنا بڑا مچھلی نے جواب دیا نہیں اس سے بڑا مینڈک نے پھر آدھے کنوئیں کا
چکر لگا کر پوچھا اتنا بڑا مچھلی بولی نہیں اس بھی زیادہ بڑا مینڈک نے
کنوئیں کا پورا چکر لگایا اور بولا اتنا بڑامچھلی بولی نہیں اس سے بھی بہت
زیادہ بڑامینڈک والا ہی حال پی ٹی آئی کی حکومت کا ہے اس کو ابھی تک کنوئیں
اور سمندر کا فرق ہی نہیں سمجھ آ رہاآٹھ ماہ گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک پی
ٹی آئی اپنے آپ کو اپوزیشن میں ہی سمجھ رہی ہے پی ٹی آئی کی حکومت بننے سے
پہلے جب بھی میرئے کچھ نادان دوست پی ٹی آئی کی تعریف میں زمین اور آسمان
ایک کر دیتے تو میں صرف مسکرا دیتا میری مسکرائٹ اُن کو غصہ دلاتی تو اُن
کے پاس صرف ایک ہی نعرہ ہوتا کہ آج تک اس ملک کو صرف کرپٹ حکمران ہی ملیں
ہیں جس وجہ سے ملک تباہی کے دہانے پر ہے اگر ایک دفعہ خان صاحب جیسا
ایماندار انسان وزیر اعظم بن گیا تو ملک میں ترقی دیکھنے کے قابل ہو گی تو
میں اُن کو جواب دیتا اﷲ نہ کریں کہ وہ وقت آئے جب لوگ یہ کہنے پر مجبور ہو
جائیں کہ ان ایمانداروں سے کرپٹ ہی بہتر تھے اور مجھ کو لگتا ہے وہ وقت آنے
والا ہے اگر میں پچھلے پندرہ سالوں میں اس ملک میں قائم ہونے والی تین
حکومتوں کا موازنہ کروں توپیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)کی حکومتوں کو جو سب
سے بڑا مسئلہ درپیش تھا وہ تھا اس ملک میں ہونے والی دہشت گردی ہر روز
دونوں حکومتوں کے ادوار میں پانچ پانچ بم دھماکے ہوئے سو سو لاشیں آٹھائی
گئی جس کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری بھی زوال پذیر رہی دوسرا مسئلہ جس کا
دونوں حکومتوں نے سامنا کیا ملک کے طاقتور حلقوں نے کبھی بھی دونوں حکومتوں
کو خوشدلی سے قبول نہیں کیا اور تیسرا مسئلہ جس کا خاص طور پر مسلم لیگ(ن)
کی حکومت نے سامنا کیا وہ تھا عمران خان کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام جبکہ
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں پی ٹی آئی کی حکومت خوش قسمت
ہے جب وہ برسر اقتدار آئی تو اس ملک کی عوام اور افواج پاکستان کی قربانیوں
کی بدولت دہشت گردی پر قابو پا لیا گیا تھا ملک کے تما م طاقتور اداروں نے
پی ٹی آئی کو خوشدلی سے قبول کیا اور اپوزیشن نہ ہونے کے برابر پیپلز پارٹی
اور مسلم لیگ (ن) اُس گرداب میں پھنس چکی تھی یا اُن کو پھنسا دیا گیا تھا
کہ اُن کے لیے سانس لینا محال اور حکومت وقت کے لیے کسی بھی قسم کی مشکلات
پیدا کرنے سے قاصر ان تما م حالات کے باوجود بھی اگر پی ٹی آئی کی حکومت
ناکام ٹھہرئے تو یہ اس کی نااہلی ہو گی مجھ کو آصف زرداری کی یہ بات سچ
ثابت ہوتی نظر آرہی ہے کہ اس حکومت کو گرانے کی ضرورت نہیں یہ اپنے وزن سے
خود ہی گر جائے گی آپ اگر الیکشن سے پہلے پی ٹی آئی کے وعدوں پر نظر ڈالیں
تو وہ کرپشن کا خاتمہ ، انصاف کی فراہمی، بیروز گاری کا خاتمہ، تعلیم اور
صحت کی سہولیات،احتساب ، غربت کا خاتمہ ، سٹیٹس کو کا خاتمہ، قرضوں سے
چھٹکارا اور معاشی استحکام کے بلند وبانگ دعووں کے ساتھ برسر اقتدار آئی اب
تک اگر پی ٹی آئی کی کارگردی کا جائزہ لیا جائے تو رزلٹ انتہائی مایوس کن
کرپشن کا خاتمہ جو پی ٹی آئی کا سب سے بڑا نعرہ تھا اُس کے لیے آپ صرف ایک
بار پی ٹی آئی کے ہی راولپنڈی سے ایم پی اے اعجاز خان جازی کی ویڈیو دیکھ
لیں جس میں وہ بتا رہے ہیں کہ کس طرح تھانوں میں تعناتیوں کے لیے پیسے لیے
جا رہے ہیں ایف بی آر میں لوٹ سیل جاری ہے جس کی وجہ سے ٹیکس کی مد میں تین
سو ارب کا شار ٹ فال ہے پی ٹی آئی اپنے جس منصوبے کو دنیا کا سب سے بڑا
عجوبہ قرار دینے پر تلی ہوئی تھی بی آر ٹی پشاور اُس کی اگر تحقیقات کی گئی
تو آپ کرپشن کے لفظ کے معنی ہی بھول جائے گے ہشت نگری کے مقام پر انڈر پاس
کے اندر سوئی گیس کی مین پائپ لائن لوگوں کے سروں کے اوپر سے گزر رہی ہیں
جو حکومت کی نالائقی کا منہ بولتا ثبوت ہے پی ٹی آئی کا دوسرا نعرہ انصاف
کی فراہمی سانحہ ساہیوال میں چار بے گناہ لوگوں کی شہادت اور ان مظلوم
لوگوں کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کے ساتھ حکومت وقت کا رویہ، اس کربناک
سانحہ کے پہلے دن سے لے کر اب تک حکمرانوں کا طرز عمل اور لواحقین کے ساتھ
کیا گیا سلوک اس کے بعد اس نعرئے کو تو دفن کر دینا ہی بہتر ہے بے روزگاری
اور غربت کا خاتمہ یہ نعرہ بھی صرف نعرہ ہی رہا آٹھ ماہ میں حکومت کی معاشی
پالیسیوں کی وجہ سے بیس لاکھ سے زاہد لوگ متوسط طبقے کی فہرست سے نکل کر
غریب لوگوں کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں ان آٹھ ماہ میں دس لاکھ سے زیادہ
لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں اور اگلے سال بے روزگاری کی شرح 2.6 تک جانے کا
امکان ظاہر کیا جا رہا ہے تعلیم اور صحت کی سہولیات کا جو حال ہے وہ بھی آپ
کے گوش گزار کر دوں گورنمنٹ ہسپتالوں میں پرچی فیس کو بڑھا دیا گیا ہے اور
مریضوں کو فری ادوایات کی فراہمی بند کر دی گئی ہے بقول ڈاکٹر یاسمین راشد
کے گورنمنٹ کے پاس اتنے فنڈ زنہیں ہیں کہ وہ مریضوں کو مفت ادوایات مہیا کر
سکیں اور مارکیٹ کے یہ حالا ت ہیں کہ ادوایات کی قیمتوں میں دو سو فیصد تک
آصافہ ہو چکا ہے تعلیم کا حال دیکھنا ہو تو کے پی کے میں پی ٹی آئی کے دور
حکومت میں ظاہری دکھاوئے کے لیے پچیس ہزار سے زاہد طلبا اور طلبات کی بوگس
انرولمنٹ کا کیس دیکھ لیں لگتا اس طرح ہے جس طرح احتساب کے نا م پر قائم
نیب کا ادارہ تمام لوگوں کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے بنایا گیا ہے اور اگر
بات کی جائے پی ٹی آئی کے معاشی پہلوان اسد عمر صاحب کی تو اُن کی بدولت
آٹھ ماہ میں زرمبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالر سے کم ہو کر 8.1ارب ڈالر پر
پہنچ چکے ہیں گردشی قرضہ1.1 کھرب سے بڑھ کر 1.4کھرب ہو گیا ہے مطلب 260ارب
کا آصافہ غیر ملکی سرمایہ کاری 4.1ارب ڈالر سے کم ہو کر ایک ارب ڈالر،
روزانہ کی بنیاد پر 14ارب روپے کا قرضہ لیا جار ہا ہے اسٹیٹ بنک کے مطابق
ان آٹھ مہنیوں میں39 کھرب80ارب روپے کا قرضہ لیا جا چکا ہے ورلڈ بنک ،
ایشین ڈویلپمنٹ بنک اور آئی ایم ایف پاکستان کی معاشی صورتحال پر تشویش کا
اظہار کر رہے ہیں اور حکومت ہے جو ابھی تک اپنے اپوزیشن کے دور کی طرح چور
چور کا ورد ہی کر تی جا رہی ہے جس کے دماغ میں جو آتا ہے سب کے سامنے کہہ
دیتا ہے اور پھر جب لوگوں کی طرف سے مذمت کی جاتی ہے تو اپنے بیان کو گھما
پھرا کر پیش کر نے کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے اگر ایماندار ی سے بات کی جائے
تو اس حکومت کے دور میں نہ احتساب، نہ انصاف، نہ تعلیم اور صحت کی
سہولیات،نہ کرپشن کے خاتمے کے لیے اقدامات اور نہ معاشی استحکام کے لیے
اصلاحات ہوتی نظر آئی ہیں اگر کچھ نظر آیا ہے تو وہ صرف ہے ابھی تک چور چور
کا شور اور فیصل ووڈا اور کچھ دوسرئے وزرا کے ٹشن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |