بسم اﷲ الرحمن الرحیم ہ
پاکستان میں کسی بھی بحث کا آغاز نیب سے شروع ہو رہا ہے ۔گزشتہ پیپلز پارٹی
اور مسلم لیگ (ن) کے ابتدائی دور میں نیب خاموش رہی،مگر جیسے ہی مقتدر
طاقتوں نے تحریک انصاف کا انتخاب کیا ،نیب میں نئی اکسیجن بھر دی گئی ۔بظاہر
تو جسٹس (ر) جاوید اقبال کو نیب کا چیئرمین مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی
نے مشاورت سے لگایا ،مگر بات کھلنے پر آئی تو معلوم ہوا کہ ایسا کسی کے حکم
پر ہوا تھا۔اگر جسٹس (ر)جاوید اقبال کی سربراہی میں نیب غیر جانبدارانہ
اقدام کرتی تو عوام خوش اور ملک ضرور خوشحال نہیں تو درست سمت پر گامزن ہو
جاتا ۔لیکن اس کے برعکس عدلیہ نے بھی نیب کی کارکردگی پر سوالات اٹھا دیے
ہیں ۔نیب مسلسل تنقید کی زد میں ہے ،مگر نیب اپنی روش تبدیل کرنے کو ہر گز
تیار نہیں ،بلکہ اپنے آپ کو متنازعہ بنانے کے لئے مسلسل غیر ضروری اقدامات
کر رہا ہے ۔اس کی مثال نیب نے نعیم بخاری کی خدمات لے کر دی ہے۔نعیم بخاری
ایک انٹرٹینمنٹ اینکر کے طور پر مقبول ہوئے ،وہ وکیل ضرور ہیں ،لیکن وکالت
میں ان کی کوئی قابل قدر خدمات نہیں ہیں۔پانامہ کیس میں تحریک انصاف کے
وکیل رہے اور جس طرح اس کیس کو چلایا گیا اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ۔اب تک
کہانی میں نعیم بخاری کو شریف خاندان کے دشمن کے طور پر کرداردیا گیا ہے۔آج
بھی اسی بنیاد پر نیب نے شریف خاندان کے خلاف وکالت کرنے کے لئے نعیم بخاری
کی خدمات حاصل کی ہیں ۔اس کہانی کے جتنے بھی کردار ہیں انہیں ملک یا عوام
سے ہمدردی نہیں بلکہ اپنی دشمنیاں نبھا کر دلی تسکین حاصل کر رہے ہیں۔عمران
خان کو ان کی سابقہ بیگم جمائما کے خلاف ٹائل کیس پر میاں نواز شریف سے
دشمنی کا بدلہ لینا تھا،نعیم بخاری اپنی ذاتی زندگی میں تلاطم کا ذمہ دار
میاں نواز شریف کو سمجھتے تھے ۔میاں نواز شریف اس مقام پر پہنچ چکے تھے ،جہاں
پر ان سے مقابلہ کرنے پر ان کے مخالفین کا قد بھی بڑھ جاتا ہے ،اسی لئے جب
انہیں موقع ملا تو انہوں نے کہانی کا کردار بننے کی کوششیں کی۔اس میں ان کا
کمال نہیں بلکہ وقت کا پہیہ میاں نواز شریف کا گردش میں تھا ۔لیکن یہاں نیب
اپنے کردار کو خود مشکوک بنا رہا ہے ۔کیونکہ عمران خان شریف خاندان کے
پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں ،یہ یاد رہے کہ انہیں ملک یا عوام کی فکر
نہیں،اگر فکر ہے تو شریف خاندان اور آصف علی زرداری اور بھٹو خاندان کو ختم
کرنے کے ایجنڈے کی تکمیل کی اور خاص فکر ہے انہیں خوش رکھنے کی ،جنہوں نے
ان کے خواب کی تعبیر کروائی،ورنہ خواب تو بہت لوگوں نے دیکھے تھے ۔
نیب کی حقیقت کیا ہے ․․․پرویز مشرف نے آئین پاکستان کو توڑتے ہوئے ملک میں
قائم جمہوریت پر شب خون مار کر جبرن اقتدار پر قبضہ کیا۔کیونکہ لمبے عرصے
تک اقتدار میں رہنے کا پلان تھا ۔جعلی جمہوری سیٹ اَپ بنانے کے لئے
سیاستدانوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔جن سے اپنی مرضی کے مطابق قانون سازی سے لے
کر ہر طرح کے غلط کام کروائے جا سکیں ۔پھر مشرف دور میں کیا کچھ نہیں
ہوا،فرد واحد نے ملک کو آٹھ سال تک یرغمال بنائے رکھا ۔ان میں تمام اداروں
اور سیاستدانوں نے بھر پور ساتھ دیا۔ 9/11 کے بعد کئے گئے غلط فیصلوں نے
ملک کو تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کر دیا ۔ان فیصلوں کا خمیازہ 70ہزار
جانوں کا نذرانہ دے کر اٹھایا ۔اپنی معاشی حالت برباد کر لی ،عوام فاقوں پر
آ چکی ہے ،مگر ان قوتوں کو ابھی تک تسلی نہیں ہوئی ،ایک بار پھر جمہوریت
لپیٹنے کی بساط لگا دی ہے ۔نیب کو جیسے مشرف نے تحقیقاتی ادارے کا نام دیا
تھا۔لیکن اس کے برعکس نیب ایک ایسا ادارہ ثابت ہوا ،جو بدعنوان عناصر سے
اپنا حصہ وصول کر کے انہیں تحفظ فراہم کرتا ہے ۔سیاسی وابسطگیاں تبدیل
کروانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔حالانکہ نیب کا مقصد بدعنوان افراد کا
احتساب ہے ،مگر پہلے دن ہی سے نیب کی کارکردگی اس کو دیے گئے مینڈیٹ کے
بالکل برعکس رہی ہے ۔نیب کئی کئی برس لوگوں کو تفتیش کے نام پر حراست میں
رکھتا ہے ، جب تاوان وصول ہو جائے تو خاموشی سے انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے
۔اگر ان کے متعلق عدالت میں کیس ہو تو بس دو لفظی بیان کافی ہوتا ہے کہ عدم
ثبوت کی بناء پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔
نیب کا تفتیش کا طریقہ کار بھی اغوا برائے تاوان والے مجرموں جیسا ہوتا
ہے۔نیب کا عملہ بھی زیر حراست افراد پر شدید ذہنی و جسمانی تشدد کرتا ہے
تاکہ ان افراد کے گھر والوں سے زیادہ سے زیادہ رقم وصول کی جا سکے۔مختلف
اوقات میں ایسے بہت سے کیسز سامنے آئے ،جس میں نیب نے غیر قانونی طور پر
شہریوں سے بھاری رقوم وصول کی اور ان سے ایسے دستاویزات پر دستخط اور
انگوٹھا لگوایا جاتا ہے ،جس سے وہ عدالت میں انصاف لینے بھی نہیں جا سکتے ۔
اسی طرح کے ایک مقدمہ سندھ عدالت کے سامنے آیا ، جس میں نیب کی جانب سے
شہری کو غیر قانونی طور پر کال اپ نوٹس کا اجراکیا گیا۔اس کے لئے نیب آفس
سے باقاعدہ فون بھی کیا گیا ،اس پورے قصے کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ نیب
کا پورا ادارہ اپنے بدعنوان افسران اور دیگر عملے کی بھر پور پشت پناہی کر
رہا ہوتا ہے ۔دوسروں کا احتساب کرنے والے اگر خود کا عملہ غیر قانونی اقدام
میں ملوث ہو تو چاہیے تھا کہ مذکورہ افسر کو فوری معطل کر کے اس کے خلاف
شہری کو اغوا کرنے ، تاوان وصول کرنے اور سرکاری اختیارات کے غلط استعمال
کا مقدمہ درج کیا جاتا،لیکن افسوس نیب نے مجرم کو سزا دینے کی بجائے مبینہ
طور پر تحفظ فراہم کیا ۔اس کا اسلام آباد تبادلہ ،ریکارڈ میں ردو بدل کیا
تاکہ ثبوت مٹ جائیں ، عدالت میں غلط بیانی سے کام لیا گیا۔
اب نیب کے ہاتھوں چادر چار دیواری اور بہن بیٹیوں کی عزت بھی محفوظ نہیں
رہی ہے ۔لوگ ان کی غیر ذمہ دارانہ رویے سے تنگ آ کر خودکشیاں کر رہے ہیں
۔بہتر ہے کہ نیب جیسے ادارے کو فوری طور پر ختم کیا جائے اور ان کے افسران
کے اثاثے اور طرز زندگی کو جانچا جائے ۔احتساب تو احتساب کرنے والوں سے
شروع ہونا چاہیے تھا،مگر جہاں بد نیتی پائی جاتی ہو ۔وہاں اپنے مقاصد کے
حصول کے لئے اپنے گریبانوں میں نہیں جھانکا جاتا بلکہ دوسروں کی پگڑیاں
اچھالی جاتیں ہیں ۔حکمرانوں کو شرم آنی چاہیے جوایسے کرپٹ افراد کی حمایت
بلکہ پشت پناہی میں تمام حدود پار کر جاتے ہیں ۔عوام کو ہوش میں آ جانا
چاہیے کہ ان کے ساتھ کتنا بڑا ہاتھ ہو چکا ہے اور یہ کارروائی رکی نہیں
بلکہ ابھی جاری ہے۔عوام کے ذہن کو احتساب کے نام پر اتنا منتشر کر دیا گیا
ہے کہ ان کے جھوٹ کی پالیسی کو سمجھتے ہوئے بھی خاموش ہے ۔اسی عوامی خاموشی
نے ملک کے حالات کو یہاں تک پہنچنے میں مدد دی ہے ۔عوام کو اپنی غلطی کا
مداوا کرتے ہوئے،حکومت میں جو لوگ ان کرپٹ افراد کی حمایت کر رہے ہیں ان کے
خلاف خود ایکشن لینا ہو گا۔حکمران اقتدار کے مزے لیتے ہوئے عوام سے کئے گئے
وعدے اور دعوے سب بھول چکے ہیں ۔وہی پروٹو کول ،عیاشی اور شاہانہ طرز
اقتدار نے واضح کر دیا ہے کہ یہ اقتدار کے پجاریوں کو عوامی مسائل سے کوئی
غرض نہیں ۔کیا عوام جانتی نہیں کہ عمران خان کے ساتھ حکومت میں جتنے لوگ
بیٹھے ہیں ان میں سے 80فیصد مشرف حکومت کے لوگ ہیں،جن کی فائلیں نیب نے دبا
کر ہی وفاداریاں تبدیل کروائیں تھیں ۔اس لئے وہ نیب جیسے ادارے کی غیر
قانونی اور انسانیت سے گری ہوئی حرکات کی حمایت کریں گے ۔
اس وقت عملی طور پر پاکستان پولیس اسٹیٹ میں تبدیل ہو چکا ہے ۔جو عدلیہ کے
فیصلے پسند نہیں ہوتے اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جاتا ہے ، بعض فیصلوں
کی من پسند تشریح کرنا معمول بن چکا ہے ، جس سے عدلیہ پر سے عوامی اعتماد
کو کمزور کرنے کی سازش ہو رہی ہے ۔ حکمران اس تمام سازشوں کا مکمل حصہ ہیں
، انہوں نے تاریخ سے کچھ سبق حاصل نہیں کیا ۔ان مقتدر اداروں کا لاڈلا میاں
نواز شریف سے زیادہ کوئی نہیں رہا ، مگر آج ان کی تمام اچھایوں کو بھی
برائیوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ تین بار ملک کا وزیر اعظم جس نے لا
تعداد ایسے کام کئے جس سے ملک اور عوام کو فائدہ ہوا ،غلطیاں بھی ہوتیں رہی
ہیں ،لیکن اگر کہا جائے کہ اس عرصے میں کوئی اچھا کام نہیں ہوا تو اس سے
بڑا جھوٹ کوئی نہیں ہو سکتا ۔لیکن جب ان مقتدر طاقتوں کو برابر نہیں بلکہ
سامنے بیٹھنے کا کہا ،تو اتنی ناراض ہوگئے کہ پورے خاندان کو عتاب کا نشانہ
بنا ڈالا،اس کے لئے کسی قانون کی پروا نہیں کی جا رہی ،ہر قانون کی اپنے
مطابق تشریح کی جا رہی ہے ۔وزراء کی نوکری اسی پر قائم ہیں کہ نواز اور
زردای خاندان جب تک آڑے ہاتھوں لیتے رہیں
گے ،عوام کے ذہن کو ان سے متنفر رکھیں گے ،وہ قائم ورنہ نوکری سے چھٹی۔آج
حکمران طبقہ سمجھ یہ رہا ہے کہ یہ سب کچھ ان کے مخالفین کے لئے ہے ،لیکن جب
انہوں نے خود اس ذد میں آنا ہے تو دہائیاں دے رہے ہونا ہے ۔میاں نواز شریف
نے اقتدار میں یہی غلطی کی تھی جس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑ رہا ہے ۔
اپنے ملک سے وفادار افراد کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ جب تک ملک قانون اور
آئین کے مطابق نہیں چلایا جائے گا،اس وقت تک مسائل کیسے حل ہو ں گے ۔آج
معاشرے کو دانستہ ایسا بنا دیا گیا ہے، جہاں زبردستی جو چاہے کیا جا سکے
،کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ ہو ۔ |