وزیراعظم مودی پر یہ الزام کہ انہوں نے اپنا کوئی وعدہ
پورا نہیں کیا درست نہیں ہے۔ ۲۰۱۴ کی انتخابی مہم کے دوران ان کا سب سےاہم
نعرہ تھا ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘۔ مودی جی کو چونکہ سب کا ساتھ نہیں ملا
بلکہ صرف ۳۱ فیصد رائے دہندگان نے ان کا ساتھ آئے اس لیے وہ سب کے بجائے
چند ہی لوگوں کا وکاس کرسکے۔ ان خوش قسمت لوگوں میں سب سے اہم نام انل
امبانی کا ہے جن کو جیل جانے سے چھڑانے کے لیے بڑے بھائی مکیش امبانی کو
آگے آنا پڑا لیکن اس سے قبل پردھان سیوک نریندر مودی بھی ان کو جیل جانے
سے بچا چکے ہیں ۔ وہ ہندوستان کی نہیں فرانس کی جیل تھی ۔ فرانسیسی اخبار
’لے مونڈ‘ کے مطابق انل امبانی کی ایک ٹیلی کام کمپنی فرانس میں رجسٹرڈ ہے
جس کا نام ریلائنس ایٹلانٹک فلیگ فرانس ہے۔اس کمپنی نے سال ۲۰۰۷ تا ۲۰۱۰
کے درمیان ۶۰ ملین یورو کا ٹیکس ادا نہیں کیا۔ انل نے اس کے بجائے ۶ء۷ ملین
یورو ادا کرکے جان چھڑانے کی سعی کی مگر وہاں کی ٹیکس افسران نہیں مانے۔
انل نے بھی ٹیکس نہ ادا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ۲۰۱۲ تک وہ رقم ۹۱ ملین
یورو تک پہنچ گئی۔
ان مشکل حالات میں انل امبانی کو چکرویوہ سے نکالنے کے مہابھارت کے کرشن کی
مانند مودی جی میدان میں آئے ۔ اپریل ۲۰۱۵ میں جب وزیر اعظم نریندر مودی
نے فرانس کی کمپنی دسالٹ ایوی ایشن سے رافیل جنگی جہاز خریدنے کا سودا کیا
اس وقت تک انل امبانی کی کمپنی پر فرانس حکومت کا ۱۵۱ ملین یورو ٹیکس چڑھ
چکا تھا۔ مودی جی کی مہربانی سے ر افیل سودے میں جب انل کو آفسیٹ پارٹنر
بنایا گیا تواس کے ۶ ماہ بعد فرانس کے ٹیکس افسران ۳ء۷ ملین یورو لینے پر
راضی ہوگئے۔ ۶۰ ملین یورو کے عوض ۶ء۷ ملین کی پیشکش ٹھکرانے والے افسران کا
۱۵۱ ملین کے بدلے پہلے سے بھی کم ۳ء۷ ملین پر مان جانا مودی جی کے آشیرواد
کا کمال نہیں تو اور کیا ہے ؟ انل امبانی جیسے ٹیکس چور سرمایہ دار کو جیل
جانے سے بچانے کا جو کارنامہ اس چوکیدار نے ادا کیا ہے اس کے لیے وہ نوبل
انعام کا مستحق ہے۔ یہ ۷ء۱۴۳ ملین یورو کی کی چھوٹ ۱۱۱۹ کروڈ روپئے بنتی
ہے۔مودی بھکتوں کو یہ خوش فہمی ہے کہ ایسی زبردست بچت اور اس کے سبب ہونے
والے وکاس کا جو لوگ انکار کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے دیش کی جنتا مودی
سرکار کو پھر ایک بار برسرِ اقتدار لا کر رہے گی۔
رافیل معاملے میں حکومت فرانس تک مودی جی اور انل امبانی کی حمایت کررہی ہے
لیکن ہندوستان کی عدالت عظمیٰ ہے کہ مان کر نہیں دیتی ۔ شاید اس کی وجہ یہ
ہے کہ رافیل پر کلین چٹ لینے کے لیے سرکار نے جھوٹ بول کر عدالت عظمیٰ کو
گمراہ کیا لیکن وہ بلی ّ ایک دن کے اندر تھیلے سے باہر آگئی ۔ حکومت نے
ایک ایسی رپورٹ کا حوالہ دے دیا کہ جس کو سرے وجود ہی نہیں تھا ۔ اپنی اس
کذب بیانی کو ڈھانپنے کے لیے کتابت کی غلطی کا بہانہ بنایا گیا۔ عدالت میں
عظمیٰ میں حلف نامہ کے ساتھ داخل کیے جانے والے کاغذات میں کتابت کی غلطی
کیا معنیٰ ؟ اگر یہ سچ ہو تو ایسی نااہل سرکار کو فوراً برخواست کردیا جانا
چاہیے ۔اسے ۱۳۰ کروڈ لوگوں پر مسلط رہنے کاچنداں حق نہیں ہےلیکن وہ نسیان
نہیں تھا ۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ ای وی ایم مشین سے جب کمل ہی کمل کھلتا
ہے اسے تکنیکی عذر قرار دے دیا جاتا ہے۔ جموں کے ضلع پونچھ میں جب ہاتھ کے
نشان والا بٹن نہیں دبتا تو وہ بھی غلطی شمار ہوتی ہے ۔سوال یہ ہے کہ آخر
مشین کبھی کمل کے علاوہ کوئی اور نشان بنانے کی غلطی کیوں نہیں کرتی ؟ یہی
مثال حکومت کے کتابت کی غلطی پر بھی صادق آتی ہے لیکن اگر عدالت نے اپنے
فیصلے میں اس کا ذکر نہیں کیا ہوتا تو کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ بند
لفافہ میں سرکار نے کون کون سے شواہد عدلیہ کے حوالے کیے ہیں ۔ یہ حوالہ
قصداً تھا یا سہواً اس کا پتہ لگانا مشکل ہے۔
عدالت کی کلین چٹ اور اس پر حکومت کا چت پٹ ہونا ابھی چل ہی رہا تھا کہ
سابق وزیر مالیات یشونت سنہا، معروف صحافی ارون شوری اور انسانی حقوق کی
پامالی کے خلاف جدوجہد کرنے والے وکیل پرشانت بھوشن نے ریویو پٹیشن داخل
کردی ۔ نظر ثانی کی درخواست میں کہا گیا کہ کورٹ کے فیصلے میں پیش کردہ کئی
حقائق غلط ہیں۔ ان میں سب سے اہم پہلو تو یہ تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ
حکومت کے ذریعہ جمع کیے جانے والے جس مہر بند لفافے میں دی گئی غلط معلومات
پر مبنی ہےاس پر کسی کے بھی دستخط نہیں ہیں ۔ اس کا مطلب ہے ہر سرکاری افسر
اس کی ذمہ داری لینے گھبرا رہا ہے تا کہ اس کذب بیانی کے لیے اسے بلی کا
بکرا نہ بنادیا جائے۔ درخواست کنندگان نے یہ بھی کہا کہ فیصلہ آنے کے بعد
کئی نئے حقائق سامنے آئے ہیں جن کی مدد سے معاملے کی تہہ تک جانا ضروری ہے۔
یہ نئے دھماکہ خیز انکشافات چنئی سے شائع ہونے والے نہایت معتبر اخبار ’ دی
ہندو‘میں معمر صحافی این رام کی تحقیق و تفتیش کا نتیجہ تھے۔ یہ وہی این
رام ہیں جنہوں نے کسی زمانے میں بوفورس کی توپ چلائی تھی ۔ اس وقت بی جے پی
والے ان کو سر پر اٹھا کر گھوم رہے تھے اس لیے اس بدعنوانی سے سیاسی فائدہ
مقصود تھا ۔ اب قدموں تلے روندرہے ہیں اس لیے انتخابی خسارہ ہورہا ہے۔
حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل نے ان دستاویز پر اعتراض کیا کہ انہیں نظر
ثانی کی سماعت میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ کے کے وینو گوپال کی دلیل یہ تھی
کہ انہیں وزارت دفاع سے چرایا گیا ہے ۔یہ ان کاغذات میں شامل ہے جن
کوہندوستانی شواہد کے قانون (Indian Evidence Act)کی دفع۱۲۳ کے تحت ‘ خصوصی
اختیارات ‘ کا تحفظ حاصل ہے۔اٹارنی جنرل کے مطابق ان کو آفیشیل سیکریٹ ایکٹ
کے تحت محفوظ کیا گیاہے اورآر ٹی آئی ایکٹ کے تحت دفع۸(۱) (ک) کے تحت ایسی
جانکاری کو انکشاف سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے
وینو گوپال کے دلائل کو یہ کہہ کرخارج کردیا کہ ‘ خصوصی اختیارات ‘ کا تحفظ
ایسے دستاویز کو ملتا ہے جو صیغۂ راز میں رہتے ہیں ،عوامی نہیں ہوتے یعنی
کہیں چھپتے یا نشر نہیں ہوتے ۔ نظر ثانی کی درخواست میں پیش کئے گئے کاغذات
چونکہ پہلے ہی شائع ہو چکے ہیں اس لیے ان پر اس دفع کا اطلاق نہیں ہوتا۔ یہ
عقل عام کے خلاف ہے کہ جس حقیقت سے ساری دنیا واقف ہو چکی ہے اس پر عدالت
میں بحث نہ کی جائے اس لیے کہ وہ مسروقہ ہے۔ یہ تو ایسا ہے کہ اگر کوئی کسی
کا مال دبا لے اور وہ چوری کرکے عدالت میں پیش کردیا جائے تو غاصب اس کی
گواہی تسلیم کرنے سے انکار کردے۔
سرکاری وکیل وینو گوپال نے رافیل سودے کے کاغذات چرائے جانے کا انکشاف کرکے
عوامی اور عدالتی دونوں سطح پر رسوائی مول لے لی ۔ عوام کے ذہن میں یہ سوال
پیدا ہوگیا کہ ہم نے اپنا ملک کیسے چوکیدار کے حوالے کردیا ہے جو وزارت
دفاع کے اندر بھی اہم ترین کاغذات کی حفاظت نہیں کرسکتا ۔ ٹوئیٹر پرچوکیدار
بنے پھرنےوالےیہ وزراء ملک و قوم کے تحفظ کی ذمہ داری کیسے ادا کرسکتے ہیں
؟ یہ کاغذات تو خیر بدعنوانی سے متعلق تھے اور ایک محب وطن کے ہاتھ چڑھ گئے
اگر اس طرح کی دوسری خفیہ معلومات ملک دشمنوں کے ہاتھ لگ جائے تو اس کی
قیمت کون چکائے گا؟ ایک سوال یہ ہے کہ جو حکومت کاغذات نہیں سنبھال سکتی تو
طیارہ کیسے سنبھالے گی؟ اس لیے کہ کاغذات کو ’پر ، پہیہ اور انجن‘ کچھ بھی
نہیں ہوتا جبکہ طیارہ تو ان سب سے لیس ہوتا ہے۔اس کی قوت پرواز کو یہ لوگ
کیسے قابو میں رکھ پائیں گے ؟
اس خبر کے آتے ہی پہلا تاثر تو یہ بنا کہ عدالت نے سرکار سے کچھ کاغذات
طلب کیے تو اس نے ان کے چرائے جانے کا بہانہ بنادیا ۔ یہ قدیم حکمت عملی ہے
کہ وزارتوں کے انہیں کمروں میں آگ لگتی ہے جہاں ایسے دستاویز موجود ہوتے
ہیں جن سے حکومت کی ساکھ پر آنچ آتی ہے۔ کون جانے ان کاغذات کو ’جوہر کی
رسم ‘ ادا کرنے کا خیال کس طرح آجاتا ہے اور وہ ازخود اپنے آپ کو جلا کر
بھسم کردیتے ہیں ۔ رافیل کے معاملے میں عدالت کے سامنے خود وینو گوپال نے
غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کامطلب یہ نہیں ہےکاغذات چوری ہوگئے
یعنی غائب ہوگئے بلکہ ان کی نقل چرائی گئی۔ اس لیے مسروقہ کاغذات پر اعتبار
کرنے کے بجائےچور پر کارروائی ہونی چاہیے۔ وینو گوپال کی توقع کے خلاف
عدالت عظمیٰ نے جب پلٹ کر سوال کیا کہ اس چوری کے خلاف حکومت نے کیا اقدام
کیے تو سرکاری وکیل کی سٹیّ گم ہوگئی۔ اس لیے کہ اس نے تو ایف آئی آر تک
داخل کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی تھی اس لیے کارروائی کون اور کیسے کرتا ؟
سرکاری وکیل رافیل معاملے میں حکومت کا دفاع تو نہیں کرسکے مگر ان کے موقف
سے یہ بات ازخود ثابت ہوگئی ہے وہ کاغذات نقلی نہیں ہیں۔ اس معلومات کو
جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔ بدعنوانی سے متعلق اہم معلومات کو اگرہندوستانی
شواہد کے قانون (Indian Evidence Act)کی دفع۱۲۳ کے تحت ‘ خصوصی اختیارات ‘
کااستعمال کرکے آفیشیل سیکریٹ ایکٹ کے تحت چھپا دیا جائے تو کرپشن بے لگام
ہوجائے گا۔ سچ تو یہ رافیل کے معاملے میں حکومت جتنا پردہ پوشی کرتی ہے
اتنی ہی بے نقاب ہوجاتی ہے۔عوام یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ جن کے
ووٹ سے یہ حکومت بنتی ہے آخر انہیں کو ایسی اہم معلومات سے کیوں محروم کیا
جاتا ہے؟ اس سے چوکیدار کی سفید داڑھی میں کالا تنکا صاف نظر آجاتا ہے۔
رافیل معاملہ عوام میں نہ سہی مگر عدالت کے اندر حکومت کے گلے کی ہڈی بنا
ہوا ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ ضابطہ اخلاق نافذ ہونے کے بعد ۱۴ مارچ کو چیف
جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس ایس کے کول اور جسٹس کےایم جوزف کی بنچ نے حکومت کے
ذریعے اٹھائے گئے ان اعتراضات پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا جس سے سرکار نے
چین کا سانس لیا لیکن اسے پتہ نہیں تھا کہ رائے دہندگی کے فوراً پہلے عدالت
اپنا فیصلہ سنا دے گی۔ انصاف پسند عوام کی توقعات پر پورا اترتے ہوئے عدات
عظمیٰ نے رافیل معاملے میں نظر ثانی کی درخواست پر سماعت کے دوران مرکزی
حکومت کے ذریعہ اٹھائے گئے خفیہ دستاویزوں سے متعلق تمام اعتراضات و دلائل
کو یکسر خارج کر دیا ۔ عدالت کا موقف ہے کہ اس مقدمہ کی سماعت اس کی میرٹ
(اہلیت) پر ہوگی اور اس کے لئے تاریخ طے کی جائےگی۔
اس معاملے میں تین رکنی بینچ نے دو الگ الگ فیصلے صادر کیے لیکن یہ دلچسپ
حقیقت ہے ان دونوں میں سے ایک بھی سرکار کی تائید نہیں کرتا ۔ چیف جسٹس
رنجن گگوئی اور جسٹس ایس کے کول نے مشترکہ فیصلہ لکھا جبکہ جسٹس کےایم جوزف
کافیصلہ ان سے الگ ہے۔ یہ دونوں فیصلے چونکہ حکومت مخالف ہیں اس لیے ان میں
کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ ان فیصلوں پر سرکار دربار سے تو کسی ردعمل کی امید
ہی نہیں تھی اس لیے کہ اسے منہ کی کھانی پڑی تھی مگررافیل بدعنوانی کے خلاف
سب سےبلند آواز ارون شوری نےاپنے من کی بات اس طرح کہی کہ ’’ہم دستاویزوں
کی قبولیت سے متعلق مرکزی حکومت کی دلائل کو اتفاق رائے سے عدالت کے ذریعہ
خارج کیے جانے کے حکم سے خوش ہیں‘‘۔ ایسے نازک موقع پر جبکہ انتخابی جنگ کا
آغاز ہوا چاہتا تھا کانگریس کا خوش ہونا توقع کے عین مطابق تھا ۔ اس نے
ٹوئٹر پر لکھا ’’یہ ہندوستان کی فتح ہے۔ رافیل سے متعلق از سر نو غور کی
عرضی پر سپریم کورٹ کے ذریعہ سنائے گئے فیصلہ کا ہم استقبال کرتے ہیں۔ ستیہ
میو جیتے ‘‘ ۔
دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال بھی اپنی خوشی چھپا نہیں سکے انہوں نے
سوشل میڈیا پر اس کا اظہار اس طرح کیا کہ ’’مودی جی ہر جگہ کہہ رہے تھے کہ
سپریم کورٹ سے رافیل میں کلین چٹ ملی ہے۔ آج کے سپریم کورٹ کے فیصلے سے
ثابت ہو گیا کہ مودی جی نے رافیل میں چوری کی ہے، ملک کی فوج سے دھوکہ کیا
ہے اور اپنا جرم چھپانے کے لیے سپریم کورٹ کو گمراہ کیا‘‘۔ ایک بات طے ہے
رافیل معاملے میں مودی جی عوام کوتو بیوقوف بنا سکتے ہیں لیکن عدالت کو
نہیں اس لیے یہ بمباری انتخاب کے بعد بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑے گی اور
عدلیہ کے اندر ان پر ائیر اسٹرائیک کا سلسلہ جاری رہے گا۔ عدالت میں حکومت
جن کاغذات کا سامنا کرنے سے کترا رہی ہے اس کی تفصیلات بیان کرنے کے لیے
ایک علٰحیدہ مضمون درکار ہے اس لیے وہ کہانی پھر کبھی۔ اس موقع پر تو مودی
جی کی نذر مسرور انوار کا یہ شعر ہے ؎
دل کے لٹنے کا سبب پوچھو نہ سب کے سامنے
نام آئے گا تمہارا یہ کہانی پھر سہی
|