عزت نصف کسی شخص کی محفوظ نہیں ،
اب تو اپنے ہی نگہبانوں سے ڈر لگتا ہے ،
ڈنکے کی چوٹ پے ظالموں کو برا کہتی ہوں،
مجھے سولی سے نہ زندانوں سے ڈر لگتا ہے ،
وطن عزیز کے حکمران اور عہداران ہاتھ میں کشکول لئے اغیار کے سامنے ہر وقت
بھیک ملنے کے منتظر رهتے ہیں ۔جو نہ صرف اس ملک کے تشخص کو پامال کر رہے
ہیں بلکے آئندہ ہماری نسلوں کو گداگری جیسی شرم ناک عادت سے متعارف بھی
کروا رہے ہیں ۔تاریخ میں ایسی بہت سی قوموں کے قصّے ہے ۔جس نے اپنے سرو کو
جھکا کر دست سوال بلند کیا اور بعد میں جن کا انجام بازار میں بکنے والے
سفید جسموں کے مانند بن کے ابھرا ۔ایسا ہی کچھ حال وطن عزیز کا بھی ہے ۔
پاکستان پچھلے دس سالوں میں امریکا سے اٹھارہ بلین ڈالرسے زائد کی رقم
موصول کر چکا ہے ۔امداد پے امداد لینے کی وجہ جب ان حکمرانوں سے پوچھی جاتی
ہے تو آگے سے جواب یہ ملتا ہےکہ پاکستان ایک غریب ملک ہے بھوک اور افلاس
انتہا پر ہے لہٰذا امداد لینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ۔میں نے سوچا چلو
ان کلمات پر اعتبار کرلیا جائے اور سوچا گھر سے باہر نکل کہ دیکھو کہ امداد
کہ نام پر ملنے والی اس بھیک نے عوام کی حالت زندگی کہاں تک بدلی ہے ۔مجھے
بہت افسوس ہوا دل پھٹ کر رہ گیا ۔کہی میں نے بھوک سے بلکتے ہوئے معصوم بچوں
کی آوازیں سنیں ۔تو میں نے کہی بازار میں بکتی آدم کی بیٹی دیکھی تو کہی پر
میں نے وزیر اعظم کے تن پر لاکھوں کا لباس دیکھا ۔کہی پر میں نے اولاد
برائے فروخت کے نعرے سنے تو کہی پر میں نے ان حکمرانوں کے آگے پیچھے دس دس
بڑی بڑی گاڑیوں کو دیکھا ۔کہی پر میں نے عافیہ صد یقی کی ماں کو اسکے
انتظار میں تل تل مرتے دیکھا تو کہی پر میں نے اس ملک کہ حکمرانوں کو
امریکا کی دن رات خوش آمد کرتے دیکھا۔
میں کیا بتاؤں میں نے کیا کیا دیکھا ۔۔۔۔!!!!!!!
امریکا کی طرف سے ڈرون حملوں میں مرنے والے معصوموں کی لاشوں کو دیکھا ۔کہی
عورتوں کے اجڑے ہوئے دیکھا ۔کہی نوجوانوں کو ہاتھ میں ڈگریوں لئے بے
روزگاری کہ عوض پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے جھلستے ہوئے دیکھا ۔تو کہی پر میں
نے بزرگوں کو پارلیمینٹ ہاؤس کے سامنے پینشن نہ ملنے کی صورت میں ہلاک ہوتے
دیکھا ۔عوام کو وسائل فراہم کرنے کے نام پر خیرات مانگی جاتی ہے۔لیکن اس کے
باوجود بھی ہسپتال میں وسائل نا ہونے کی وجہ سے عورتیں رکشا ،ہسپتال کے
باہر روڈوں پر اور بیت الخلاء میں بچوں کو جنم دینے پر مجبور ہے ۔
میں نے اس ملک کے ہر شہر میں کربلا کا میدان دیکھا تو میری زبان پر بے
اختیار یہ کلمات آگئے ۔
وطن کا پاس تمہیں تھا نہ ہو سکھے گا کبھی ،
کہ اپنے حرص کے بندے ہو بے ضمیر ہو تم ،
چند روپوں کے عوض اس ملک کی عزت اور توقیر گروی رکھنے والے ان حکمرانوں نے
ہم سے ایک گیرت مند قوم کہلوانے کا حق چھین لیا ہے ۔آج پاکستان اسی غلامی
کی زنجیروں سے بندھنے جا رہا ہے جس سے آزاد کروانے کہ لیے کئی مسلمانوں نے
اپنے لہو کا نظرانہ پیش کیا ۔کئی آدم کی بیٹیوں کی عزتوں نیلام ہوئی ۔اس
ملک کو گلستان بنانے کے لئے شہر کے شہر تباہ ہو گئے ۔میں پوچھی ہوں کیا یہ
ہے وہ پاکستان ۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!
دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے والا کبھی قائد اعظم کا پاکستان نہیں ہے ۔میں سلام
کرتی ہوں ان تمام قربانیوں کو جو اس ملک کو گلستان بنانے کے لئے لوگوں نے
دی ۔
لیکن ۔۔۔۔!!!
دیپ جن کے چند . خواشوں میں جلے ،
دیپ جن کے صرف محلاتوں میں جلے ،
چند لوگوں کی خواہشات کو لے کر جلے ،
جو کئی مصلتوں کے سائے میں پلے ،
ایسے دستور کو ، صبح بے نور کو ،
میں نہیں مانتی، میں نہیں مانتی۔۔۔!!!
کیوں ڈراتے ہوں زندانوں کی دیواروں سے،
ظلم کی رات کو جہل کی بات کو ،
میں نہیں مانتی ، میں نہیں مانتی۔۔۔۔!!!! |