عبد القادر جیلانی سے عبدالقادر گیلانی تک

حج کے مبارک مو قع کو گزرے تین ماہ سے زیا دہ عر صہ گزر چکا ہے اور اب چند ہفتو ں ہی بعد انشاء اﷲ اگلے حج کی کا روا ئیا ں شروع ہو جا ئیں گی مگر حج 2010 کی با زگشت اب بھی فضا میں ہے کیو نکہ اس کے حوا لے سے روزانہ خبریں سننے اور پڑ ھنے کو مل رہی ہیں کہ وہ ذہن سے محو ہی نہیں ہو پا رہا!

سا بق وفا قی وزیر حا مد سعید کا ظمی کی گرفتاری کے لیے چھا پے!!! مفرور!

اور اب یہ کہ عبد القادر گیلانی کوFIA نے تفتیش کے لیے طلب کر لیا ہے! یہ نا م ہم کوصد یو ں پہلے تا ریخ میں لے جا تا ہے جب ایک ماں اپنے بیٹے کے لبا س میں چا لیس اشر فیا ں سی دیتی ہے اور جو وہ ڈا کوؤں کے سر دار کے حوا لے کر دیتا ہے یہ کہتے ہوئے کہ ماں سے جھوٹ نہ بولنے کا وعدہ لیا ہے! تا ریخ اس بچے کو عبد القا در جیلا نی کے نا م سے جا نتی ہے جو راست با زی اور وعدے کی پا بندی کا symbolبن کر سا منے آتے ہیں اور جن کا ذکر کہا نیو ں کے ذریعے مائیں برسوں سے بچو ں کے ذہن میں آئیڈیل کے طور پر کرتی رہی ہیں ۔ اور اب ؟ عبد القادر گیلانی کرپشن کا چیمپئن بن کر سا منے آ تا ہے!عربی میں چونکہ گ موجود نہیں ہے اس لیے ’جیلانی ‘ او ر ’گیلا نی ‘ میں در اصل کوئی فرق نہیں ہے۔ ایک ہی نام ہے ۔

اگر نامو ں کے اثرات انسان کی زندگی پر ہوتے ہیں تو پھر رویو ں میں اتنا فرق کیو ں؟ یہ تو نیتو ں کا فتور ہے جو نام کا اثر شخصیت پر نہیں پڑ نے دیتا یا پھر وہی کہ نام میں کیا رکھا ہے؟ مگر نا م تو وا لدین کی طرف سے سب سے پہلا تحفہ ہوتا ہے اس کے بعد ماحول اور دیگر چیزیں ملتی ہیں جن میں جا گیریں اور ان سے جڑی جاگیردارانہ ذہنیت!!

کرپشن تو ہماری رگو ں میں خون کی طرح دوڑ رہی ہے مگر حج کے ساتھ کرپشن کا لفظ سنتے ،پڑھتے اور لکھتے ہو ئے بھی انسان لرز کر رہ جا تا ہے مگر یہ ذمہ داران لمبی لمبی زبا نیں نکا لے بیانات دے رہے ہیں۔

جی ہا ں ذرا آج کے اخبا رات میں ابن وزیر اعظم کا میڈیا کو دیا گیا بیا ن ملا حظہ کیجئے!!

راؤ شکیل نے میرا کہیں بھی نا م نہیں لیا (اس کی یہ مجال !) ..................مجھے فخر ہے کہ میرے آ باء اجداد نے نشتر ہسپتا ل کے لیے زمین وقف کی ( اپنے جاگیر دار ہونے کا زعم!).......اور یہ بھی فخر ہے کہ میرے وا لد نے عدلیہ کی بحا لی کے لیے جیل کا ٹی (آقا ؤں کی خوشنودی کے لیے اپنے جمہوری ہو نے کا بھی ثبوت ! ).........................میری حق حلال کی کمائی ہے اور میری استطا عت اتنی ہے کہ میں ایسی دو گا ڑیا ں اور خرید سکتا ہوں(ذرا بھی حیا ہو تو بھوک سے مرنے وا لوں کا ریکارڈ دیکھ لیں!) ان تما م بیا نات کا تجزیا تی جا ئزہ اس کا لم میں لینا ممکن نہیں مگر ذرا ان میں چھپی رعو نت کی بو سو نگھیے! ہر جملہ خود ایک چارج شیٹ ہے ان کے خلا ف!

با ت اگر استطا عت اور گا ڑیو ں کی ہے تو چلیں آپ کو ایک منظر دکھا تے ہیں ! یہ حج 2010 ہے۔ تھکے ہو ئے زا ئرین عشا ء سے فا رغ ہو کر اسٹا پ تک پہنچتے ہیں تا کہ وا پس رہا ئش گا ہ کو جا سکیں ۔کافی انتظا ر کے بعد ایک ہائی لکس پاکستا نی جھنڈا لہرا تی ہوئی نظر آئی۔ لوگ چوکنا ہو گئے اس پر سوار ہو نے کے لیے !مگر وہ رکنے کے بجائے تیز دوڑنے لگی اوراس کے پیچھے لوگ!دو بلڈنگ بعد وہ رک گئی مگر جب تک زائرین وہا ں پہنچتے ڈرائیور نے گا ڑی موڑ لی اور پھر بلڈنگ کا چکر کا ٹ کر دوبا رہ اسٹا پ پر پہنچ کر رک جا تی ہے(وہا ں کے قانون کا بھی تو خیال ہے!) ۔

اس دوران ہانپتے کانپتے مسافر وہا ں پہنچ کر اس میں سوار ہو نے کی کوشش کر تے ہیں ۔ کچھ جگہ پا تے ہیں اور کچھ ما یو س کھڑے رہ جا تے ہیں ۔ جگہ پا نے وا لو ں نے ڈرائیور کو اس کے پا کستا نی ہو نے کا احسا س دلا یا تو وہ چیخ پڑا ’’.........میں تو پا کستا ن کو لات مار کر آ یا ہو ں............‘‘

کچھ لوگ اس کے رویے پر احتجا ج کرنا چاہ رہے ہیں جنہیں ان کے ساتھی روک لیتے ہیں ’’.......اتنی مشکل سے تو جگہ ملی ہے۔اسے غصہ نہ دلا ؤ..........‘‘ مگر ایک غیور نوجوان یہ بے حسی بر داشت نہ کر پا یا اور ڈرائیور کو لتا ڑنے لگا ’’ ..........کیا لات مار کر آ ئے ہو؟ حکو مت پا کستا ن کی ہی تو گا ڑی چلا رہے ہو۔ کیا حیثیت ہے تمہا ری یہا ں ؟............‘‘اور ڈرائیور کو چپ لگ گئی ۔

جو لوگ ما یوس کھڑے رہ گئے تھے وہ اتنی دفعہ اس بھاگ دوڑ سے گزرے کہ کہہ اٹھے ’’ اتنے میں تو ہم کئی طواف کر لیتے......‘‘ بات درست سہی مگر ہمت تو ہو ؟عبادت کے لیے آرام بھی چا ہئے مگر اپنے ہی عملہ کے ہا تھو ں مستقل تکلیف اور وہ بھی دیگر اقوا م کے سا منے جو آرا م سے SAPTCOکی بسو ں میں سوار ہو ہو کر جا اور آ رہے ہیں ۔ اور پھر اگر بس میں جگہ مل بھی جا ئے تو سپیڈ ایسی کہ کچھوا بھی شر ما جا ئے ۔ مقصد بس اپنے ہم وطنو ں کو ذلیل کر نا ! تو جب گاڑی کا ایک عام ڈرائیور اتنا فرعون بن سکتا ہے ذرا سا اسٹیرنگ ہا تھ میں آ نے سے! تو وزیر اعظم کے بیٹے کے غرور کا کیا کہنا !کاش کوئی اس غیور جوا ن کی طرح کوئی ابن وزیر اعظم کو للکار سکے کہ تمہاری کیا استطا عت؟ ہمارے ہی پیسو ں سے تو عیش کر رہے ہو!!

کچھ لو گو ں کا خیال ہو گا کہ یہ کون سا نیا منظر ہے؟ یہ تو وطن عزیز کی سڑکو ں پر روزانہ ، دہرا یا جا تا ہے! اور اگر غیرت و حمیت کا مظا ہرہ ہوتا رہے تو ہر طرف غارت گری ہی ہوگی ۔ (یہ ہی تو اس نظا م کا کمال ہے کہ عوام کے اندر غلط قسم کا صبر و تحمل پیدا کر دیتا ہے جس میں احتجا ج کی جرآت دم توڑ دیتی ہے) بات تو درست ہے! اپنا ٹرانسپورٹ سسٹم تو کچھ رہا ہی نہیں ہے سوا ئے لیز کی گا ڑیو ں کے! اپنی قدر دا نی کے سوال سے بھی زیادہ پریشان کن ہے دوسری اقوام کے سا منے اپنا امیج!

کسی کے خیال میں حج تو مشقت کا نام ہے ،پھر کاہے کا رونا !جی ہاں اگر یہ سوچ کر جا نے کے بجا ئے دل میں یہ خیال لے کر جاتے کہ بادشا ہ نہ سہی اپنا سفیر تو استقبال کرے گا ہمارا ! تو بڑے دل شکستہ ہو تے! اصل بات یہ ہے کہ 2010 میں کیے جا نے وا لے حج کا مقابلہ اونٹو ں اور پیدل کیے جانے والے دور سے کرنا کس حد تک منصفا نہ ہے ؟ بات آسائشو ں کی نہیں سہولتو ں کی ہے! جس کی مد میں دیا جانے وا لا پیسہ حاجی سے وصول کر کے عبد القادر کو گا ڑی خرید نے کے لیے دے دیا جا ئے اور بے چا رہ حا جی صبر کے گھو نٹ پئے!بس یہ ہی حج کر پشن ہے!!!

کر پشن کی اس شکل کا بیس برس پہلے شاید وجود بھی نہ تھا۔اس کا کر یڈ ٹ تو مسٹر ٹین پر سنٹ کے شاندار اور زر خیز ذہن کو دینا پڑے گا جنہو ں نے بی بی کی پہلی حکو مت میں بطور ’’فرسٹ مین‘‘ جب مکے اور مدینے کا دورہ کیا تو سونے کی اتنی ارزا نی دیکھ کر ان کی آنکھیں پھٹ گئیں ۔وہ تو مٹی کو ہا تھ لگائیں تو سونا بنا دیتے ہیں! .........اور پھر ’خدام الحجاج ‘ سونے کی کان بن گئے۔ کیا زبر دست سر مایہ کاری ہے!! اس کا اقرار پی پی پی کے وزراء نے خود ٹی وی پر کیا یہ کہہ کر کہ کس قدر lucrativeوزارت ہے ! ہر چیز میں کمیشن!

خبر یہ ہے کہ وزیر اعظم کے صا حبزادے کو دو نو ں کیسو ں سے بری کر دیا گیا ہے ثبوت نہ ہو نے کی وجہ سے!! مگر کیا اس بڑی عدالت سے بھی بچاؤ ممکن ہے جو جلد ایکشن لینے وا لی ہے ۔ اگر محض اس بات پر پکڑ لے کہ غر بت کے ہا تھو ں اپنی اولاد بیچنے والے عوام کے حکمران کو کروڑو ں کی گا ڑیو ں کا شوق پالنا ظلم کے کس درجے میں آ تا ہے!

اپنے حسب نسب کا فخر انہیں بھلا دیتا ہے کہ جس کا عمل اس کے کام نہ آ ئے اس کا شجرہ بھی بیکا رہو گا ۔اور پھر عقیدت سے رکھا نام بھی کام نہ آ ئے گا جب ذرے ذرے کا حساب دینا ہو گا۔ یا پھر ہو سکتا ہے اس سے قبل ہی کوئی غیور اٹھ کھڑا ہو تواس کی شامت سب سے زیا دہ ہو گی جس کے ہا تھ صاف نظر آ ئیں گے!
Farhat Tahir
About the Author: Farhat Tahir Read More Articles by Farhat Tahir: 72 Articles with 80606 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.