جس دن عمران خان کو کنٹینر پر کھڑا کرتے ہوئے حکومت وقت
کے خلاف متحرک کیا گیا،اسی وقت سے پاکستان کی اقتصادیات کا' ڈائون فال'
شروع ہو گیا تھاجس کی اب بدترین صورتحال درپیش ہے۔کیاملک میں ماورائے آئین
حاکمیت کو یقینی بنانے کی جنگ اتنی ہی ناگزیر تھی کہ اس کے لئے ملکی
اقتصادیات کو ہی تباہ کردیا جائے؟ کیا ملک میں سیاسی انتشار پیدا کرتے ہوئے
اقتصادی حالت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے؟ سیاسی انتشار تو ملک کی بنیادوں کو
بارود سے تباہ کرنے کے مترادف ہو سکتا ہے۔مصنوعی سیاسی نظام اور مصنوعی
پھول چاہے کتنے ہی دلکش کیوں نہ ہوں، وہ ملک کو اچھا انتظام، اقتصادی ترقی
اور خوشبو نہیں دے سکتے۔کیا ہمارے بازو شمشیر زن اقتصادی طور پر بھی اتنے
مضبوط ہیں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کی اقتصادی ایمر جنسی کے باوجود ملکی
دفاع کی صلاحیت متاثر نہیں ہو سکتی؟
ملک میں مارشل لاء کے ذریعے ملک پر قبضہ کرنے کے بجائے مختلف آزمودہ ٹوٹکوں
کی مدد سے ایسی حکمرانی کو مضبوط تر کیا گیا ہے جس میں حکمران کوفرشتے تو
کہا جا سکتا ہے لیکن ان کا نام لینے سے بعض کے پر چلتے ہیں اور بعض کے جسم
ہی غائب ہو جانے کے امکانات ہوتے ہیں۔تاہم دہشت گردی،حرمت و تقدیس کو افراد
و اداروں سے منسلک کرنے کے قوانین سے سخت تادیبی کاروائیوں کو بھی ممکن کر
دکھایا گیا ہے۔
ہماری بدبختی ہےکہ اداروں کی طرف سے بھی ناکام قرار دیئے جانے والے موجودہ
نظام کو تبدیل کرنے کا عزم بھی انہی کی طرف سے ظاہر کیا جا رہا ہے جو ملک
کو خراب اور برباد کرنے والے موجودہ نظام کو بنانے اور چلانے والے ہیں۔ان
کا نام لینا منع ہے تو بھی فرشتے کہتے ہوئے ہم جان و مال کی امان حب الوطنی
کے دعوے میں طلب کرتے ہیں۔ بقول شاعر ''نام آئے نہ تیرا پیار کی رسوائی
میں''۔
بلا شبہ ہمارے سرکاری ادارے،محکمے سب ناکام قرار پاتے ہیں،ہمارا نظام ہی
ناکام قرار پاتا ہے۔ بنیادی سہولیات سے محروم عوام کو مفتوحہ لوگوں کی طرح
مختلف سرکاری اور نجی وصولیوں میں جکڑ دیا گیا ہے۔ لیکن ہمیں اعتراض ہے کہ
ہمیں ناکام ریاست نہ سمجھا جائے۔اگر ہم حتمی تباہی کے گڑھے میں ابھی گرے
نہیں ہیں تو بھی ہم اس کے دھانے پہ ضرور ہیں اور ناکامی کے اس گڑھے کی طرف
بڑہنے کو ہی کامیابی کا راستہ ظاہر کر رہے ہیں۔
ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مذہب کی بنیاد پر جنونی مائینڈ سیٹ کی
بیج کنی کے بجائے ملک میں سیاسی انتقامی بنیادوں پر غدار ی اور دیگر سنگین
تادیبی کاروائیوں کا طریقہ کار چلایا جا رہا ہے۔اب ملک میں یہ حال کر دیا
ہے کہ اپوزیشن جماعتیں بھی دست با ادب فرماتی ہیں کہ ہمارا وجود بھی تسلیم
کیا جائے تو ہم بھی ملک پر زبردستی مسلط کردہ اس نظام کو تسلیم و قبول کرنے
اور اس کے لئے خدمات سرانجام دینے کو تیار ہیں۔
انسانی فطرت ہے کہ تبدیلی آ کر رہتی ہے اور خرابیوں کی انتہا کے بعد بھی
بہتری ضرور ہوتی ہے۔یقینا پاکستان میں بھی بہتری ہو گی لیکن اس میں چند
صدیوں کا سفر درکار معلوم ہوتا ہے۔ابھی ہمارے معاشرے کو امریکہ کی طرح
مذہبی جنونیت، لاقانونیت،ظلم و ستم،تباہی بربادی کے عشروں کے سفر سے گزرنا
ہو گا۔ لیکن ہماری زندگی کا کیا؟ اگر ہم بے بس اور مجبور ہیں تو آئندہ
نسلوں کے حکام بھی تو اب سے زیادہ مضبوط ہوں گے،پھر اصلاح کیسے ہو گی کہ
ہمیں آگے بڑہنے کے لئے قدم آگے کی طرف بڑہانا نہیں آ رہا۔ایک قدم آگے بڑہتے
ہیں تو کئی قدم پیچھے۔طبقات کی بالادستی کے اس معاشرے میں حاکمیت کی جنگ
ابھی کیا کیا قیامتیں ڈھائے گی، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ہمارے معاشرے کی
ریاستی/سرکاری دلیری بھی عجب ہے کہ اپنے ہی ملک کو برباد کرنے سے بالکل بھی
خوفزدہ نظر نہیں آتی ! |