دھرتی کا پورا وجود لہو لہو تھا،اس کا سانس دھونکنی کی
طرح چل رہا تھا۔مگر وہ اپنے مدار میں چپ چاپ گردش کیے چلے جا رہی تھی۔
اس کی ساری اولاد اس کے چوڑے چکلے سینے پہ موجود تھی۔جانور،چرندپرند اور سب
سے لاڈلی مخلوق انسان،جو اسے سب سے زیادہ پیاری تھی مگر ستم بالائے ستم اسی
انسان کے ہاتھوں اسے سب سے زیادہ چرکے لگائے گئے۔پتہ نہیں کیوں ؟جو آپ کا
پیارا ہوتا ہے آپ اس کے پیارے کیوں نہیں ہوتے؟زمین کی آہو بکاہ جاری
تھی۔۔وہ بولتے بولتے گہری سوچ میں ڈوب جاتی جیسے حالت ارتکاز میں ہو۔۔آج کل
وہ کچھ زیادہ ہی چپ رہنے لگی تھی،کوئی سننے والا پرسان حال جو نہ تھا ایسے
میں وہ اپنا دکھ کہتی بھی تو کیسے کہتی،سردی نے اس کی بوڑھی ہڈیوں میں
سنسناہٹ پیدا کر دی تھی،حالیہ ریکارڈ توڑ برف باری نے اس کا جسم تو کیا
سوچیں بھی منجمد کر دیں تھیں،ایسے میں سورج کی چنگاریاں جو کبھی کبھار ہی
سہی اس کے ٹھٹھرتے وجود میں حرارت پیدا کر دیتیں تواس کے سوچنے کی حس بھی
کام کرنے لگتی،آج بھی برف باری کے بعد تھوڑی دھوپ نکلیں تھیں،اسکی کرنوں
میں اپنا آپ گرما رہی تھی جب ایک خبر سنائی دی،امریکہ بہادر جو کہ اس کا سب
سے امیر اور بگڑا ہوا بیٹا تھا۔جتنا خوبصورت دکھتا تھا اس سے کہیں زیادہ
بدصورت تھا،جی ہاں آپ ٹھیک سمجھے اصل خوبصورتی تو من کی ہوتی ہےتو میرے اس
بدمعاش بیٹے نے بالآخر افغانستان میں اپنے ناجائز قبضے کو چھوڑنے کا اعلان
کر دیا،دھرتی نے انگڑائی لی،اسے جھرجھری سی آئی ،امریکہ کی بدمعاشی پہ نہیں
بلکہ ایک مرد مومن کی کہی ہوئی بات پہ ،ایمان اور یقین والوں کی باتیں ہی
الگ ہوا کرتی ہیں۔وہ بھلا مانس جو اب اس دنیا میں نہیں ہے۔بش نے اس کی زمین
پہ قبضہ ہی نہیں کیا بلکہ اسے للکارا کہ ہم زمین تیرے اوپر تنگ کر دیں
گے،اس دھرتی سے اسی دھرتی کے بیٹے کو للکارا جا رہا تھا۔وہ بھلا مانس تھا
چپ چاپ سنتارہا،سوچتا رہا،کہتا بھی تو کسے کہتا،اس کے اپنے بھی اس کے ساتھ
جا ملے تھے۔۔۔کیا زمانہ تھا جب دیواریں ہی نہیں دل بھی سانجھے ہوا کرتے
تھے۔لوگوں نے دیواریں بھی الگ کر لیں اور دل بھی،پاکستان سے اسے بڑی امیدیں
تھیں مگر اس نے بھی۔۔ہر ایک کی اپنی سوچ ہے۔ہو گی اس کی بھی کوئی
مجبوری،کہا نا بڑا ہی بیبا بچہ تھا،مجال ہے کسی کے لئے اپنے دل میں بغض اور
کینہ پالے،کیونکہ وہ جانتا تھا دل اللہ کا گھر ہے اس گھر سے وہ چلا جاتا ہے
جہاں بغض اور کینہ رکھا جائے۔چپ چاپ دعائیں کرتا رہا،ادھر ادھر سے خبریں اس
کے کانوں تک پہنچتیں مگر وہ خالی نظروں سےآسمان کی جانب دیکھتا۔آسمان والے
سے ہی اس کی ڈیلنگ تھی۔جانتا تھا جو زمین پہ نہیں ہوتا ،آسمان پہ ہوتا ہے
اور ضرور ہوتا ہے۔اسی انتظار میں ظلم و بربریت کا کھیل دیکھتا رہامگر مجال
ہے جو نا شکری کا ایک لفظ بھی بولا ہو،بولا بھی تو کیا بولا فقط اتنا "امریکہ
کہتا ہے ہم تم پہ زمین تنگ کر دیں گے میں یہ کہتا ہوں اللہ کی زمین بہت
وسیع ہے۔دیکھیں گے جیت کس کی ہوتی ہے؟بے یقینوں کی اس دنیا میں بڑے ہی یقین
والا تھا ،کئی سال بیت گئے،ایک دن چپ چاپ میری گود میں آیا اور آنکھیں موند
لیں،میں نے اپنے دونوں بازو ں اس کے لیے وا کر دیےاور وہ میٹھی نیند سو
گیا۔کہا نا وہ مجھے بہت پیارا تھا۔کیونکہ وہ رب کا پیارا تھا۔آج افغانستان
سے امریکیوں کی واپسی بتا رہی ہے کہ اس بھلا مانس کایقین کتنا سچا تھا۔اللہ
کی زمین "اللہ والوں "کے لئے ہمیشہ ہر دور میں وسیع ہوا کرتی ہے۔بس ایک
یقین بھرا دل چاہیے۔ |