حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی،آپ گھر
تشریف لاتے ہیں تو ایک بوجھل طبعیت ،ذمہ داریاں کا بوجھ اور احساس ،ایک
مختلف کیفیت تھی،مگر حضرت خدیجہ موجود تھیں فرماتی ہیں آ پ کو کچھ نہیں ھو
گا، کیوں کہ آ پ غریبوں،یتیموں،اور مسکینوں کا خیال رکھتے ھیں ان کا سہارا
بنتے ھیں۔اس لے اللہ تعالیٰ آ پ کی مدد کرے گا۔گویا یہ رھتی دنیا اور آخرت
میں اس شخص کے لئے نوید ھے کہ وہ کبھی ناکام اور نامراد نہیں ھو گا جو دنیا
میں ان طبقات کا خیال رکھتا ھے،یہ ایک کلیہ بن گیا کہ غریبوں کا خیال رکھنے
والا سرخرو لازمی ہوتا ہے۔
عمران خان پہلے بھی اور حکومت میں آنے کے بعد بھی فلاحی مملکت،مدینہ کی
ریاست اور غریبوں کی اکثر بات کرتے ہیں اور شیلٹر ہوم بنا کر اس فلسفے کی
بنیاد ڈالی تو میری بلکہ زیادہ لوگوں کی توجہ اس طرف ضرور جاتی ہے کہ"
عمران خان کامیاب ضرور ھو گا" یہ ایک جذباتی بات ھے یا حقیقت کم ازکم تین
سال میں واضح ھو جائے گا۔نہ انتظار کرنے کا آپشن پاکستانی قوم کھو چکی ھے
کیونکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے کم وبیش 51 سال حکومت کی اور ملک آ ج بھی
اسی طرح قرضوں میں جکڑا ہوا اور عوام بنیادی حقوق سے محروم ہیں،کیا اسے
لوگوں کو پھر آ زمانے یا ان کو نسل درنسل ووٹ دینے کا سوچنا چاہیے؟ ھم تو
کم ازکم ھرگز نہیں سوچیں گے۔وزیر اعظم عمران خان نے نیا پاکستان ہاؤسنگ
سکیم کا افتتاح کے موقع پر پھر فلاحی ریاست بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔اور
کہا کہ نئے پاکستان کی بنیاد ڈالی دی گئی ہے۔اسد عمر کی دلیل تھی کہ بنیاد
چونکہ زمین کے اندر ہوتی ھے اس لئے نظر نہیں آ رہی۔مگر جب عمارت تعمیر ھو
گی سب کو نظر آ ہے گا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ حکومت کے خلاف ایک بڑا منفی محاذ
کھڑا ہے۔ایک ایک لمحے کی گرفت ہو رہی ہے۔مخالف سچ کو جھوٹ اور بے معنیٰ
چیزوں کو نئی نئی جدتیں تراش کر۔حقیقتوں کا جامہ پہنا رے ہیں مگر نوجوان
نسل سمیت 57, فیصد سے زائد لوگ عمران خان کی کوشش سے پر امید اور پانچ سال
دینے کے لیے تیار ہیں جبکہ باقی لوگ کم از کم دو سال تک عمران خان کی حمایت
پر راضی ہیں۔یہی مخالفین کے لئے قابل قبول نہیں۔وہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے
ہیں مگر خود اس کے مستقبل کو مخدوش بنا رہے ہیں۔شور وھنگامہ کر کے عمران
خان کو دور رکھنا چاھتے ھیں،یہ معلوم نہیں کہ حکومت اور اپوزیشن پارلیمنٹ
کا لازمی حصہ ھیں۔ کوئی بھی جزو معطل ہو گآ تو پارلیمان کی حیثیت ختم ہو کر
رہ جائے گی۔یوں بھی اکیلی اپوزیشن پارلیمنٹ میں کیا کرے گی۔عوام کا ایشو
روایات اور خرافات کو بدلنے تک ھے۔اسی لیے اپوزیشن کو کبھی صدارتی نظام اور
کبھی ون یونٹ کا خواب نظر آتا ھے حالانکہ وہ آ پ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔حکو
مت کو سپیس دیں گے تو آ پ کی بقا بھی رہے گی۔روٹی،کپڑا۔ مکان کا نعرہ بھٹو
صاحب نے دیا تھا لیکن اج48 سال گزرنے کے باوجود عوام ان حقوق سے محروم ہیں
پیپلز پارٹی نے سندھ سمیت ملک بھر میں تقریباً 22 سال حکومت کی مگر چند سو
گھر ہی بنے وہ بھی مال پانی کے بغیر نہیں بنے۔ن لیگ البتہ قدرے زیادہ بنانے
ھوں گے۔ جن پر امراء قابض ہیں۔اب اگر عمران خان 50 لاکھ گھر بنانے نکلا ہے
تو کرنے دیجئے۔ن لیگ نے اس منصوبے کو بھی شہباز شریف کی نقل قرار دیا۔ییاں
تک قرار نہیں آ یا تو کہا نہی بنیں گے۔شہباز کی نقل کا مطلب آ شیانہ یا
پیراگون ھے ا ور نواز شریف کی سو پی۔ایچ اے تک محدود رہی،اب انتظار کریں کہ
غریبوں کو چھت کب میسر آتی ہے۔انتظار اور فلاحی ریاست کے علاؤہ عوام کے پاس
کوئی آپشن نہیں ہے۔عمران خان کو نیا پاکستان ھاوسنگ سکیم سے چالیس صنعتیں
اور نو کریاں بھی پیداکرنی ھوں گی۔اس کے لئے ھمیں عمران خان سے سیکھنا ھوگا
کہ پریشر میں اور مشکل سے کیسے سیکھنا ھو گا۔4 سال 4 ماہ اسے دینے ھوں
گے۔کیونکہ اس نے اسٹیٹس کو کو لات ماری ہے اور وہ مضبوطی کے ساتھ واپس
عمران خان سے ٹکرا بیٹھا۔یہی اسٹیٹس کو اس کے راستے کی رکاوٹ ہے اور اس سے
بار بار وہ الجھتا بھی ہے۔عوام اور خصوصاً غریبوں کی خدمت کے علاؤہ عمران
خان کے پاس اور ھمارے پاس عمران خان کے علاؤہ کوئی آپشن ابھی تک نہیں
ہے۔مستقبل اللہ بہتر جانتا ہے۔50 لاکھ گھروں میں سے 1 لاکھ بھی بن گئے تو
صنعت چل پڑے گی اور غریبوں کو چھت مل جائے گی۔اللہ غریبوں،یتموں اور مساکین
کی خدمت کرنے والوں کو نقصان نہیں پہنچتا۔ |