بطور ایک سیاسی جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس شروع
سے تا دمِ تحریر اور ریاست جموں و کشمیر کی بھارتی چنگل سے آزادی اور پوری
ریاست کا مملکت خدادِادِ پاکستان کے ساتھ الحاق تک ، ریاست جموں وکشمیرمیں
بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح بانیِ پاکستان کی سیاسی جماعت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ ریاست کی ایک طویل تاریخ ہے، ماضی ہے، تہذیب و
تمدن ہے۔ اس کی جغرافیائی حدود میں تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ کشمیری قوم نے ظلم
و ستم بھی سہے اور خوشحالی بھی دیکھی۔ بے مثال انسانیت سوز مظالم کا اب بھی
سامنا ہے۔ ڈوگرہ عہد کے آخری بادشاہ مہاراجہ ہری سنگھ کے دور میں آل جموں و
کشمیر مسلم کانفرنس بطور ایک سیاسی جماعت ریاست میں معرضِ وجود میں آئی اسی
عہدسے متعلق ہونے کی وجہ سے تاریخ کے اسی دور میں جس انداز سے اور جدوجہد
سے یہ ریاستی جماعت اپنا کردار ادا کرتی رہی اور کر رہی ہے اس کی مثال بر
صغیر کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ریاست جموں و کشمیر میں ڈوگرہ عہد کا بانی
جموں کے رہنے والے کشور سنگھ کا بیٹا مہاراجہ گلاب سنگھ نے 16مارچ 1846ء کو
معاہدہ امرتسر میں 75لاکھ گرونانک شاہی کرنسی کے عوض ریاست جموں و کشمیر کو
انگریزوں سے خریدا اور اس کا ڈوگرہ بانی حکمران بن گیا جو 1856ء تک اقتدار
میں رہا۔ تپ دق میں مبتلا ہوا ۔ 1856ء میں اس کا بیٹا رنبیر سنگھ اس کا
جانشین بنا جو 27سال حکمران رہنے کے بعد اس کی وفات پر 1885ء کو اس کا مقرر
کردہ ولی عہد مہاراجہ پرتاب سنگھ نے کشمیر میں عنانِ اقتدار سنبھالی۔ مسٹر
ویکفیلڈ کے مطابق پرتاب سنگھ کے ساتھ ایک دھاگہ باندھا گیا جس کا دوسرا سرا
باہر گائے کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ اس طرح 25دسمبر 1925ء کو ظالم پرتاب سنگھ
سرگباش ہو گیا۔ پرتاب سنگھ کے بعد اس کا بھتیجا امر سنگھ کا بیٹا ہری سنگھ
1925ء کو بطور چوتھا اور آخری ڈوگرہ مہاراجہ کشمیر پر تخت نشین ہوا جو
23اکتوبر 1947ء تک ریاست جموں و کشمیر کا بادشاہ رہا۔ ڈوگرہ خاندان کے یہ
چاروں حکمران ایک سے ایک بڑھ کر ظالم تھے جنہوں نے مجموعی طور تقریباً
103سال تک راج کیا۔ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس بطور ایک سیاسی جماعت
مہاراجہ ہری سنگھ کے مظالم کا مقابلہ کرنے کے لئے بنیادی طور پر ریاستی
عوام کی ایک نحیف اور مظلوم آواز کے طور پر ابھری۔ ریاست جموں و کشمیر میں
جس کا تصور بھی نہیں جا سکتا تھا۔
ریاست جموں و کشمیر میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس ، مہاراجہ ہری سنگھ
کا کردار اور جنوبی ایشیاء میں دو قومی نظریے کی بنیاد پر تشکیلِ پاکستان
کو تاریخی طور پر علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تینوں حقائق (FACTORS) ایسے
ہیں جن کی کوکھ سے مؤلہ کشمیر پیدا ہوا۔ ریاضی کے نقطۂِ نظر سے کہا جائے تو
یہ مۂلۂِ کشمیر، ریاستی عوام کی جدوجہدِ آزادی، آل جموں و کشمیر مسلم
کانفرنس بطور ایک سیاسی عوامی پارٹی ریاست جموں و کشمیر کا ابھرنا اور ابھی
تک آزادی کے حصول کے لئے ریاستی عوام کے لئے مسلسل قربانیاں ان سب کا حاصل
ضرب ہے۔ ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ 1925ء سے جس کا آغاز ہوا جنگ عظیم
اول شروع ہو کر کروڑوں انسانوں کو صفحۂِ ہستی سے مٹا کر ختم ہو چکی تھی۔
دوسری جنگِ عظیم کی تیاریوں میں تمام بڑی فاشسٹ طاقتیں مصروف تھیں۔ برصغیر
میں ہندو پارٹی کانگرس اور مسلم پارٹی آل انڈیا مسلم لیگ دن بدن مسلسل آپس
میں اپنے اپنے مفادات کے لئے کتا لڑائی (Dog Fight) کے آخری معرکہ کی جانب
تیزی سے سفر کر رہی تھیں۔
ریاست میں مہاراجہ ہری سنگھ کے دور تک غریبوں پر ٹیکس لگا کر خزانہ بھرنے
کا اقدام جو گلاب سنگھ نے شروع کیا تھا عروج تک پہنچ چکا تھا ۔ ریاست میں
مسلمانوں کا کوئی نجات دہندہ نہ تھا۔ ریاست میں پریس کا داخلہ ممنوع تھا۔
برٹش انڈیا میں مولانا عبدالکلام آزاد، عبدالمجید سالک، مولانا ظفر علی خان
اور خواجہ حسن نظامی چند ایک صحافی تھے جو ریاستی مسلمانوں پر ڈھائے جانے
مظالم کو بے نقاب کرتے ایسے حالات میں سرینگر میں شیخ عبداللہ جو ابھی ایک
سائنس ٹیچر تھے آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا ایک ابتدائی (DNA) تیار
کیا اور ریڈنگ روم پارٹی قائم کی اور جموں میں چوہدری غلام عباس نے اپنے
ساتھیوں سے مل کر ینگ مین مسلم ایسو سی ایشن قائم کی یہ آل جموں و کشمیر
مسلم کانفرنس کا ابتدائی خاکہ تھا۔ مہاراجہ ہری سنگھ کے دور ریاست جموں و
کشمیر کے داخلی انتشار اور ڈوگرہ حکمران کے خلاف جن وجوہات پر عوامی ردِ
عمل شدت اختیار کر گیا ان میں معاشی لحاظ سے ریاستی عوام پر ظالمانہ ٹیکسز
کا نفاذ تھا۔ مذہب میں ڈٖوگرہ کی مداخلت تھی۔
کشمیر میں انسانوں کے بنیادی حقوق کا تصور بھی نہ تھا۔ برٹش انڈیا میں
علامہ اقبال اور قائد اعظم کے دو قومی نظریہ کی ترقی کی۔ تحریکِ پاکستان
میں جتنی تازہ قوت آتی گئی قدرتی طور پر ریاستی عوام میں اپنے حقوق کے حصول
کے لئے ہمت پیدا ہوتی گئی۔ جموں کے ضلع اودھم پور میں ایک ہندو نے اسلام
قبول کیا تو اس کو جائیداد سے محروم کر دیا گیا۔ جموں کے دیگوری گاؤں میں
جہاں مسلمانوں کو ہندو پولیس آفیسر نے نمازِ عید ادا کرنے سے روک دیا۔
29اپریل 1929ء کو جموں میں میونسپل کمیٹی کے باغ میں نمازِ عید کے خطبے میں
مفتی محمد اسحاق نے فرعون اور حضرت موسیٰ کا قصہ سنایا توڈوگرہ پولیس کے
کھیم چند انسپکٹر نے زبردستی نماز کو بند کروادیا دوسری طرف ہندو دھرم کی
جے کے نعرے ہندوؤں نے لگانا شروع کر دئیے جون 1931ء کو جموں جیل میں پولیس
سپاہی فضلداد اور انسپکٹر لبھو رام کے درمیان کمرہ میں جھگڑا ہوا جس سے
لبھو رام نے پنجسورہ زمین پر دے مارا۔ 20جون 1931ء کو سرینگر کی ایک لیٹرین
سے قرآن مجید کے اوراق ملے جن کو وہاں استعمال کیا گیا تھا اس پر ریاست
جموں وکشمیر کی ہر مسجد سے مہاراجہ کے خلاف تقاریر شروع ہوئیں ۔ مہاراجہ کے
خلاف عوامی نفرت کو دیکھتے ہوئے اس کی انتظامیہ نے مسلمانوں کو ایک وفد کی
شکل میں مہاراجہ سے ملاقات کرکے اپنے مطالبات پیش کرنے کو کہا۔ ریاست جموں
و کشمیر میں سیاسی بیداری کی یہ پہلی مثال ہے۔ جموں کی ینگ مین مسلم ایسوسی
ایشن اور سرینگر کی ریڈنگ روم پارٹی نے ڈوگرہ بادشاہ ہری سنگھ سے ملاقات کے
لئے اپنے نمائندے نامزد کئے ۔ جموں میں مسلم ایسو سی ایشن نے اپنے ایک
اجلاس میں مہاراجہ سے ملاقات کے لئے وفد کے جن اراکین کو نامزد کیا ان میں
ریئس الاحرار چوہدری غلام عباس، مستری یعقوب علی، سردار گوہر الرحمٰن اور
شیخ عبدالحمید ایڈووکیٹ شامل تھے جب کہ صوبہ کشمیر کے ریڈنگ روم پارٹی کی
جانب سے نامزدگی ایک جلسہ عام میں چناؤ کی شکل میں کرنے کا انتظام کیا گیا
چنانچہ سرینگر خانقائے معلیٰ میں 50ہزار سے زائد لوگوں نے شرکت کی جنہوں نے
سرینگر سے مہاراجہ سے ملاقات کے لئے 7اراکین کو نامزد کیا جن میں خواجہ سعد
الدین شال، میر واعظ محمد یوسف شاہ، میر واعظ احمداللہ ہمدانی، آغا سید حسن
جلالی، خواجہ غلام محمد عشائی، منشی شہاب الدین اور شیخ محمد عبداللہ شامل
تھے۔ یہ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا ریاست جموں و کشمیر میں ایک سیاسی
جماعت کے طور پر معرضِ وجود میں آنے کا ابتدائیہ تھا۔ مہاراجہ سے وفد کی
شکل میں ملاقات کے لئے نامزد یہ 11افراد ہی آگے چل کر ریاست کے مستقبل اور
عوامی حقوق کے حصول کے لئے جب تک سیاسی پارٹی کی شکل اختیار کر گئے تو اس
ریاستی سیاسی جماعت کا نام آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس بن گیا جس کا
87واں سالانہ کنونشن ضلع باغ میں 30اپریل 2019ء کو ہونے جا رہا ہے ریاست
میں مسلمانوں کو پیش آنے والے واقعات کا انتہائی مختصر تذکرہ کیا گیا کہ آج
کی نسل کو یہ معلوم ہو سکے کہ آ ل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس ریاست جموں و
کشمیر کی اپنی داخلی سیاسی جماعت ہے اس کا جنم ہی ریاستی عوام کی آزادی اور
حقوق انسانی کے حصول، مذہبی، جغرافیائی آزادی کی ہی خاطر جدوجہد کرنا ہے
اور اس کو حاصل کرنا ہے۔ کیا یہ 11افراد مسٹر وٹو، برجیس طاہر یا علی امین
گنڈا پور کے باپ دادا نے ڈوگرہ سے بات کرنے کے لئے نامزد کئے تھے؟ اگر یہ
ریاستی تھے تو ریاستی عوام کو خود لڑنے دو۔ ریاست میں انتشار ڈالنے کا
اختیار آپ کو کس نے دیا ہے؟ مہاراجہ ہری سنگھ یا ڈوگرہ راجہ کو ضرب کاری
تاریخ کے ایک کردار عبدالقدیر خان نے لگائی جب ریڈنگ روم پارٹی کے ممبرانِ
وفد جن کو ڈوگرہ سے اپنے مطالبات پیش کرنے کے لئے نامزد کیا گیا ابھی وہ
لوگ جلسہ گاہ میں ہی موجود تھے تو عبدالقدیر خان نے جو بیرونِ کشمیر کا تھا
گرمیوں کی تعطیلات اپنے کسی صاحب کے ساتھ سرینگر میں گزارنے آیا تھا اسی
جلسہ کو خطاب کیا جوشیلے انداز میں عبدالقدیر نے مجمع کو کہا کہ قرآن پاک
کی توہین ہوئی ہے اور آپ مذاکرات کرنے چلے ہیں۔ آپ اینٹ کا جواب پتھر سے
دیں اور مہاراجہ کے محلات کی طرف اشارہ کرکے مجمع کو کہا کہ ان کی اینٹ سے
اینٹ بجادو۔ ڈوگرہ نے اس پر بغاوت کا مقدمہ قائم کرکے گرفتار کر لیا۔ سیشن
جج پنڈت کشن لال کچلو کی عدالت میں کیس زیرِ سماعت تھا کہ جیل اور عدالت کے
درمیان فاصلہ ہونے کی وجہ سے عبدالقدیر کے مقدمہ کو جیل ہی میں سماعت کرنے
کا فیصلہ کیا گیا۔ 11جولائی 1931ء کو مقدمہ جیل میں چلانے کا فیصلہ ہوا اور
13جولائی 1931ء کو پیشی تھی۔ مسلمان جیل کا دروازہ توڑ کر اندر جیل میں
مقدمہ کی کارروائی خود دیکھنا چاہتے تھے جن کو سختی سے باہر روک دیا گیا۔
عبدالقدیر اب قوم کا ہیرو تھا۔ عبدالقدیر کے وکیل مولوی عبداللہ کو باہر
آنے کے انتظار میں جیل کے باہر جمع ہو گئے۔ گورنر کشمیر بھی وہاں آگیا اور
ہجوم نے دو مطالبات گورنر کو پیش کئے (۱) عبدالقدیر کا مقدمہ جیل سے باہر
چلایا جائے (۲) ابھی 5افراد جو گرفتار ہوئے انہیں رہا کیا جائے اسی دوران
دن کا ایک بج گیا وہیں نماز کے لئے صف بندی ہونے لگی اور اذان کی صدا بلند
ہوئی تو گورنر نے اذان دینے والوں پر گولی چلا دینے کا حکم دے دیا جہاں سے
اذان پہلے شہید نے ختم کی تھی وہاں سے دوسرا شہید شروع کرتا رہا اور
17شہداء موقع پر ہی شہید ہو کر ظہر کی اذان مکمل کر گئے اور 5بعد میں زخموں
کی تاب نہ لا کر جامع مسجد میں شہید ہوئے۔ کل 22شہداء تھے۔ ڈوگرہ انتظامیہ
نے مارشل لاء نافذ کر دیا کیونکہ ردِ عمل بہت شدید تھا۔ رئیس الاحرار
چوہدری غلام عباس کا کہنا ہے اگر ظالم ڈوگرہ 13جولائی 1931ء کو 22کشمیری
مسلمانوں کو شہید نہ کرتا تو ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ بالکل مختلف
ہوتی۔ جموں میں 14جولائی کے دن سرینگر میں 22مسلمانوں کے قتل کی خبر ایک
سرکاری مسلمان سرکاری ڈرائیور نے مستری یعقوب علی خان کے بیٹے شیخ عبدالحئی
کو دی چنانچہ اللہ رکھا ساغر اور شیخ عبدالحئی لاہور روانہ ہو گئے اور
عبدالمجید سالک کو ڈوگرہ کے اس ظالمانہ اقدام سے آگاہ کیا وہ ان دونوں کو
علامہ اقبال کے پاس لے گئے ۔ علامہ ان کی داستان سن یہ بھانپ گئے کہ ریاست
جموں و کشمیر میں اب ڈوگرہ حالات کو سنبھال نہیں سکے گا اس کو انگریز فوج
کی مدد حاصل کرنا پڑے گی جب انگریز مداخلت کریں گے تب ان کے ذریعے ڈوگرہ پر
دباؤ ڈالا جائے گا کہ وہ کشمیریوں پر ظلم بند کرے ریاست جموں و کشمیر
میں22مسلمانوں کی شہادت کے بعد ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ دوسری جانب
ڈوگرہ انتظامیہ کی جانب سے ریاستی مسلمانوں پر مظالم کا بے پناہ اضافہ ہوا
۔ پنجاب میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی قائم ہوئی جس کے انتظام سے وکلاء، ڈاکٹرز
اور ریلیف دینے والے اداروں کو متحرک کر دیا گیا تاکہ مظلوم کشمیریوں کی
مدد کی جا سکے۔ کشمیر کمیٹی کا پہلا چیئرمین ایک مرزائی بن گیا جب علامہ
اقبال کو خبر ہوئی تو اس کو برخواست کرکے خود کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بن
گئے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام مہاراجہ ہری سنگھ حکمران کشمیر کو ایک
جوتے کی ٹھوکر قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا اسی آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے
ڈوگرہ کے مظالم سے وائسرائے ہند سے ملاقات کرکے آگاہ کیا اسی کمیٹی کی وجہ
سے ہری سنگھ نے مولانا عبدالکلام آزاد اور سرتیج بہادر سترو کو کشمیر بلایا
کہ وہ ریاستی مسلمانوں سے مذاکرات کرائیں۔ مذاکرات میں ریاستی مسلمانوں کا
ایک ہی مطالبہ تھا کہ وزیر اعظم ہری کشن کو ل کو برطرف کیا جائے جو نہ مانا
گیا اور مذاکرات ناکام ہو گئے۔ وزیر اعظم ہری کشن کول نے پنجاب اسے اپنا
ایک دوست مہر شاہ بلایا جس نے مذاکرات کرواکر ہری کشن کول سے چار نکاتی
معاہدہ کروایا۔ ڈوگرہ کی جانب سے یہ نکات تھے جبکہ مسلمان لیڈروں نے تین
نکات پر معاہدے پر اتفاق کیا۔ 26اگست 1931ء معاہدے پر دستخط ہوئے۔ ہری کشن
نے معاہدے پر عمل نہ کیا ۔ پھر سے مسلمانوں نے احتجاج شروع کر دیا۔ ہری
سنگھ نے ایک بار پھر ریاستی قیادت سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ سندر
لینڈ ، نور الدین اور اسلام شاہ کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کی ذمہ داری
لگائی گئی اس پر میر واعظ محمد یوسف شاہ کی قیادت میں وفد ملا۔ ہری سنگھ نے
اعلان کیا کہ آپ کے جائز مطالبات پورے ہوں گے اور کسی بھی بغاوت کو کچل دیا
جائے گا۔ 19اکتوبر 1931ء کو کشمیری راہنماؤں پر مشتمل کمیٹی نے خواجہ سعد
الدین شال کی سربراہی میں ہری سنگھ کو ایک میمورنڈم میں اپنے مطالبات پیش
کئے یہی 10راہنما آئندہ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے لیڈرز کے طور پر
نمایاں ہوئے جنہوں نے مہاراجہ کو مطالبات کی ایک فہرست پیش کی ان مطالبات
کو آج کشمیریوں کی زبان میں حق خود ارادیت کا مطالبہ کہا جائے تو یہ مناسب
لگتا ہے کشمیری قیادت تادمِ تحریر ہندوستانی مقبوضہ کشمیر اور آزاد جموں و
کشمیر ، گلگت و بلتستان اور یو این او تک حقِ خود ارادیت کا مطالبہ کر رہی
ہے ہری سنگھ نے ایک کمیشن مقرر کرنے کا عندیہ دیا تاکہ تمام صورت حال کو
دیکھا جا سکے مہاراجہ نے مسلمانوں کے مطالبات پر پہلے قدم کے طور پر جو عمل
کیا وہ ملکۂِ ہند نور جہاں کی تعمیر کردہ پتھر مسجد جو اس وقت 113سے مقفل
تھی اس کو کھولا یہی پتھر مسجد ہے جو آج بھی موجود ہے جس کے اندر آل جموں و
کشمیر مسلم کانفرنس کی بنیاد ڈالی گئی 22کشمیری مسلمانوں کی شہادت ہی کا
نتیجہ تھا کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے مسٹرگلانسی کی سربراہی میں ایک کمیشن
مقرر کیا جس کو تاریخِ حریت کشمیر میں گلانسی کمیشن کہا جاتا ہے۔ یہ گلانسی
ڈوگرہ مہاراجہ کا وزیر خزانہ بھی رہ چکا تھا اس کمیشن میں دو مسلمان اور دو
ہندو مقرر کئے چوہدری غلام عباس جموں سے اور غلام محمد عشائی سرینگر سے
جبکہ پریم ناتھ بزاز سرینگر اور لوک ناتھ شرما جموں سے تھا۔ مسلمان ممبران
کے اس مطالبے پر کہ اگر کوئی غیر مسلم اسلام قبول کرلے تو اس کو اس کی
جائیداد سے محروم نہ کیا جائے نہ مانے جانے پر کمیشن کا بائیکاٹ کر دیا- |