تحریر: راحیلہ چوہدری
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ سب سے پہلے تو اﷲ کا شکر ادا کیجیے کہ اس نے
ایک مرتبہ پھر زندگی میں رمضان کی فیوض و برکات سمیٹنے کا موقع دیا۔ ذرا
ایک نظر اپنے ارد گرد دوڑائیں تو کتنے لوگ جو پچھلے سال آپ کے ساتھ رمضان
المبارک میں تھے اب منوں مٹی تلے سو چکے ہیں۔ اﷲ نے شکر گزاری کے لیے ہمیں
ایک اور رمضان عطا فرمایا۔ یہ اس کا بہت بڑا احسان ہے۔
اس خاص مہینے میں انسان اﷲ کی جس قدر عبادت کرے گا اور نیکیوں میں سبقت لے
جانے کی کوشش کرے گا، وہ نیکیاں اس کے لیے تربیتِ نفس کا ذریعہ بنیں گی۔ اس
مہینے کو صبر کا مہینہ کہا گیا ہے کیوں کے اس میں جائز، حلال اور طیب چیزوں
سے بھی انسان صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک اجتناب برتتا ہے۔ یہ روکنا دراصل
صبر اور تقویٰ کی تربیت ہے۔سوال یہ ہے تیس دن کی مشقت اور مشق کے بعد بھی
معاشرتی برائیوں میں کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہوتی۔ اگرآپ محسوس کریں ہماری
ذاتی برائیوں میں بھی کوئی تبدیلی کوئی کمی نہیں آتی۔ کیا پورا مہینہ بھوکے
پیاسے رہنے کی مشق کروانے کا مقصد صرف اتنا ہی ہے کہ اپنی بھوک پیاس محسوس
کر کے ان لوگوں کی طرف توجہ کی جائے جن کو دووقت کا کھانا بھی ٹھیک سے میسر
نہیں۔
رمضان المبارک میں دو طرح کے رویے نظر آتے ہیں۔ ایک گروہ تو ان لوگوں کا ہے
جواپنا ایک ایک لمحہ عبادت میں گزارتے ہیں اور وقت کو ضائع نہیں کرتے۔ اس
گروہ میں زیادہ تعداد بزرگ افراد کی ہوتی ہے اور دوسرا گروہ جن میں زیا دہ
تر نوجوان شامل ہیں ان میں عام رویہ یہ پایا جاتا ہے کہ روزہ رکھ کے وقت
نہیں گزر رہا تو فلم دیکھ لی۔ فلم دیکھ کر وقت نہیں گزرا تو فون پہ دو تین
گھنٹے دوستوں سے باتیں کر لیں۔ میسیج فارورڈ کر لیے۔ سحری اور افطاری کو
ہوٹلوں میں جا کے لازمی انجوائے کرنا اور پھر سیلفیز لے کے سوشل میڈیا پہ
اپلوڈ کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ افسوس کے ساتھ یہ ہمارے معاشرے کا عام
رویہ بن گیا ہے خاص طور پہ عصر حاضر کے نوجوانوں کا کہ زندگی ایک بار ملی
ہے دل بھر کے انجوائے کرنا چاہیے۔ یقینا زندگی ایک بار ملی ہے۔ اگر اس میں
رب ہی راضی نہ ہو تو اس سے بڑی بد نصیبی انسان کی کیا ہو گی؟ یقینا انسان
کو زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہیے لیکن صرف لطف ہی کو زندگی کا مقصد نہیں
بنا لینا چاہیے۔
معاشرے کے ان رویوں کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم نے روزے کے ظاہر کو تو سمجھ کے
اوڑھ لیا۔ لیکن ہم روزے کی روح کو نہیں سمجھ سکے۔ زندگی کے اتنے رمضان
گزارنے کے بعد بھی زندگی کے سارے معاملات میں میانہ روی کا راستہ نہیں
اپنایا بلکہ ہم نفس کی تسکین اور لذت کا ہی انتظام کرتے رہے۔ سوچنے اور فکر
کرنے کی بات ہے کہ کیوں امت محمدیہ میں اچھے اور باعمل لوگ پیدا نہیں ہورہے
ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے جیسے اچھے لوگوں کا کال پڑ گیا ہو۔گزرتے وقت کے
ساتھ کیوں ہمیشہ برائی ہی اچھائی پر غالب رہی ہے ۔جس طرف بھی نظر دوڑائیں
دیکھ کے نگاہیں شرم سے جھک جاتی ہیں ۔ہمارے اردگرد بازاروں اور سینماوں کی
جگہیں وسیع ہوتی جا رہی ہیں اور مسجدوں کی جگہیں چھوٹی۔یہ سب تبدیلیاں اس
بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں۔کیا یہی وہ پاکستان ہے
جو اسلام کے نام پہ قائم ہوا۔؟
روزے کا اصل مقصد باطن کی اصلا ح کرنایعنی نفس کی تربیت ہے اور نفس کی
تربیت اﷲ کی مدد کے بغیر ہر گز ممکن نہیں۔ رمضان المبارک میں انسان اجتماعی
نیکیاں تو کر لیتا ہے۔ لیکن اپنے باطن کی اصلاح نہیں کرتا۔ ہم میں سے کتنے
لوگ ہیں جو اپنی ذات کی برائیوں اور خامیوں کو درست کرنے کے لیے اﷲ سے
مخاطب ہوتے ہیں اس کی مدد تڑپ کے ساتھ طلب کرتے ہیں کہ وہ نفس کی اصلاح میں
میری مدد کرے۔
ہر انسان کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ اس کی خامیاں کیا ہیں۔ اس رمضان
المبارک میں اﷲ سے بار بار دعا مانگیں کہ وہ دل کی گندگی کو صاف کرنے میں آ
پ کی مدد کرے۔ دل کو بغض، کینہ، حسد، نفرت اور شیطانی وسوسوں سے پاک کرے۔
یاد رکھیے انسان کا سب سے بڑا دشمن اس کا نفس ہے۔ حسد، کینہ، بغض، غصہ یہ
چھوٹے چھوٹے نام حقیقت میں بہت بڑے بڑے سانپ اور بچھو ہیں۔ جن کا زہر بہت
تیزی سے انسان کے اندر پھیلتا ہے۔ ایک لمحے کے لیے ذرا تصور کیجیے کہ آپ کے
دل ودماغ میں بڑے بڑے سانپ اور بچھو بیٹھے ہیں تو آپ کو کیسا محسوس ہو گا؟
عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ اس تصور سے ہی سبق حاصل کیا جائے اور دوزخ کے
سانپوں اور بچھووں سے بچنے کی اﷲ سے توفیق مانگی جائے۔ رمضان کے آخری عشرے
میں زیادہ سے زیادہ اﷲ کا قرب حاصل کرنے کی کوشیش کیجیے۔ نبیﷺ رمضان کے
آخری عشرے میں خوب عبادت کرتے اور اپنے اہل و عیال کو بھی تلقین کرتے۔ نبیﷺ
کا طریقہ اپنائیں اپنے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں اور دوستوں کو بھی عبادت
کرنے کی تلقین کرتے رہیں۔ یاد رہے اصلاح کے معاملے میں سب کو ساتھ رکھیں۔
اپنے آپ کو درست سمت میں رکھنا ایک بہت مشکل کام ہے اور اس کام کو آسان اسی
طرح بنایا جا سکتا ہے۔ جب ہم سے جُڑے لوگ بھی صحیح سمت کی طرف رہنمائی کرتے
رہیں۔ جنت ایک ریوارڈ ہے اور ریوارڈ کبھی بھی محنت کے بغیر نہیں ملتا۔ محنت
کبھی بھی شوق اور لگن کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ شوق اور لگن اسی چیز کی طرف
آپ کو کھینچتا ہے جس کو حاصل کرنے کی انسان تمنا کرتا ہے۔ آج ہم سب کو یہ
سوچنے کی اشد ضرورت ہے کہ ہماری تمنائیں کس دنیا کے ساتھ جُڑی ہوئی ہیں۔ اس
دنیا کے ساتھ جو فانی ہے یا اس دنیا کے ساتھ جو دائمی ہے۔ رمضان المبارک کے
ان قیمتی لمحات کو ضائع مت ہونے دیں۔ ان سے بھر پور فائدہ اٹھائیں۔ نیکیوں
کی کثرت کریں اور ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن کی اصلاح بھی کریں۔
نبیﷺ نے رمضان کو انسانوں کی مغفرت کا مہینہ قرار دیا اس انسان کو بد نصیب
کہا جو رمضان تو پائے اور اپنی مغفرت نہ کروائے۔ اﷲ کے جو بندے رمضان کی
قدر کرتے ہوئے اسے نیک اعمال کرتے ہوئے گزارتے ہیں وہ رحمت الہیٰ سے اپنے
دامن کو بھر لیتے ہیں اور ان کی زندگیاں انقلاب کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔اس
رمضان المبارک میں اپنا اولین اصول یہ بنائیے کہ نفس کی تربیت کے لیے اﷲ سے
بار بار مدد مانگیے اور رمضان کے آخر میں جائزہ لیجیے کہ میں اپنے باطن کو
صاف کرنے میں کتنا کامیاب ہوا۔ اس رمضان المبارک میں اﷲ سے یہ دعا بھی ضرور
مانگیے کہ وہ آپ کی زندگی کے لطف و مقصد کو اپنی رضا کے ساتھ جوڑ دے اور
ایک بامقصد زندگی گزارنے کے راستے پہ ڈال دے۔ اﷲ سے دعا ہے کہ وہ مجھے آپ
کو رمضان المبارک کی برکات سے بھر پور فائدہ اُٹھانے کی توفیق دے۔ آمین |