دنیا ، ملک، معاشرے اور گھر کا امن اخلاق سے وابستہ ہے۔
مہذب ممالک میں انفرادی اخلاق کی کمی کو حکومت قوت اور جبری قوانین سے پور
اکرتی ہے۔ اگر افراد اپنے اخلاق کو از خود پوری طرح استعمال کریں تو حکومت
کو جبری قوانین کے نفاذ کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔جو افراد حکومت کے جبری
قوانین کی مخالفت کرتے ہیں مجرم کہلاتے ہیں۔مثالی معاشرے میں فرد پر جرم کے
خلاف اس قدر دباو ہوتا ہیکہ وہ جرم کے ارتکاب کے بعد بے چین ہو جاتا ہے۔
ریاست مدینہ میں ماعز اسلمی نامی ایک فرد سے غیر اخلاقی جرم سرزد ہو گیا۔
اس جرم کا عینی شائد تھا نہ کسی نے اس جرم کا شکوہ کیا تھا۔مگر ان کے اعلیٰ
اخلاق نے مجبور کیا کہ وہ عدالت میں حاضر ہو کر اپنے جرم کا اعتراف کریں۔
ان کے اس عمل خود احتسابی کی رسول اللہ ﷺ نے تعریف فرمائی اور بتایا کہ
اعتراف کا یہ عمل اس قدر پسندیدہ ہے کہ اگر اعتراف کے اس عمل کے اجر کو اہل
مدینہ پر تقسیم کیا جائے تو سب کی نجات کے لیے کافی ہو جائے۔اخلاقی لحاظ سے
رسول اللہ ﷺ کے دور سے لے کر عمر بن خطاب کی شہادت تک دور مثالی تھا۔
معاشرے کا مجموعی اخلاق اس قدر اعلیٰ تھا کہ انسان اپنی زبان سے نکالے ہوئے
کلمے کی پاسداری کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ لیا کرتا تھا۔ محمد دباب
الاتلیدی ( متوفی ۰۰۱۱ ہجری) نے اپنی کتاب میں شرف الدین بن ریان سے ایک
واقعہ نقل کیا ہے کہ عمر بن خطاب کی عدالت میں دو نوجوانوں نے اپنے باپ کے
قتل کا مقدمہ پیش کیا۔ قاتل نے اعتراف جرم کیا مگر التجاء کی
ْ اے امیر المومنین ، اس کے نام سے جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم ہیں،
مجھے صحرا میں اپنے بیوی اور بچوں کے پاس جانے کی اجازت دی جائے تاکہ میں
انھیں بتا آوں کہ میں قتل کر دیا جاوں گا ، ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی
آسرا نہیں ہے ، میں پھر واپس آ جاوں گا ْ
واسطہ زمین و آسمان کو قائم رکھنے والے کا تھا مگر عدالت کو ضمانت درکار
تھی کہ یہ شخص صحرا سے واپس بھی آئے گا ۔ عمر نے کہا ْ اے لوگو ، کوئی ہے
جو اس کی ضمانت دےْ ابو ذر غفاری نے اس کی ضمانت دی ۔ عمر نے ابوذر کو
مخاطب کر کے کہا ْ ابو ذر دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے
تمھاری جدائی کا صدمہ سہنا پڑے گا ْ جواب آیا ْ اے امیر المومنین اللہ مالک
ہے ْ تین دن کے بعد اہل مدینہ نے مسجد سے بلاوے کی آواز سنی ، سب کو معلوم
تھاآج قتل کے مقدمے کا فیصلہ ہونا ہے ، لوگ یہ بھی جانتے تھے بدو صحرا سے
واپس نہ آیا تو اس کے ضامن کی گردن اڑا دی جائے گی ۔ مسجد میں ابو ذر بھی
حاضر ہیں ، مقتول کے وارثین بھی موجود ہیں۔ عمر کی آواز سے اہل مدینہ کے دل
کی دھڑکنیں گویا رک ہی گئیں ، سوال ابو ذر سے تھا ْ کدھر ہے وہ آدمی ْ جس
کا نام معلوم ہے نہ گھر اور ٹھکانہ ْ مجھے کچھ معلوم نہیں امیر المومنینْ ۔
اتنے میں لوگوں نے دیکھا وہ بدو ہانپتا ہوا آ پہنچا۔ اب عمر کا سوال بد وسے
تھا ْ اے شخص ، اگر تو لوٹ کے نہ بھی آتا تو ہم تیرا کیا بگاڑ لیتے ، یہاں
کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جو تیرا گھر اور ٹھکانہ جانتا ہو ْ بدو نے جواب دیا
ْ امیر المومنین، اللہ کی قسم ، بات آپ کی نہیں ہے بلکہ اس ذات کی ہے جو
ظاہر و باطن کو جانتا ہے ، دیکھ لی جئے میں آ گیا ہوں، اپنے بچوں کو چوزوں
کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کرجہاں نہ درخت کا سایہ ہے نہ پانی کا نام و
نشان، میں قتل کیے جانے کے لیے حاضر ہوں۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہ کوئی یہ نہ
کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفا ہی اٹھ گیا ہے ْ
پاکستان کے سپریم کورٹ کے چہف جسٹس کی عدالت میں ایک مقدمے کے دوران ایک
گواہ کو خود چیف جسٹس نے جھوٹا بتایا اور اس خواہش کا اطہار بھی کیا کہ اس
جرم کی سزا عمر قید ہونی چاہیے ۔ مگر سزا دے نہیں پائے ۔ اسی عدالت میں ان
سے پہلے چیف جسٹس کی عدالت میں ان کی موجودگی میں ایک شہری نے ان پر رشوت
لینے کا الزام لگایا تھا۔ چند لمحوں تک عدالت میں سناٹا رہا مگر پھر
معمولات معمول پر آ گئے۔
بحث یہ نہیں ہے کہ پہلے حاکم ٹھیک ہو یا محکوم ۔ یہ بحث ایسے ہی ہے جیسے یہ
بحث کہ پہلے مرغی آئی تھی یا انڈہ۔ رسول اللہ ﷺ کی اتباع کے داعی کو اپنے
ضمیر سے یہ بحث کرنا ہے کہ اس نے اپنے معاملات اللہ کے سپرد کیے ہیں یا
نہیں
|