ہر انسان کی زندگی میں بہت سے مبارک سفر بھی ہوتے ہیں
ان اسفار کو خود بھی انسان یاد رکھتا ہے اورمحبت کرنے والے بھی یاد رکھتے
ہیں اور ان اسفار کا ذکر بار بار کیا جاتا ہے اسی سلسلہ میں ہمارا ایک سفر
دو دن کیلئے پنڈی اسلام آباد کا ہوا اس سفر میں حضرت مولانا رشید الحسن
صاحب اور حضرت مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی صاحب ہم سفر ہوئے ۔16مارچ
2019ء صبح 11بجے شیر افضل خان سواتی کی اہلیہ محترمہ کا نماز جنازہ پڑھایا
اور پھر اسلام آباد کیلئے روانہ ہوئے ۔ اﷲ پاک کا فضل و کرم ہواکہ بروقت
جامعہ قاسمیہ اسلام آباد میں تقریب تکمیل بخاری شریف میں حاضری ہوگئی ۔ شیخ
الحدیث حضرت مولانا حبیب اﷲ نقشبندی صاحب نے آخری حدیث کا درس دیا۔ان کے
درس سے پہلے راقم الحروف کا بیان ہوا ، یہاں خصوصی بات یہ بھی تھی کہ حضرات
نقشبند کثیر تعداد میں موجود تھے ۔
شیخ المشائخ محبوب العلماء والصلحاء حضرت مولانا پیر ذوالفقاراحمد نقشبندی
صاحب مدظلہٗ کا فیض نمایاں نظر آرہا تھا ۔
ایک تاریخی بات کا بھی ذکر کر دیا جاتا ہے کہ حضرت مولانا پیر ذوالفقار
احمد صاحب نقشبندی کا جب مانسہرہ کا پہلا دورہ ہوا حضرت مولانا محمد قاسم
منصور صاحب کے تعارف کی وجہ سے حضرت مدظلہٗ ہمارے مسافر خانہ پر تشریف لائے
اور قیام فرمایا اور رات کو مرکزی جامع مسجد مانسہر ہ میں حضرت کا بیان ہوا
اس سفر میں شیخ الحدیث مولانا حبیب اﷲ صاحب مدظلہٗ بھی تھے ، حضرت نے
فرمایا ہاں مجھے یاد ہے وہاں ہم گئے تھے ، جب تعلیم کے سلسلے کا ذکر ہوا تو
حضرت نے فرمایا کہ دارالعلوم حقانیہ سے فراغت ہے میں نے حضرت شیخ سے کہا کہ
آپ تو بہت متاخرین میں سے ہیں اور ماشاء اﷲ متقدمین میں شامل ہو گئے ہیں ۔
عزیزم مولانا حافظ القاری محمد طارق نعمان صاحب کا جب تعارف ہوا تو حضرت
الشیخ نے فرمایا کہ آپ کے مضامین ہم پڑھتے ہیں یاد رہے کہ عزیزم مولانا
محمد طارق نعمان گڑنگی کے قلم کے میدان میں لاتعداد شاگردان ِ رشید ہیں۔ جن
کی تربیت اور مضامین کو درست کرنا اور ان کے مضامین کو اخبارات اور رسائل
میں جگہ دلوانا یہ ماشاء اﷲ ان کا بڑا پن ہے جبکہ موجودہ دور تو حسد کی آگ
میں جلنے کا ہے ۔کون کسی کو آگے دیکھنا چاہتا ہے۔ میں نے وہاں گزارشات عرض
کرتے ہوئے کہا کہ مہتمم جامعہ قاسمیہ کا اخلاص و جدوجہد اور اکابر سے تعلق
کی برکات نمایاں ہیں ، ہم جب وہاں حاضر ہوئے تو خود استقبال کیلئے حضرت
موجود تھے ، ہم نے وضو کیا تو کیا دیکھا حضرت خود مصلیٰ بچھا رہے ہیں ۔
جامعہ قاسمیہ میں تقریب کے اختتام کے بعد جب چائے کا دور چلا تو حضرت
مولانا عبدالکریم صاحب مدظلہٗ نے بتایا کہ سب سے پہلا حضرت مولانا پیر
ذوالفقار احمد نقشبندی مدظلہٗ کا اسلام آباد میں بیان جامعہ مسجد الکوثر
میں ہی ہوا تھا۔ تو اب متعلقین حضرات نگاہ نہیں رکھتے ۔ حضرت مولانا محمد
طیب صاحب مبلغ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے کہا کہ رابطہ مضبوط رکھئیے یقین
پختہ ہو تو توجہ ہو ہی جاتی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اصل میں حضرت یہ کہنا
چاہتے ہیں کہ اوپر سے حکم ہو ہم آپ کے پاس آرہے ہیں اورحضرت اوپر سے پوری
توجہ کے طلب گار ہیں۔
حضرت مولانا محمد طیب صاحب نے کہا کہ اس بات کا بڑا خوبصورت جواب ہو سکتا
ہے ۔ میں نے کہا ہر بات کا جواب دینا ضروری نہیں ہے ادھار بھی تو ہوتا ہے
وہاں ہی حضرت شیخ الحدیث مولانا حبیب اﷲ نقشبندی مدظلہٗ سے راز و نیاز کی
باتیں ہوئیں ۔ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب نے بتایا کہ مجھے یہاں لا کر
حضرت حکیم ملت مولانا عبدالحکیم رحمتہ اﷲ علیہ نے بٹھایا تھا ان کے حکم کی
لاج رکھی ، دکھ سکھ کے دن یہاں بسر کئے ماشاء اﷲ کئی سال گزر گئے اور اﷲ
تعالیٰ کے حکم سے کامیابیاں عطا ہوتی رہیں۔اس کے بعد جب ہم واپس ہونے لگے
توحضرت نے خود اور ان کے صاحبزادگان نے الوداع کیا ۔ جن کو اﷲ تعالیٰ بڑا
بناتا ہے وہ ایسا ہی کردار اد اکرتے ہیں۔ حضرت نے بڑا اسرار کیا کہ رات
یہاں ہی قیام کریں چونکہ ہم نے مزید دو اہم کام کرنے تھے ایک تواستاذالقراء
حضرت مولانا قاری عبدالحفیظ قادری صاحب رحمتہ اﷲ علیہ کے صاحبزادوں سے
ملاقات کرنا اور دوسراکچھ اہم امور پر گفتگو کرنی تھی ۔ ماشاء اﷲ حضرت
رحمتہ اﷲ علیہ کے چاروں صاحبزادگان موجودتھے۔ حضرت مولانا قاری عبدالحفیظ
قادری رحمتہ اﷲ علیہ کی دینی ، سماجی اور رفاعی خدمات کا ذکر ِ خیر بھی ہوا
۔ قاری محمد اشرف صاحب سے فون پر بات چیت ہوئی قاری صاحب کا بڑا احسان مجھ
پر ہے کہ مولانا قاری محمد طارق نعمان صاحب کو حافظ قرآن بنانے میں ان کا
بہت بڑا کردار ہے۔ اس طرح کی محبت ہمارے بچے سے کی اور اس طرح پڑھایا کہ
بہت کم لوگ ایسی محنت اور شفقت اپنے حقیقی بیٹوں کے ساتھ بھی نہیں کرتے
جیسے انہوں نے محنت اور شفقت کی ہے۔ تازندگی اس بات پر ہم لوگ اور ہمارا
سارا خاندان ان کا شکر گزار ہے اور رہے گا۔
عشاء کی نماز جامع مسجد مدنی آئی نائن فور اسلام آباد میں پڑھی اس کے
بعدحضرت مولانا قاری عبدالحفیظ قادری رحمتہ اﷲ علیہ کے صاحبزادوں نے قادریہ
دسترخوان لگایا اور پرتکلف کھانا کھلایا اور رات دیر تک دلچسپ امور پر
باتیں ہوتی رہیں، حضرت رحمۃ اﷲ کی بیماری ان کے جنازے اور دیگرکئی امور پر
بھی بات چیت ہوتی رہی۔ گفتگو کے دوران میں نے عرض کیا کہ پانچ شخصیات بہت
سے امور میں اپنے والد سے بہت آگے بڑھ گئیں ،اور میں نے کہا کہ یہ میری
ناقص معلومات کے مطابق ہیں ان میں سے دو کا میں نے ذکر کیا تو جب مجلس
برخاست ہوئی حضرت قادری صاحب کے چھوٹے صاحبزادے عزیزم محمد عبداﷲ نے کہا کہ
دو کے نام بتائے اور تین کے نام رہ گئے ہیں ۔ میں نے کہا کہ یہ ادھار رہا ۔
مولانا سیف اﷲ عادل صاحب نے کہا کہ اپنے کالم میں ہی پھربتا دیجیے گا۔
۱۔ شہید ناموس رسالت و محافظ پاکستان حضرت مولانا سمیع الحق شہید رحمۃ اﷲ
علیہ
۲۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ ٗ
۳۔ حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب رحمتہ اﷲ علیہ
۴۔ مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی مدظلہ ٗ
۵۔ حضرت مولانا قاری محمد حنیف جالندھری مدظلہٗ
ان میں سے دو شخصیات پردہ فرما گئی ہیں اور تین زندہ ہیں اﷲ تعالیٰ ان
تینوں حضرات کو سلامت رکھے اور مرحومین کو اﷲ تعالیٰ جنت الفردوس میں اعلیٰ
مقام عطا فرمائے۔
فاضل نوجوان حضرت مولانا محمد ابو بکر صابری سلمہٗ کے حکم پر رات گلشنِ
صابریہ مرکزی جامع مسجد معاذ بن جبل آئی ایٹ اسلام آبادمیں بسر کی ۔ صبح کی
نماز کے بعد درسِ قرآن ہوا ، نمازِ فجر کی امامت مولانا حافظ القاری محمد
طارق نعمان گڑنگی صاحب نے کی جس میں سورۃ الرحمن کی ابتدائی آیات کو پڑھا
اور ان ہی آیات کو میں درس میں گفتگو کا موضوع بنایا ۔ مولانا محمد ابو بکر
صابری صاحب نے بتایا کہ میں درسِ قرآن آپ کے استاذِ محترم حضرت مولانا صوفی
عبدالحمید سواتی رحمتہ اﷲ علیہ کی تفسیر سے دیا کرتا ہوں۔آج آپ درس دیں کہ
آپ کے استاذِ محترم کی یادیں تازہ ہو جائیں۔ ماشاء اﷲ مدرسہ اور مسجد کی
صفائی اور سویرے نمازیوں کا مسجد میں آنا اور عرب کے لوگوں کی طرح قرآن
مجید کی تلاوت کرنا پرسکون ماحول اور درس میں بہت بڑی تعداد کا شریک ہونا
یہ بہت بڑے اعزاز کی بات ہے ۔ درسِ قرآن کے بعد لاتعداد لوگ ملے اور دعاؤں
کی درخواستیں کرتے رہے اور محبت کا اظہار بھی کرتے رہے۔ وظائف وغیرہ پڑھے
پھر کچھ آرام کیا اٹھے اور ناشتہ کیا اور ہماری اگلی منزل جامعہ اصحاب صفہ
ویسٹریج راولپنڈی تھی جہاں مخدوم العلماء والقراء والطلباء حضرت مولانا
قاری عبدالمالک صاحب دام ظلہم ہمارے انتظار میں تھے وہاں حضرت سے انٹرویو
لیا جس میں حضرت نے یاد گار باتیں اور دلچسپ امور کا ذکر کیا ، ان شاء اﷲ
حضرت کا یادگار انٹر ویو کسی دوسری مجلس میں ذکر کریں گے ۔
حضرت سے دعائیں لیں اور حضرت قاری مبارک علی مد ظلہٗ سے بھی ملاقات ہوئی اس
کے بعد گلشن اسحاق ؒ جامعۃ العلوم الشرعیہ میں تقریب تکمیل بخاری شریف میں
شرکت کی ۔صاحبزادہ مولانامحمد طارق نعمان گڑنگی نے اسی جامعہ سے 2011میں
دورہ حدیث شریف کیا ۔جامعہ میں دوسری مرتبہ حاضری کا شرف حاصل ہو ا۔اس
جامعہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کا آغاز ہی دورہ حدیث شریف سے ہوا ہے۔ اس
مرتبہ یہاں سے37طلباء کی دستار بندی ہوئی اور سند فراغت حاصل کی آخری حدیث
کادرس جامعہ ہذا ہی کے شیخ الحدیث یادگار اسلاف حضرت مولانا عبدالرؤف صاحب
مدظلہٗ نے دیا ۔ درسِ حدیث کے بعد حضرت مولانا ظہیر الدین امازئی صاحب کا
بیان ہوا ، پھر راقم الحروف نے چند گذارشات عرض کیں ۔ یادگار اسلاف حضرت
مولانا محمد عبدالمعبود صاحب مدظلہٗ سے بھی ملاقات ہوئی اور پھر جانشین
فاضل دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا محمد یوسف خان رحمتہ اﷲ علیہ آف پلندری
حضرت مولانا سعید یوسف صاحب سے یادگار ملاقات ہوئی سوانح حیات حضرت مولانا
محمد یوسف خان صاحب اور خطبات سعید کا بھی تذکرہ ہوا ، وہاں سے جب باہر
نکلنے لگے تو خطیب ابن خطیب جانشین خطیب العصر اور سفیر اسلام حضرت مولانا
سید فیصل ندیم شاہ صاحب سے ملاقات ہوئی یہ پہلی ملاقات تھی تو حضرت نے بہت
ہی عجیب جملہ فرمایا ،آپ کا میں بھتیجا ہوں آپ پر میرا بھی حق ہے اور میرے
اوپر آپ کا بھی حق ہے آپ آج ہمارے ہاں آئیں میں نے عرض کیا آپ نے تو یہ
جملہ کہہ کر بڑے خوبصورت انداز میں قابو کر لیا مگر آگے دوسرے پروگرام
ہیں۔خطیب اسلام حضرت مولانا سید عبدالمجید ندیم شاہ صاحب پر تفصیلی مضمون
راقم الحروف ہی نے لکھا ہے اور ان شاء اﷲ آئندہ بھی لکھا جائے گا۔ ان کا
ذکر خیر ہمیشہ ہوتا رہے گاوہ اپنے وقت کے بہت بڑے خطیب تھے ان پر جتنا بھی
لکھا جائے بہت کم ہے ۔جب بھی ان پر مضمون لکھا جائے گا تویہ لکھنا پڑے گا
وہ تو بہت بڑے آدمی تھے اور بڑی خوبیوں والے تھے ۔
حضرت مولانا سعید یوسف صاحب سے جب امام اہلسنت ، استاذ المحدثین حضرت
مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور مفسر قرآن صوفی با صفاحضرت مولانا صوفی
عبدالحمید سواتی رحمتہ اﷲ علیہما کا ذکر خیر کیا کہ وہ حضرات بھی کہا کرتے
تھے مولانا محمد یوسف خان کشمیری پلندری والے ہمارے کلاس فیلو ہیں ۔ حضرت
مولانا سعید یوسف صاحب سے میں نے کہا کہ یہ بہت ہی عجیب کلاس تھے کہ جو
جہاں گیا وہ وقت کا امام بنا اور بہت بڑا کام کرگیا جہاں گیا وہاں چھا گیا
اگر میں یوں کہوں تو مناسب ہو گا سارے جہاں پہ چھا گیا اور دلائل و براہین
کے ساتھ اپنی بات منوا گیا۔
مولانا سعید یوسف صاحب نے کہا کہ آپ نے صحیح کہا کہ ایسا ہی ہے ان حضرات کے
ایک اہم کلاس حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب رحمتہ اﷲ علیہ کراچی والے
بھی تھے ، حضرت نے فرمایا آپ دو دن نکال کر کشمیر تشریف لائیں اور ہمارے
تصنیفی کام کو بھی دیکھیں ۔ درمیان میں حضرت نے ایک بہت خوبصورت لطیفہ
سنایا جو بڑا ہی دلچسپ ہے ۔ قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں۔
رمضان المبارک کا ماہ مبارک تھا کہ ایک مرید نے ایک پیر صاحب کو دس روپے
دیئے اور اس نے دعا کی اور خوب لمبی دعا کی افطاری کا وقت بھی گزر گیا ایک
دوسرے شخص نے اس سے کہا اُٹھ دس روپے اور دے تاکہ اب دعابند کریں ۔
دس آغاز کے اوردس بند کرنے کے،چنانچہ ایسے ہی ہوا دس اور ملے تو پیر صاحب
نے منہ پہ ہاتھ بالآخر پھیر ہی دیا۔
یہاں سے فارغ ہونے کے بعد ہماری اگلی منزل حضرت مولانا عبدالمجید عابد صاحب
کی عیادت تھی ۔حضرت کی ملاقات اور عیادت کے بعد مغرب کی نماز مرکز
رشدوہدایت امن و امان کا گہوارہ عالم اسلام کے مایہ ناز اداروں میں ایک
مرکزی ادارہ قدیم تعلیمی درس گاہ جامعہ فرقانیہ مدنیہ راولپنڈی میں پڑھی
اور نماز کے بعد وہاں تقریب تکمیل بخاری تھی جس میں راقم الحروف نے بھی
گزارشات عرض کرنے تھیں۔ یہی وہ ادارہ ہے جس کے بانی اور مہتمم محسن ملت اور
حکیم ملت حضرت مولانا عبدالحکیم رحمتہ اﷲ علیہ تھے اب اس ادارے کے مہتمم
حضرت کے جانشین اور خیرخواہ ملت حضرت مولانا عبدالمجید ہزاروی صاحب دام
مجدھم ہیں اس پروگرام کے مہمان خصوصی حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان صاحب
جانشین شیخ العلماء و الصلحاء حضرت مولانا سلیم اﷲ خان صاحب رحمتہ اﷲ علیہ
تھے ، حضرت کے بیان سے پہلے راقم الحروف اور حضرت شیخ الحدیث مولانا قاضی
مشتاق احمد صاحب اور مولانا عبدالمجید ہزاروی صاحب نے بیان کیا ۔ میں نے
اپنی گزارشات میں عرض کیا کہ حکیم ملت مولانا عبدالحکیم رحمتہ اﷲ علیہ نے
جس نہج کے اوپر کام کیا ہے وہ کامیاب رہے اور اسی نہج پر موجودہ دور میں
فضلاء کو کام کرنا ہوگا۔
شیخ الحدیث مولاناعادل خان صاحب نے علمی بیان کیا اور آخری حدیث کا درس دیا
،پروگرام کے اختتام پر نمازِ عشاء ادا کی کھانا کھایا او ر واپسی کے لیے
رختِ سفر باندھا رات 2 بجے کے قریب گھر پہنچے بالآخر یہ مبارک سفر کئی
یادوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا
باری تعالیٰ سے دعاہے کہ اس عظیم سفر کو ہمارے لیے نجات کا ذریعہ بنائے
(آمین یارب العالمین ) |