آج جانے کیوں ایک واقعہ یاد آ رہاہے ۔ اس واقعہ کا موجودہ
حالات سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ، کسی کو لگے اور اس کی دل آزاری ہو تو
معذرت خواہ ہوں۔ہاں مگر اس واقعہ کا تعلق میری موجودہ ذہنی حالت سے ضرور ہے۔
میری سوچ سے جڑا تعلق۔بہر حال واقعہ ہے، بس ایسے ہی جیسے کوئی کہانی ہواور
کہانیاں سننے کے لئے ہوتی ہیں۔ آپ بھی سن لیں۔میرے ایک عزیز کی فیکٹری تھی۔
فیکٹری کے جنرل مینجر ایک تیز آدمی تھے۔ مالکوں کو بھی فیکٹری کے اپنے
متعلقہ بہت سے معاملات میں دخل دینے نہیں دیتے تھے کہ بطور جنرل مینجر یہ
ان کا استحقاق ہے کہ وہ ہر فیصلہ اپنی مرضی سے کریں اور مالکان کو بس مطلع
کر دیں۔ اگر کوئی غلط بات ہو تو مالکان اس سے پوچھ لیں لیکن غیر ضروری
مداخلت سے اس کے کام میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔فیکٹری میں فوڈ پراڈکٹس تیار ہوتی
تھیں جن کے لئے تمام خام مال مینجر صاحب کے عزیزواقارب فراہم کرتے تھے۔کوئی
چیز جو بازار میں دس روپے کلو تھی وہ بازار سے خرید کر بارہ تیرہ روپے میں
فیکٹری کو سپلائی کر دیتے۔ جنرل مینجر صاحب یہ سب چیزیں اپنے کسی ملازم کے
ذریعے بازار سے براہ راست بھی خرید سکتے تھے مگر ان کی منطق تھی کہ سپلائر
کو تھوڑے سے پیسے زیادہ دینے سے سپلائی بروقت ہوتی ہے اور ان کے کام میں
کوئی رکاوٹ بھی نہیں آتی ۔ مالکان کو بہت سے لوگوں نے بھڑکایا بھی مگر ان
کا جواب تھا کہ ہماری جو چیز سو روپے میں بکتی ہے اس پر ہمیں بیس ، پچیس
فیصد سے زیادہ نفع مل جاتا ہے۔ اگر وہ دو چار فیصد ہمارا جنرل مینجر بنا
لیتا ہے تو کیا فرق پڑتا ہے ۔
کوئی بات لگاتار کی جائے تو ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ نہ چاہنے کے باوجود
آدمی سوچنے پر مجبور ہوتا ہے۔ مالکان جنرل مینجر کی کرپشن کی داستانیں ہر
ایک سے سن کر پہلے وہم کا شکار ہوئے پھر اپنے جنرل مینجر سے الجھنا شروع ہو
گئے۔ کچھ ہی دنوں میں صورت حال بگڑ گئی اور مینجر صاحب فارغ کر دئیے
گئے۔نئے مینجر کی تلاش شروع ہوئی۔ اب کوئی انتہائی ایماندار آ دمی درکار
تھا۔ بڑی تگ و دو کے بعد ایک فارن کوالیفائیڈ مینجر صاحب ہاتھ لگے کہ پابند
صوم و صلوۃ بھی تھے۔پردیس میں بھی انہوں نے بہت سی فیکٹریوں میں کام کیا
تھا۔ اور پاکستان آنے کے بعد چھ سات فیکٹریوں کے انچارج رہے۔ انہیں مینجمنٹ
کا وسیع تجربہ تھا۔خود کو مینجمنٹ گورو کہلوانا پسند کرتے تھے۔ باتیں کرتے
تو بس زمیں آسمان کے قلابے ملا دیتے ۔اس گوہر نایاب کا ملنا تھا کہ مالکان
اب کرپشن کے حوالے سے بہت مطمن ہو گئے۔ وہ خوش بھی تھے کیونکہ انہیں یقین
تھا کہ سابقہ مینجر جو چار پانچ فیصد اپنی جیب میں ڈالتے تھے وہ بھی انہی
کے پاس آئے گا۔
نئے مینجر نے آتے ہی فیکٹر ی میں ہر طرف بگاڑ کی شکایت کی اور فیکٹری کو
کرپشن فری کرنے کا اعلان کر دیا۔ پہلے ہلے میں دس بارہ بندے نکال دئیے گئے
۔دس بارہ کو ایسی جگہوں پر تعینات کر دیا جہاں وہ بالکل غیر فعال ہو گئے۔
وہ کام کچھ نہیں کر سکتے تھے مگر تنخواہ پوری وصول کر رہے تھے۔اس انقلاب کے
بعد ایک دم فیکٹری کی پروڈکشن بہت کم ہو گئی۔ مگر کوئی نہیں بولا۔ شاید اس
لئے کہ موزے تنگ نے کہا تھا، ’’کوئی تعمیر ابتدا میں تخریب کے بغیر ممکن
نہیں‘‘۔ نئے مینجر کی یہ ساری تخریب تو تعمیر کی ابتدا تھی۔حالات ناسازگار
دیکھ کر کچھ لوگ جو برسوں سے فیکٹری میں کام کر رہے تھے اور مالکان کے
وفادار بھی تھے ، استفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔ کچھ نے چھٹی لے لی۔ پروڈکشن
بمشکل دس فیصد رہ گئی۔ مالک پریشان مگر مینجر صاحب انہیں حوصلہ دیتے رہے کہ
پرانا گند صاف کرنے اور فیکٹری کو نئے بہتر انداز میں چلانے کے لئے تھوڑا
وقت تو لگتا ہے۔ نئے ایماندار بندے ڈھونڈھ کر لائے جا رہے ہیں، جلد صورت
حال بہتر ہو جائے گی۔ اپنے مینجمنٹ کے تجربات کے لئے انہوں نے فیکٹری کو
ایک تجربہ گا ہ بنا کر ہر وہ کام کیا کہ جس کے نتیجے میں کچھ حاصل نہ ہوا
البتہ پرانی انتظامیہ کے خلاف اس کی نا اہلی اور کرپشن کے حوالے سے ایک
کتاب تیار ہو گئی۔ سال کے قریب گزر گیا ۔ فیکٹری کی بگڑی حالت کے پیش نظر
بہت سا قرضہ بھی بنکوں سے لیا ۔ مگر تمام تر کوشش کے باوجود صورت حال میں
کوئی تبدیلی نہ آئی۔مالکان اب روٹی اور اپنے ذاتی اخراجات سے بھی تنگ ہو
گئے۔
وہ فیکٹری جو بے ایمان مینجر کے وقت میں مالکان کو بیس سے پچیس فیصد منافع
اور اس کرپٹ مینجر کو چار پانچ فیصد ناجائز رقم فراہم کرتی تھی دیوالیہ
ہونے پر آ گئی۔مالکان سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ کیا کیا جائے ۔ فیصلہ ہوا کہ
سب سے پہلے خرابی تلاش کی جائے۔مینجر صاحب سے بات ہوئی ۔ انہوں نے بہت سی
جگہوں اور چیزوں کی نشان دہی کی کہ ایسا کیا جائے تو یہ کمال ہو سکتا ہے
اور یوں کیا جائے تو یہ دنیا کی بہترین فیکٹری بن سکتی ہے۔مگر ان کے ہر
مشورے کا تعلق مزید پیسے لگانے سے تھا۔ مالکان جو پہلے ہی قرضے میں غرق
تھے۔ مزید قرضہ لینے کو تیار نہ تھے۔ انہوں نے کچھ دوسرے فیکٹری مالکان سے،
جو ان کے دوست تھے، بھی مشورہ کیا۔ ان سب کا خیال تھا کہ خرابی فیکٹری میں
نہیں ، مینجمنٹ کے گورو ، ان کے نئے کرپشن فری مینجر صاحب میں ہے۔ مینجمنٹ
کے لوگ بہت اچھے ساتھی ہوتے ہیں، اپنی خوبصورت باتوں سے یہ آپ کی مدد تو کر
سکتے ہیں، آپ کے لئے دنیا جہاں کو باتوں سے بہلا پھسلا کر استعمال کر سکتے
ہیں۔ چیزیں بیچنے میں بہت تیز طرار ہوتے ہیں مگر اکیلے کوئی ایسا کام نہیں
کر سکتے جہاں کمپیوٹر کی بجائے اپنا دماغ استعمال کرنا پڑے۔
مالکان کویہ بات سمجھ آ گئی کہ پروڈکشن کے لئے کسی پرڈکشن کے ایکسپرٹ کو
ڈھونڈھنا ہو گا۔ فوری فیصلہ کیا گیا۔ کرپشن فری مینجر صاحب سے معذرت کرکے
انہیں فارغ کر دیا گیا۔ نئے مینجر جن کا سارا تجربہ پروڈکشن کا تھا، نے دو
تین ماہ میں فیکٹری کو آسانی سے اپنی پہلی بہتر حالت پر پہنچا دیا۔بات صرف
اتنی تھی کہ کوئی عہدہ کسی کو دیتے وقت ہم سوچ لیں کہ وہ شخص ا س کا اہل
بھی ہے یا نہیں۔ کہتے ہیں ہلاکو نے مرتے وقت کہا کہ میں خوش ہوں کہ میں نے
اپنے عوام سے کوئی زیادتی نہیں کی۔ لوگوں نے حیران ہو کر پوچھا کہ کیسے ،
آپ نے تو اس قدر خون بہایا ہے، اس قدر ظلم کیا ہے۔ ہلاکو نے جواب دیا،’’میں
فاتح تھا، اور مفتوحہ علاقوں میں فاتح لوگوں کا اقتدار کے لئے قتل وغارت
کرنا کوئی بات نہیں، لیکن میں نے اپنے دور میں کسی بھی نااہل شخص کو چاہے
وہ مجھے جتنا بھی عزیز ہو، کوئی عہدہ نہیں دیا ، اگر میں ایسا کرتا تو یہ
میری اپنے عوام کے ساتھ زیادتی ہوتی‘‘۔ |