اگر میں وزیراعظم ہوتا۔

اگر میں وزیراعظم پاکستان ہوتا تو تبدیلی کا پہلا قدم میرا یہ ہوتا کہ اپنی کابینہ کوسب سے پہلے یہ حکم دیتا کہ آج تک جتنی مہنگائی ہے جس کا تعلق کم سے کم اناج اور اشیاء خوردونوش سے ہو اور بنیادی ضروریات جس میں بجلی ، پانی اور گیس شامل ہے ان کو وہیں منجمد کر دو جہاں پر وہ اس وقت ہیں ، ان اشیاء کی قیمتوں میں کسی طور پر ایک پیسے کا بھی اضافہ نہیں ہونا چاہیے، اس طرح کرنے سے عوام کو پہلی خوشگوار تبدیلی ملتی ، اگر میں وزیراعظم ہوتا تو اعلان کرتا ملک کے بڑے بڑے شہروں جیسا کہ کراچی ، لاہور ، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ سمیت دیگر جو شہر ہیں ان کے انفراسٹریکچر پر توجہ دی جائے، اگر میں وزیراعظم ہوتا تو اپنی کابینہ سے کہتا کہ وہ اپنی اپنی وزارتوں میں جاری ترقیاتی پروجیکٹ کی تمام تفصیلات پارلیمنٹ میں اور عوام کے سامنے پیش کریں اور بتائیں کو کونسا پروجیکٹ کب شروع ہوا اور اسے کب مکمل ہونا ہے اس کی لاگت کیا ہے، اگر میں وزیراعظم ہوتا تو وزیر تعلیم کو کہتا کہ وہ پورے پاکستان میں تعلیم کا ایک ایسا سلیبس تیار کریں جو پورے ملک میں یکساں ہو، اور تعلیم کا ذریعہ قومی زبان اردو اور انگریزی ہو، میں اعلان کر تا کہ تمام تعلیمی اداروں ، مدرسوں ، اسکول ، کالج اور یونیورسٹیوں کی خستہ حالی کو ختم کرو، پاکستان کے تمام سرکاری اسکولوں کا یونیفارم ایک جیسا ہو جبکہ پرائیویٹ اسکولوں کا الگ مگروہ بھی ایک ہی جیسا ہو، میں سختی سے اعلان کرتا کہ جہاں جہاں عوام سرکاری دفتر آتے ہیں اپنے معاملات کے لیئے وہاں ان کے بیٹھنے کا انتظام ہو اور سب کو برابری کی بنیاد پر اپنی اپنی باری پر بلایا جائے، جس طرح کراچی کے پاسپورٹ آفس میں سارا کام کمپیوٹر پر ہوتا ہے سب کو انتظار کا نمبر ملتا ہے ، اگر میں وزیراعظم ہوتا تو تمام تھانوں میں عوامی شکایات کے لیئے ایک سیل بنواتا جس میں اس علاقہ کے معزز حضرات کے علاوہ گورنر ہاؤس کا نمائندہ بھی ہوتا جو تمام تھانوں کو پابند کر تا کہ وہ کسی بھی ملز م کے ساتھ کسی طورپر کوئی بد سلوکی یا تشدد کا عمل نہ کرے کیونکہ پولیس انہیں ملزم کے طورپر عدالت لے جاتی ہے مجرم کے طور پر نہیں اور سارا تفتیشی نظام سائنسی بنیادوں پر ہونا چاہیے، کسی طورپر اس تفتیش کو مسخ نہ کیا جائے، میں وزیراعظم ہوتا تو صوبے کے انسپکٹر جنرل پولیس کو کہتا کہ وہ صوبائی وزیر داخلہ کے ساتھ کم سے کم تین ماہ میں ایک دفعہ تھانے میں عوامی کچہری لگائیں وہاں غیر قانونی قیدیوں کا پتہ چلائیں ، اگر میں وزیراعظم ہوتا تو انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر بجلی ، پانی اور گیس کے بل کا ریٹ اس رہائش گاہ یا دوکان کی وسعت کے مطابق کر تا مثلااس وقت بجلی ، پانی اور گیس کے بلوں کا ریٹ ساٹھ گز کے مکان سے لیکر 6000گز کے بنگلے ہر ایک ہی ہے جبکہ ان کو حسب وسعت بل کا ریٹ دیا جائے، 60گز سے لیکر 120گز کے مکان یا فلیٹ پر سب سے کم ریٹ رکھا جائے پھر 125گز سے لیکر 240گز پھر 250گز سے لیکر 400گز پھر 450گز سے لیکر 600گز اور اس سے اوپر جتنے بھی بڑے بڑے بنگلے ہوں ان کے لیے بجلی ، پانی اور گیس کے بلوں کے ریٹ مختلف ہوں اس طرح ایک طرف آمدنی میں اضافہ ہوگا اور دوسری طرف چھوٹے گھر والوں کے ریٹ میں کمی ہوگی، یہی اصول کمرشل عمارتوں پر کیا جائے اگر میں وزیراعظم پاکستان ہوتا تو سب سے پہلے شہر قائد کراچی کی بحالی پر توجہ دیتا اس سے ہونے والی آمدنی کا 20فیصد اسی شہر کے انفراسٹریکچر پر خرچ کرتا یہ اصول صرف 5سال کے لیئے کافی ہے، اگر میں وزیر اعظم پاکستان ہو تا تو پارلیمنٹ کے تمام ارکان خواہ وہ کسی بھی جماعت کے ہوں ان کو پاکستان کے ترقیاتی اسکیموں کی نگرانی میں شامل کرتا اور ان میں جو تجربہ کار قابل لوگ ہیں انہیں وزارت میں شامل کرتا جیسا کہ مسلم لیگ کے مفتاح اسماعیل ، ملک احمد خان، احسن اقبال، غلام دستگیر تا کہ ملک میں جو مثبت تبدیلی لانا چاہتا ہوں اس میں کامیاب ہوتا، اگر میں وزیراعظم پاکستان ہوتا تو کبھی کسی بھی سیاسی پارٹی کو چور یا ڈاکو نہیں کہتا بلکہ یہ کہتا کچھ پارٹیوں کے لوگوں نے اپنے زمانے میں ناجائز اختیارات کے ذریعہ ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹاہے اس لیئے ہماری حکومت ان کو انصاف کے کٹہرے تک لے جائے گی، ان کے ساتھ اسوقت رعایت کی جائے گی جب وہ لوٹی ہوئی دولت قومی خزانے کو واپس کردیں گے۔ اگر میں وزیراعظم پاکستان ہوتا تو میری سیاسی جدوجہد پاکستان کے پارلیمانی نظام کے بدلے صدارتی نظام کے لیے ہوتی۔ اور اسی پارلیمنٹ کو قائل کر تا کہ پاکستان کی ترقی ، خوشحالی ، امن کا پیریڈ ہمیشہ اس وقت رہا جب جب ملک میں صدارتی نظام تھا، اس میں قومی یکجہتی پیدا ہوتی ہے اور معاشی اقتصادی طور پر ملک مضبوط ہوتا ہے، اس میں کہیں صوبائیت پر سیاست نہیں ہو سکتی، اگر میں وزیراعظم پاکستان ہوتا تو ایک اہم سیاسی فکر لاتا کہ جو پاکستان میں مذہبی جماعتیں ہیں جن کی بنیا د مسلک ہے انہیں سیاست سے منع کرتا مذہبی جماعتوں کو مذہبی اور مسلکی آزادی دیتا اور جتنی سیاسی جماعتیں ہیں انہیں کبھی مذہبی یا مسلکی بنیادوں پر سیاست نہیں کرنے دیتا، یہی وہ حل ہے جو پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان بناتا، قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی ایک تقریر میں یہ کہا تھا پاکستان وجود میں آگیا ہے یہاں کا ہر شہری پاکستانی ہے وہ اپنے مذہبی ، دینی معاملات میں آزاد ہے اپنے اپنے عقیدے کے مطابق جیسے چاہیں عبادت کریں ریاست کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ ہماری افواج پاکستان کے ترجمان آئی ایس پی آر نے بھی ہمیشہ قائداعظم کے اس فکر کو اپنایا ہے اس ادارے نے پاکستان کو داخلی اور خارجی طور پر بہت مضبوط کیا ہے، اس ملک میں جو آج امن و سلامتی نظر آرہی ہے اس میں افواج پاکستان کا بڑا اہم کردار ہے، لیکن وقت کا تقاضا ہے کہ تمام شہروں میں امن عامہ کی ذمہ داری صرف پولیس پر ڈالی جائے اور رینجرز جیسے اہم ادارے جس نے شہروں کو مافیا سے نجات دلائی انہیں صوبائی سرحدوں پر تعینات کیا جائے تاکہ اسمگلنگ کی روک تھام ہوسکے اور دہشت گردوں کو آسانی سے کسی شہر میں داخلہ نہ ملے، شہروں میں پولیس کو ہر ضروری اسلحہ سے ان کی اہم ضروریات کو خاص بجٹ کے ذریعے پورا کیا جائے، محکمہ پولیس میں نچلی سطح پر بہت بد عنوانی ہے جو ڈی ایس پی کی سطح تک ہے ان کو تبدیل کیا جائے، تعلیم یافتہ لوگوں کو ایس ایچ او بنایاجائے ان کا خاندانی پس منظر دیکھ کر آج بھی شہر کراچی میں AIGسے لیکر SPتک بہت سے اعلی تجربہ کار پولیس افسران موجود ہیں ان سے استفادہ لیا جا سکتا ہے، اگر میں وزیراعظم پاکستان ہوتا تویہ سارے اقدامات چھ ماہ میں مکمل کر لیتا ، ہمارے موجودہ وزیراعظم عمران خان بے شک تعلیم یافتہ ، ایماندار اورقو م سے مخلص ہیں مگر ان کے پاس ویسی ٹیم نہیں ہے جیسی ورلڈ کپ جیتنے کے وقت تھی ۔

Allama Syed Mohsin Kazmi
About the Author: Allama Syed Mohsin Kazmi Read More Articles by Allama Syed Mohsin Kazmi: 5 Articles with 15158 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.