آج ملک بھر میں صدارتی نظام حکومت کے بارے میں بحث ہو رہی
جو کہ لائق تحسین ہے ۔ماہرین سیاسیات نے صدارتی اور پارلیمانی نظام ہائے
حکومت کی خوبیوں اور خامیوں پر طویل بحثیں کر رکھی ہیں۔ اعداد و شمار کی رو
سے دنیا کے ’’75 فیصد‘‘ جمہوری ممالک میں صدارتی طرز حکومت رائج ہے۔ یہ امر
واضح کرتا ہے کہ بیشتر ملکوں میں صدارتی نظام کو فوقیت حاصل ہے۔ اس نظام
میں صدر حکومت اور مملکت ‘ دونوں کا سربراہ ہوتا ہے۔پاکستان میں پارلیمانی
نظام کے تحت ہر سیاسی جماعت موروثی سیاست کر رہی ہے ،باپ کے بعد بیٹا پھر
پوتا نسل در نسل اپنوں کو نوازنے والا واحد ملک ہے جہاں غریب کبھی بھی
سیاست کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے ،دنیا بھر میں جس ملک میں بھی
پارلیمانی نظام ہے وہ ملک گوناگوں مسائل کا شکار ہے ،اب آپ دیکھیں کہ ہمارے
ملک میں گزشتہ کئی عشروں سے پارلیمانی نظام ہے اسی نظام کی بدولت آج لاکھوں
بچے سکولوں سے باہر ہیں ،غربت کے تناسب میں ہر روز اضافہ ہوتا جا رہا
ہے،ٹیکس دینے والی عوام اور اس پر عیاشیاں کرنے والے دس فیصد اشرافیہ ہے ،غریب
کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں جبکہ کہ سیاست دانوں کے کتوں کی بھی غذا بیرون
ممالک سے آرہی ہے تو پھر ہم کسطرح پارلیمانی نظام کی سپورٹ کریں میں
پارلیمانی نظام کی مخالفت پاکستان میں اس لیے کر رہا ہوں کیوں کہ ہم ترقی
پذیر ملک ہیں ہمارے ملک تعلیم کا تناسب ساٹھ فیصد سے بھی کم ہے ووٹ دینے
والے کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس کو اور کیوں ووٹ دے رہا ہے اور ہم
ایسی قوم کے باشندے ہیں جہاں ووٹوں کو نوٹوں کے بدلے بھی دیا اور لیا جا تا
ہے ،آپ ان کو ممالک کو دیکھیں جہاں پارلیمانی نظام ہے تو ان ممالک
میں،برطانیہ‘ آسٹریلیا ‘ کینیڈا ‘ ملائیشیا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں
ان ممالک میں پارلیمانی نظام حکومت اس لیے کامیاب ہوا کہ وہاں تقریباً
100فیصد آبادی تعلیم یافتہ ہے۔ ایک تعلیم یافتہ اور باشعور ووٹر جانتا ہے
کہ اس کی ذات ،محلے اور ملک و قوم کی بہتری کے لیے کون سا امیدوار موزوں
رہے گا۔ وہ عموماً کسی لالچ‘ ترغیب اور خوف کے بغیر آزادی سے اپنا ووٹ
استعمال کرتا ہے۔ مگر جن ممالک میں خواندگی کم ہے‘ وہاں پارلیمانی نظام
حکومت کا ناگفتہ حال دیکھ لیجیے…اس نظام کے باعث مجرم تک حکمران بن بیٹھتے
ہیں۔
اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان نے بھی ایک پریس کانفرنس میں پاکستان میں
صدارتی نظام کے نفاذ کی حمایت کی لگتا ہے کہ خان صاحب بھی پارلیمانی نظام
سے تنگ آئے بیٹھے ہیں۔کیوں کہ اس کی وجہ سے انہیں اپنی پارٹی میں ان
جاگیرداروں‘ وڈیروں اور کرپٹ طاقتور خاندانوں کی اولادوں کو بھی شامل کرنا
پڑا ہے جنہیں پاکستانی روز اول سے میدان ِ سیاست میں گھوڑے دوڑاتے دیکھ رہے
ہیں۔عمران خان ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ لگا کر میدان سیاست میں داخل ہوئے۔ اس
تبدیلی سے ان کی مراد نظام حکومت کو تبدیل کرنا ہے اور ان کے نزدیک صدارتی
نظام حکومت موجودہ پارلیمانی طرز حکومت سے بہتر ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے
کہ صدر بن کر انھیں اتنی طاقت مل جائے گی کہ وہ فرسودہ نظام تبدیل کرنے
والی پالیسیوں کو نافذ کر سکیں۔جبکہ سابق صدر اصف علی زرداری نے اپنی صدارت
کے دوران ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت اپنے اختیارات بھی پارلیمنٹ کو منتقل کر
دیے جس کے ذریعے وہ جمہوریت کو طاقتور بنانے کی سعی کرتے نظر آئے تھے لیکن
حقیقت میں غریب عوام پر جمہوریت نما آمریت مسلط کی گئی،اس نظام میں عام طور
پر طاقتور اور دولت مند لوگ ہی اسمبلیوں سے لے کر کونسلوں تک پہنچ سکتے ہیں۔
چناں چہ جمہوریت کے مشہور مقولے… عوام کی حکومت ‘ عوام کی طرف سے، عوام کے
لیے … کا تو جنازہ نکل چکا۔ حقیقت یہ ہے کہ روز اول سے مخصوص طاقتور ٹولہ
پاکستانی عوام پر حکومت کر رہا ہے۔ وہ پچھلے ستر برس میں محیر العقول طور
پر بارسوخ اور امیر ہو چکا۔ جبکہ عوام کی اکثریت غربت و جہالت کے گدھوں کے
پنجوں میں پھنسی بلبلا رہی ہے۔میں پاکستان میں صدارتی طرز حکمرانی کا
خواہشمند ہوں جہاں پر عوام کے ووٹوں سے صدارتی ریفرنڈم کا انعقاد کیا جائے
صدر ہی ایوان بالا ،ایوان زریں کا سربراہ ہو اس کا اختیار ہو کہ وہ کابینہ
سمیت تمام صوبوں پر گرفت حاصل رکھ سکے سینٹ اور کابینہ کی منظوری کے بغیر
بھی صدرمملکت کے فیصلے عوامی مفاد میں جو ہوں وہ آئین کا درجہ رکھتے ہیں
اور میں اس سے بڑھ کر یہ سمجھتا ہوں کہ صدارتی نظام بھی خلافت جیسا ہو ،صدر
عوام کے ووٹوں سے آئے لیکن اس کے پاس اختیارات بادشاہوں والے ہو ہم نے اپنے
پیارے ملک میں گزشتہ ستر سالوں سے پارلیمانی نظام بھی دیکھ لیا ہے، اب
خدارا اس نسل کو صدارتی طرز کا نظام بھی دیکھا دینا چاہیے ،پارلیمانی نظام
میں ہم نے دیکھ لیامک کو کس طرح ٹکرے کیا گیا ،نناوے فیصد عوام پر کسطرح
ایک فیصد اشرافیہ مسلط کیا گیا ہے ،تعلیم صحت اور انسانی بنیادی ضروریات سے
محرومی ہماری ہی قسمت میں کیوں ہے کیا ،یہ ملک چند خاندانوں کو ہی نوازنے
کے لیے بنایا گیا ہے ،اگر ایسا ہے تو اس ملک کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو یہاں
سے نکال کر کسی اور ملک کی شناخت دے دی جائے ،اس جمہوری پارلیمانی نظام کے
تحت روزانہ ہزاروں نوجوان میرٹ کا جنازہ پڑھتے ہیں ،والدین بچوں کو نجانے
کن کن حسرتوں سے انتہائی مشکلات ،نامساعد حالات میں تعلیم دلواتے لیکن ڈگری
کے بعد نوجوانوں کے جذبات کے ساتھ جو یہ سیاست دان کھیلتے ہیں تو بس پر ہم
اس جمہوری پارلیمانی نظام پر روتے ہیں ،پاکستان کے مخصوص حالات مدنظر رکھے
جائیں، تو حقیقتاً صدارتی نظام حکومت زیادہ سود مند دکھائی دیتا ہے۔ اس
نظام میں ارکان اسمبلی صرف قانون سازی کرنے تک محدود ہوجاتے ہیں۔ حکومت
کرنے میں عموماً ان کا زیادہ حصہ نہیں ہوتا۔ وجہ یہ کہ صدر پارلیمنٹ سے
باہر بیٹھے کسی بھی دانشور، عالم فاضل یا تجربے کار و اہل شخص کو وزیر
بناسکتا ہے۔ گویا پاکستان میں صدارتی نظام رائج ہوا، تو ارکان اسمبلی کی
قوت کم ہوجائے گی جبکہ عوام کے منتخب کردہ صدر کی طاقت بڑھے گی۔
صدارتی نظام میں صدر بھی اہمیت اختیار کرجاتا ہے۔ پارلیمنٹ کو مرکزی حیثیت
حاصل نہیں رہتی لہٰذا سیاست کاروبار نہیں بن پاتی۔ جبکہ پارلیمانی نظام میں
سیاست نسل در نسل چلتی اور اور گنے چنے خاندانوں کا انتہائی منافع بخش بزنس
بن جاتی ہے۔ پاکستان ہی کو دیکھ لیجیے جہاں اب مخصوص کوٹے پر کئی گھرانوں
کی خواتین بھی اسمبلیوں میں پہنچ رہی ہیں۔محسوس ہوتا ہے، انہیں قانون سازی
نہیں حکومت کرنے اور فیشن سے زیادہ دلچسپی ہے۔
صدارتی نظام کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اس میں عوام کو دو بار ووٹ ڈالنے کا
موقع ملتا ہے۔ یوں حکومت سازی میں ان کا کردار بڑھ جاتا ہے۔ عوام الناس
پہلے اپنے ووٹوں سے ارکان اسمبلی منتخب کرتے ہیں۔ پھر دوسری بار وہ صدر کا
براہ راست انتخاب کرتے ہیں۔جو امیدوار صدر بن جائے، وہ مختلف شعبہ ہائے
زندگی سے من پسند شخصیات چْن کر وزیر مشیر بناسکتا ہے۔ یوں باصلاحیت اور
اہل افراد پر مشتمل کابینہ وجود میں آتی ہے جو بہتر طور پر ملک چلانے کی
صلاحیتیں رکھتی ہے۔ وطن عزیز میں تو یہ تماشا بھی ہوچکا کہ میٹرک فیل ارکان
اسمبلی اہم عہدوں پر تعینات کردیئے گئے۔ یہ کرشمہ صرف پارلیمانی نظام میں
جنم لینا ہی ممکن تھا۔اب دیکھیں اسلامی ممالک میں ترکی بڑی اہمیت رکھنے
والا اسلامی ملک ہے اسلامی ممالک سمیت دنیا کی نظرین اب ترکی پر ہیں ترکی
کے صدر رجب طیب اردوغان نے ملک میں صدارتی نظام کے عملا نفاذ کے بعد جو کام
کیے ان سے پوری عالم اسلام کو فائدہ پہنچا ہے اگر تاریخی لحاظ سے جائزہ لیا
جا ئے تو اس بات کا واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ 60 برسوں پر محیط
عرصے میں پارلیمانی نظام نے ترک قوم کو کس حد تک دکھ دلایا ہے۔ کولیشن
حکومتیں اور ان کے موجب ہونے والے عدم استحکام کے نتیجے میں اقتصادی مسائل
اور فوجی بغاوتوں کے نقوش تاحال قوم کے ذہنوں سے نہیں مٹ سکے ترکی داخلی و
خارجی پالیسیوں میں انتہائی پیچیدہ اور ہنگامی نوعیت کے مسائل سے نبرد آزما
ہے۔ صدارتی نظام ان دونوں پالیسیوں میں فیصلہ میکانزم کو سرعت دلاتے ہوئے
ترکی کی طاقت و اثر و رسوخ کو بڑھانے میں ایک مضبوط زمین قائم کر سکتا ہے۔
کیونکہ حساب چکانے اور دیگرپہلووں سے ڈیموکریسی کے لیے زیادہ موزوں ہونے
والا صدارتی نظام ترک سیاسی تاریخ میں پارلیمان اور انتظامیہ کو آمنے سامنے
لانے سے بچائے گا اور اس طرح التوا میں پڑنے والے معاملات کو سرعت سے
نبٹانے کا موقع ملے گا۔نتیجتاً صدارتی نظام ترکی کے 80 سالوں سے در پیش
بنیادی معاشی، سماجی اور سیاسی مسائل کا حل تلاش کر سکنے کی استعداد کا
مالک ہے۔ پارلیمانی سلسلے میں پیچیدگیوں سے دو چار ان مسائل کو صدارتی نظام
کی بدولت بہتر طریقے سے حل چارہ نکالا جا سکتا ہے، ترکی کی راہ میں حائل
رکاوٹوں کو دور کر سکنا اسی نظام کے ساتھ ممکن بن سکے گا۔ |