دنیا تیسری عالمی جنگ میں داخل ہو چکی ہے اور کچھ پاکستان
کے نابغہ روزگار اساتذہ نوآموز بچوں کے ہاتھوں میں اپنے حسد اور کینے کے
ماچس دیکر ادبی جنگ کی تیاریاں کر رہے ہیں ،پوری دنیا کی نطریں پاکستان کی
جرات و بہادری اور دلداری پر جمعی ہوئیں تھیں ، ایک عرصے سے پاکستان کو
سائیڈ ہیرو کے طور پر ناصرف دیکھایا جاتا رہا بلکہ پاکستان کو دنیا بھر میں
رسوا کرنے کی بھر پور کوشش بھی کی گئی ایک اسلامی ملک ہونے کی وجہ سے نام
نہاد کافروں کے گماشتوں سے مسلم رشتہ جوڑ کر اسلام کے خلاف پراپیگنڈہ بھی
کیا جا رہا ہے دنیا کی کچھ قوتوں کے اس مکروہ چہرے سے جب پردہ ہٹا تو دنیا
نے دیکھا کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک تو انتہا ء پسندی کے خلاف نبرد آزما
ہے اور اربوں روپے کے ساتھ ہزاروں گھروں کے چراغ اس جنگ میں گل ہو چکے ہیں
مگر انسانیت کے رشتے سے نا واقف قوتیں یہ دجالی قومیں رات کے سناٹے میں سو
ئے لوگوں پر توپوں اور گولوں سے حملے کرنے آج ،،لنڈی رن کی طرح پردھان بنے
ہوئے ہیں اور لوٹ لوٹ کر اپنی تجوریاں بھرنے کے بعد امن پسند لوگوں کو
ناصرف تنگ کر رہے ہیں بلکہ انہیں جنگوں میں جھونک کر باہر بیٹھ کر معاشی
سانپ بن رہے ہیں دنیا کے کچھ ممالک دنیا سے لوٹے ہوئے سرمائے کے اوپر ناگ
کی طرح بیٹھے ہوئے ہیں آئے روز دنیا میں معصوم لوگوں کو قتل عام ہو رہا ہے
کوئٹہ سے لیکر نیوزی لینڈ تک نیوزی لینڈ سے لیکر سری نگر تک یہی بات سامنے
اآئی ہے کہ کچھ قوتیں ہیں جو عالمی جنگ کا ماحول پیدا کر رہی ہیں دلچسپ
صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کو معاشی پر اتنا کمزور کر دیا گیا ہے کہ پاکستان
اگلے 50 سال تک بھی جنگ کے متعلق نہیں سوچ تک اور نہ ہی کسی ملک کے ساتھ
کھڑا ہو کر اس کا ساتھ دے سکتا ہے مگر یہ سوچنے والے احمقوں کی جنت میں
رہتے ہیں پنجابی کا ایک محاورہ ہے""سنڈے دی پوشل مروڑیاں ویئر نئیں
مٹدے""پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے جو نہ صرف اپنا اور بلکہ اسلام کے خلاف سر
اٹھانے والے ہردشمن کی سر کوبی کر سکتا ہے دنیا میں دفاعی تجزے دیے جا چکے
ہیں کہ پاکستان معاشی طور کمزور ضرور ہے مگر بے بس نہیں کہ اپنے خلاف ہونے
والی سازشوں سییہ بے خبر ہے نہیں نہیں ایسا نہیں دنیا میں ہونے والی
تبدیلیوں اور جنگوں پر گہری نظر ہے کمزور معاشی ملک سے حال ہی میں ایک نام
نہاد جنگی جنون کا پردہ فاش ہوا جسے پوری دنیا میں سبکی کا سامنا رہا
پاکستان اور اسلام کے خلاف سازشیں کرنے والے اس بات کا خیال ضرور رکھیں کہ
یہ عالمی جنگ ایشاء تک محدود نہیں رہے اور ہمارے جانیں ہمارے پاس اللہ کی
امانتیں ہم نے ایک واپس اپنے مالک کے پاس جانا ہے اور گیڈر کی سو سالہ
زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی ہو ہم آج بھی بہتر جانتے ہیں .اور پاکستان
نے ہمیشہ دنیا بھر میں امن کے فروغ کو اپنی اولین ترجیح رکھا ہے اورآئندہ
بھی امن کی ہی دعوت دیتے ہیں کہ دنیا میں معصوم جانوں کی ضیاع سے باز رہا
جائے .اب نام نہاد ادیب اور شاعر جو کبھی نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہوا کرتے
تھے آج وہ ادیبوں کے خلاف سازشوں میں مگن ہیں اور چور باز معمولی واہ واہ
کیلئے مشاعروں میں دوسروں کا کلام پڑھنے سے گریز نہیں کرتے اوراس تاک میں
رہتے ہیں کہ کون شاعر نیا خیال پیش کرتا ہے اور اس کے خیال میں غزل کو کہا
جائے یہ ادبی دہشتگردی طول پکڑتی جا رہی پاکستان کے بڑے بڑے نام چند ٹکوں
کی خاطر نہ صرف اپنے ضمیر کو بھیج رہے ہیں بلکہ وہ صدارتیں کرنے والے حضرات
صف بندی کا کام سر انجام دیتے نظر آتے ہیں اور کچھ بچے کچھے اساتذہ جو کہ
نام نہاد ہیں ان کے ان کے اپنے پلے کچھ نہیں وہ اندر کے کینے اور حسد کو
پالنے کیلئے اپنے سکول کالج کے شاگروں کو تناہ کرنے کیلئے انہیں سازشی بنا
رہے ہیں میرے حساب سے اس اساتذ کے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ جب مجھے وہ بتا
رہا تھا کہ میرا ایک شاگرد ہے جو اپنے باپ کی عمر کے لوگوں کو بھائی کہہ
پکارتا ہے یا پھر اس کے کہنے کا مطلب تھا کہ وہ اتنا بد تمیز ہے اسے اپنے
باپ کے عمر کے لوگوں کا بھی لحاظ نہیں رہا خیر ہمیں اس سے کیا لینا دینا اس
چیز کے ذمہ دار بھی تو خود ہیں جب انہوں نے اس کی دم پر ہاتھ پھیرا اور اسے
جھڑکنے کی بجائے شاباشیں دیں آج نہیں تو کل اپنے حسد اور کینے کیلئے
استعمال کرنے والے ادبی دہشتگردوں کے سامنے وہی کھڑے ہوں گے ۔قبلہ حافظ
صاحب کئی بار اس بات کا ذکر کر چکے ہیں کہ کچھ انتہائی جاہل قسم کے ہیں اور
لوگوں سے کالم اور شاعر لکھوا کر اپنے نام شائع کر کے ادبی دہشتگردی کر رہے
ہیں ۔تو میرا حافظ صاحب کو یہی جواب کے کہ ایک دن یہی لوگ نہ صرف توبہ کریں
گے ۔بلکہ اپنی چوریوں کا اعتراف کرینگے ۔پوری دنیا پاکستان اور پاکستان کے
ادیبوں کو کینہ اور حسد کی نظر سے صرف اس لئے دیکھ رہی ہے کہ پاکستان کے
اپنے لوگ ہی اپنے لوگوں سے بے پناہ حسد کرتے ہیں ۔ حسد تمام نیکیوں کو
کھاجا تا ہے ۔۔۔۔ |